• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے تازہ ترین قومی سیاسی منظر پر نگاہ ڈالتے چلیں!
(1) سپریم کورٹ آف پاکستان نے کاغذات نامزدگی میں تبدیلی کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے کہا :’’اگر انتخابات میں تاخیر ہوئی تو ذمہ دار الیکشن کمیشن ہو گا۔ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور بروقت انتخابات کا انعقاد کروانے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے، جو کاغذات نامزدگی اس وقت تیار ہو چکے انہیں ہی جاری کیا جائے‘‘ یاد رہے نجی ٹی وی کے ایک اینکر پرسن حبیب اکرم کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک نے کاغذات نامزدگی میں ترامیم کالعدم قرار دے کر الیکشن کمیشن کو نئے کاغذات نامزدگی تیار کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عزت مآب جسٹس ثاقب نثار نے دوران سماعت سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’انتخابات میں تاخیر کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ انتخابات 25جولائی کو ہی ہوں گے۔ اگر تاخیر ہوئی تو الیکشن کمیشن ذاتی طور پر ذمہ دار ہو گا‘‘
عدالت عظمیٰ نے عام انتخابات میں کاغذات نامزدگی کی پرانی شقیں بحال کرنے سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران لارجز بنچ کی تشکیل کا عندیہ دیا اور بدھ (آج) تک کارروائی ملتوی کرتے ہوئے یہ ریمارکس بھی دیئے۔ ’’عام انتخابات 2018مقررہ وقت پر منعقد ہوں گے، اس میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہو گی۔ دو یا تین ماہ کے لئے انتخابات میں تاخیر کی بات ذہنوں سے نکال دی جائے، الیکشن کمیشن ضابطہ اخلاق پر آج ہی جواب داخل کرے، الیکشن کے معاملات جنگی بنیادوں پر چلنے ہیں، نئے اور پرانے ضابطہ اخلاق کا موازنہ کریں گے۔‘‘
(2) ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلشنز (آئی ایس پی آر) میجر جنرل آصف غفور نے قومی میڈیا سے گفتگو کے دوران میں کہا۔ ’’2018ملک میں تبدیلی کا سال ہے اور بروقت انتخابات سب کی خواہش ہے۔ مختلف جماعتیں انتخابات میں ایک دوسرے سے مقابلے میں ہیں۔ تاہم فوج کو سیاست میں نہیں گھسیٹنا چاہتے۔ ہم سے زیادہ کسی کو خوشی نہیں کہ حکومت نے اپنا وقت پورا کیا اور اس پر انہیں مبارکباد دیتے ہیں، پاک فوج کو خوشی ہے دوسری جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی، الیکشن کب کرانا ہیں؟ کیسے ہونے ہیں؟ یہ الیکشن کمیشن کا مسئلہ ہے لیکن سب کی خواہش ہے الیکشن ٹائم پر ہوں، نئی حکومت آئے اور چیلنجز کو لے کر چلے، الیکشن سے فوج کا کوئی تعلق نہیں، اس حوالے سے فوج کے پاس کوئی ٹاسک آئے گا تو آئین کے مطابق کردار ادا کریں گے جو پاکستان کے مفاد میں بہتر ہو‘‘
(3) کاغذات نامزدگی میں تبدیلی کی یہ رٹ الیکشن کا قومی شیڈول سر پر آ جانے کے وقت پر دائر کی گئی، اجتماعی نظم کی ابتری سے بچنے کے لئے قومی سیاسی جماعتوں نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر سواد اعظم کی ترجمانی کی اور اس فیصلے پر شدید ترین تحفظات کا مظاہرہ کیا۔ بہرحال بچت ہو گئی، کوئی مخلص تھا یا نہیں، یہ سوال ہی نہیں، سوال ملکی و ریاستی بصیرت کا ہے جس کے تحت انتخابات کا آئینی مدت پر بروقت انعقاد ہماری جغرافیائی اور انسانی بقاکے لئے ناگزیر ہے، اصلاح احوال کی عظمتوں کے نام پر نظم اجتماعی برباد کر کے پاکستان اور پاکستانی قوم کو غرق کرنے کی ’’جلد باز علمیت‘‘ کی عیاشی نہیں کی جا سکتی۔ ایک صاحب قلم نے اس ایشو پر کیا مومنانہ اپروچ کا مظاہرہ کیا، لکھتے ہیں ’’عوام کی رائے سے نظم اجتماعی کا قیام اجتماعی زندگی کو مستحکم رکھنے کی بنیادی ضرورت ہے، اس کے قیام کو اس بنیاد پر موخر نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے پاس مطلوبہ اوصاف کے لوگ موجود نہیں۔ نہ ہی یہ جائز ہے کہ چند افراد جسے نیک اور صالح کہیں اسے حکمران بنا دیں اور اس کو نظر انداز کر دیں کہ اسے عوام کا اعتماد حاصل ہے یا نہیں؟‘‘
---O---
پاکستان کی قومی تاریخ میں بی بی بے نظیر شہید صدواجب الاحترام شخصیت ہیں، بی بی شہید نے جہد مسلسل، عزیمت، علم و کردار کے ارتقائی مراحل و مقام کی ناقابل فراموش تاریخ سازی کی۔ وہ کسی قوم کے علمی مراکز اور فہم و عمل کی تربیتی درسگاہوں کے لئے روشن ترین مشعل ہیں۔ شہید ملت لیاقت علی خان کے بعد وہ دوسری ایسی متفقہ ’’قومی شہادت‘‘ ہیں جن کا زندہ و پائندہ لہو بہنے پر ہر پاکستانی کا ہر آنسوخوں رنگ ہوا، خزائیں مردہ ہو گئیں، انہوں نے آنے سے انکار کر دیا اور بہاروں نے اس دنیا کے رنگ و بو سے اعراض و علیحدگی کی راہیں اپنا لیں۔
پاکستان کی قومی تاریخ میں بی بی شہید نے جن نقوش کا احیاء کیا یا جو نقوش مرتسم کئے اس تناظر میں ہم مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ان کے بزرگوں کی استثنائی حیثیت پر رکھیں گے، مادر ملت نے بھی پاکستانی قوم کے لئے شخصی آمریت کے انسانیت کش تصور کو پاش پاش کیا۔ اس کی پہلی اینٹ کو اپنی تگ و تاز کے تاریخی ہتھوڑے سے چورا چورا کر دیا، وہ ایوب خان اور پس پردہ قوتوں کے مقابل سچائی اور عزم تھیں، نفس پرستانہ منصوبوں اور ناتمام حسرتوں کے بے برکت چراغ ان کے سامنے گل ہوتے گئے۔
پاکستان کے ان 70برسوں کے دوران ان دو عبقری خواتین کو تھوڑی دیر کے لئے زمانے کے باعزت طاق میں سجا کر رکھ دیں، پاکستان کی نارمل قومی زندگی کے ہر شعبے میں بھی غیر معمولی خواتین قطار در قطارپَرے باندھے نظر آتی ہیں۔ تعلیم، افسانہ، شاعری، انشائیہ، سائنس، ڈاکٹری، افواج، پولیس، فلسفہ، ناول نگاری، نثر، تنقید، سیاست اور صحافت میں پاکستان کی خواتین بے حد و حساب تاباں و فروزاں تاریخ کی حامل ہیں۔
عہد بہ عہد پاکستان کی معروف خواتین کی اس عظیم مالا میں تسبیح کے ایسے دانے بھی ہیں جن کی صلاحیتیں یا ذہانتیں وقت کی صبر آزما گردشوں کے ہاتھوں عدم توازن کے تھپیڑوں کی نذر ہو گئیں۔ ایک آدھ کا محور کسی نہ کسی طرح قائم رہنے کی صورت میں بھی وہ حالات کے ڈانواں ڈول پن سے محفوظ نہ رہی، اپنی ذات کے اظہار کے ذریعہ اس نے اجتماعی مقدمہ کے مشن میں قلم توڑ ڈالا مگر مین سٹریم تک رسائی ممکن نہ ہو سکی۔ تہمینہ درانی اس تناظر میں ماضی قریب کی ایسی مثال ہیں جن کا حال کے شب و روز پر بھی اطلاق کیا جا سکتا ہے، غلام مصطفیٰ کھر کے ساتھ ازدواجی زندگی کے تجربات و مشاہدات کے نتیجے میں ان کی شاہکار کتاب "My Feudal Lord"(مینڈھا سائیں) جاگیردارانہ سرشتی سماج اور عورت کی ایک طرح سے ازلی بے بسی و ضعف کے ایسے بیدار مغز معاشرتی امتزاج کی نمائندگی کی شاید دو چار مثالیں ہی دی جا سکیں، اصل حرماں نصیبی ناہید خان، ریحام خان اور عائشہ گلالئی جیسی خواتین کا مقدر بنتی ہے جنہیں وقت کے فیصلے صراط مستقیم کے بجائے واقعات کی غلط جمع تفریق کا چارہ بنا دیتے ہیں۔
ان کی ساری زندگی کے بے شمار قابل فخر ابواب اس غلط جمع تفریق کے بہی کھاتے کا اندراج بن کر لوگوں کے ذہن کی تختی پر سے مٹ جاتے ہیں۔
آپ دیکھیں ناہید خان پاکستان پیپلز پارٹی کی مین سٹریم سے علیحدہ ہو کر کہاں ہیں؟ سیاسی محرومی اور نایافت کی ایک ایسی گم شدہ ہوا جس کے جھونکے کا وجود کسی کو چھوتا تک نہیں۔ جبکہ وہ ادھر ادھر اپنا اتہ پتہ دینے کی سعی و کشمکش میں شب و روز مصروف رہتی ہیں اور پھر عائشہ گلالئی، منتخب آئینی حکومت کی آئینی رخصتی کے بعد اب وہ پارلیمینٹرین بھی نہیں رہیں، اپنی نئی سیاسی جماعت کی طرح وہ بھی اپنے معاشرتی حجروں کی ماحولیات کا حصہ بن چکیں، کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جب وہ کسی قومی یا صوبائی اسمبلی میں موجود نہ ہوں گی تب عائشہ گلالئی گم شدہ افسوسناک کہانیوں کا عنوان ہوں گی جنہیں پڑھنے کے لئے قلمکاروں کو قاری کے سامنے پہلے ان کا ’’تعارفی نوٹ‘‘ رکھنا پڑے گا۔
اور اب ریحام خان! کیا وہ کبھی اوج ثریا پر تھیں؟ کیا وہ اب تحت الثریٰ میں ہیں؟ متعلقہ کتاب، میڈیا کی چکا چوند، ’’ن‘‘ لیگ کی پُر اسراریاں، حمزہ عباسی کے ذہین شرارے ، سب درست، رونق بھی لگی رہے گی، شہرت و اہمیت کا بازار بھی سجا رہے گا، کب تلک؟ جس کو ٹارگٹ کرنا مقصود ہے وہ نخچیر ہو گا یا ریحام خان، ہمیشہ کے لئے گمنامی کے مذبح خانہ کی تقدیر بن جائیں گی؟ آپ صرف قریب قریب ایک سہ ماہی‘‘ انتظار کریں، ریحام خان کسی بدھا کی تلاش میں سرگرداں، اس کی صدائے بازگشت کے یہ الفاظ سننے کی منتظر ہوں گی ’’باز آئو، اپنے بچوں کے پاس واپس گھر جائو، کم از کم اس عارضی سیارے پر تمہارے بچے تمہاری انسانی حیثیت سے محروم نہ ہو پائیں۔ ‘‘
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین