علامہ سید آل احمد بلگرامی
سیّدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ بزرگوں کے بزرگ اورایک منفرد ہستی تھے۔(ندائے عدلت انسانی)یہ جملے ہیںمشہوردانش ورشبلی شمیل کے۔آپ کے بے مثال وبے شمارفضائل میں سب سے نمایاں فضیلت وامتیازیہ ہے کہ قدرت نے آپ کے وجود پُرنورکے دنیامیں ظہورکے لیے اپنے گھر خانہ کعبہ کاانتخاب کیا۔آپ کی13رجب 30عام الفیل کو خانۂ کعبہ میں ولادت ہوئی۔آپ کے مولودکعبہ ہونے کوعلما نے تسلیم کیاہے۔حضرت شاہ ولی اﷲ ؒنے ازالۃ الخفاء میں آپ کے فضائل کوبیان کرتے ہوئے کعبہ میں آپ کی ولادت کویوں بیان کیا ہے"من جملہ فضائل حضرت امیرالمومنینؓ جووقت ولادت ظاہرہوئے ایک یہ بھی ہے کہ آپ خانہ کعبہ میں پیداہوئے۔"مولوی محمد مبین فرنگی محلی نے اس شرف کاتذکرہ ان الفاظ میں کیا:"حضرت علیؓ کعبہ کے بیچوں بیچ پیداہوئے۔اﷲ تعالیٰ نے یہ خاص فضیلت آپ کوبخشی ۔
کعبے میں آپ کی ولادت نہ صرف آپ کے بلندمرتبے کی دلیل ہے،بلکہ آپ کے والدین کی عظمت کابھی ثبوت ہے،اگر علم نفسیات کے ماہرین کے اس متفقہ اصول کو ماناجائے کہ کسی بچے کی زندگی کی کامیابی کا انحصار بیش تر ان ہاتھوں میں ہوتاہے جواس کی تربیت اورپرورش میں کارفرماہوتے ہیں توپھرکیاکہنااس ہستی کاجس کی بچپن اورجوانی آغوش رسالتﷺ میں کروٹیں لیتے گزری۔حضرت علیؓ کے دل نے پہلی بارجب الفت کااحساس کیا توانہوں نے حضرت محمدﷺسے محبت کی، ان کی زبان جب پہلی بار گویائی سے آشناہوئی توحضوراکرمﷺ سے گفتگوکی اورپہلی نظرڈالی تودیدارمحمد ؐکی سعادت حاصل کی۔
حضرت شاہ ولی اﷲ دہلویؒ نے ازالۃ الخفاء میں امام احمدبن حنبلؒ سے روایت کی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت علیؓ کے جس قدر فضائل مذکورہیں،کسی کویہ شرف حاصل نہیں، اس کے بعدشاہ صاحب نے اس کی توضیح اس طرح فرمائی کہ حضرت علیؓ کی اس خصوصیت کے دوسبب ہیں، ایک یہ کہ انہیں شریعت اسلامی کاپوراعلم تھا۔دوسرا انہیں بوجہ قرابت نسبی قربت ظاہری بھی حاصل تھی،علاوہ بریں اﷲ تعالیٰ نے ان پرخاص عنایت یہ کی کہ انہوں نے آپﷺ کی آغوش تربیت میں پرورش پائی،اس پرمستزاد یہ ہواکہ آپﷺ نے حضرت فاطمہؓ کا عقدان کے ساتھ کردیا،اس وجہ سے ان کی فضیلت اورقربت میں اضافہ ہوگیا۔"
آپ کوسب سے پہلی خوراک لعاب دہن رسول اکرمﷺ کی ملی، چناںچہ خودآپ کی والدہ فرماتی ہیں:’’رسول اللہﷺ تشریف لائے اوربچے کوگودمیں لیااورمنہ میں اپنی زبان ڈالی بچہ رسول اکرم ﷺ کی زبان مبارک کوچوسنے لگا اورچوستا چوستاسوگیا،دوسرے روزہم نے دودھ پلانے والی عورت بلائی اس بچے نے اس عورت کا دودھ نہ پیا، ہم نے رسول اللہﷺ کوبلابھیجا۔آپ ﷺنے آکراپنی زبان مبارک کواس کے منہ میں ڈالا،وہ آپﷺ کی زبان مبارک کوچوستاچوستاپھرسوگیا۔حضرت علیؓ سرکارﷺسے اپنی قربت کوایک خطبے میں اس طرح بیان فرماتے ہیں:"تم رسول خداﷺکے نزدیک میری منزلت کوجانتے ہوکہ میں ان کے قریب ترین عزیزوں میں سے ہوںاورمجھے ایک خاص درجہ حاصل تھا۔آپﷺ نے مجھے بچپن ہی سے اپنے سایہ عاطفت میں رکھا۔آپﷺ مجھے اپنے سینے سے لگاتے اوراپنے بسترپرسلاتے تھے۔ میراجسم ان سے متصل رہتاتھااورمیں ہمیشہ ان کی خوشبوسونگھتاتھا۔انہوں نے کبھی میری گفتگومیں جھوٹ اورمیرے کردارمیں غلطی نہیں پائی۔ جس طرح اونٹ کابچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتاہے، اسی طرح میں آپﷺ کی پیروی کرتاتھا۔آپﷺ ہرروزایک علم بلندکرتے اورمجھے اپنی پیروی کاحکم دیتے تھے ۔روزاول سے ہی حضرت علیؓ کی پرورش اورتربیت کافریضہ رسول ﷺنے اٹھایا،بچپن ہی کاوہ زمانہ ہوتاہے، جب بچے کے اندراخلاق وتعلیم کوقبول کرنے کی پوری صلاحیت ہوتی ہے ۔حضرت علیؓ برسوں رسول اللہﷺ کے سایہ عاطفت میں رہ کرآپﷺ کافیض حاصل کرتے رہے۔ رات ہویادن سفرہویاحضرہروقت ہرحال میں حضرت علیؓ حضورﷺ کے ساتھ رہے۔ آپ رسولﷺ کے رنگ میں رنگ گئے تھے۔حضوراکرمﷺ نے بھی اپنے ہونہارشاگرد کووہ تمام باتیں تعلیم دیں جوانہیں من جانب اﷲ وحی ہوتی تھیں،چناںچہ حضرت علیؓ کاقول ہے :مجھے رسول اکرمﷺ نے اس طرح بھرایاجس طرح پرندہ اپنے بچے کوبھراتاہے،تب ہی تو رسول االلہﷺ نے ارشادفرمایا"میں علم کاشہرہوں اورعلیؓ اس کادروازہ پس جوعلم حاصل کرنےکاارادہ رکھتاہے،اسے چاہیے کہ دروازے سے آئے۔‘‘آپ اندازہ لگائیں جس شخص نے کامل23سال تک حضوراکرمﷺ سے تربیت حاصل کی ہواورجسے سرکاردوعالمﷺ جیسااستاداورمربی میسر آئے اوروہ ایک طویل عرصے اسے قرآن اور حکمت سکھائے،اس کے علم وفضل کاکیاٹھکانا ہوسکتاہے،یہی وجہ ہے کہ حضرت علیؓ کووہ تعلیم حاصل ہوئی کہ جس میں تمام عقلائے زمانہ حیران رہ گئے۔ امام فخرالدین رازیؒ نے اربعین میں لکھاہے کہ "حضرت علیؓ فرماتے ہیں مجھے رسول اﷲﷺ نے علم کے ہزارباب تعلیم کیے،پس ہرباب سے ہزارہزارباب میرے لیے کھل گئے۔’’ارجح المطالب‘‘میں ایک حدیث اس سے ملتی جلتی لکھی ہے۔حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ ایک رات حضرت علیؓ بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم کے حرف باء کی شرح فرمانے لگے توصبح ہوگئی، مگروہ تفسیرپوری نہ ہوئی مجھے اپناآپ ان کے مقابلے میں ایسامعلوم ہوتاتھا۔جیسے ایک بحر ذخار کے مقابلے میں ایک فوارہ۔رسول اکرمﷺ نے آپ کی تربیت میں سعی بلیغ کی ۔آپ حضوراکرمﷺکی سیرت وکرداراورتعلیم کاچلتاپھرتانمونہ تھے۔ آپﷺ کے علم کے مخزن ووارث تھے۔حضرت علیؓ نے حضورﷺکی اطاعت و فرماںبرداری سے سرمو انحراف نہ کیا۔جب حضورﷺ نے اعلان نبوت کیاتوآپ نے انتہائی کم عمری کے باوجودآپ کی حمایت کااعلان کیااوردعوت ذوالعشیرہ میں کیاہواوعدہ تازندگی نبھایا۔ہرمعرکے میں پیغمبرﷺکاعَلم علیؓ کے ہاتھ میں رہا۔آپ نے اپنی شجاعت ومردانگی اپنے خون اپنے قلب وزبان اوراپنی ہستی کواپنے پیغمبرﷺاوراﷲ کے دین کی فتح کے لیے وقف کردیا۔حضورﷺ کے دشمنوں کوعاجزکیااورکسی موقع پرجواںمردی سے دریغ نہیں کیا۔ آپ ہرجنگ میں کفارکے سامنے پہاڑبن کرکھڑے ہوگئے اوروہ جاںنثاری دکھائی کہ مخالف کومنہ کی کھانی پڑی۔
جب قریش مکہ نے (نعوذباللہ)حضوراکرمﷺ کوقتل کرکے اسلام کونیست ونابودکرنے کاپروگرام بنایااورطے شدہ منصوبے کے تحت ایک رات آپ کے گھرکوچاروں طرف سے گھیرلیا۔ایسے موقع پرحضورﷺکوہجرت کاحکم ہوا۔آپ نے حضرت علیؓ کواپنے بسترپر سونے کاحکم دیا۔حضرت علیؓ نے فرمان نبیﷺ کوانتہائی مسرت ورغبت کے ساتھ قبول کیاجوکہ آپ کی فداکاری کاشیوہ تھا۔ موت کے سائے میں بستر رسول پر سونا حضرت علیؓ کی طبیعت اورآپ کی سرشت کوظاہرکرتاہے ۔مدینہ میں مواخات کے موقع پرجب ہر ایک انصاری کوایک مہاجر کابھائی بنایا گیا۔ حضوراکرم ﷺنے حضرت علیؓ کواپنے لیے مخصوص فرمایا۔ اس کے علاوہ بھی رسول اللہﷺ نے بارہاحضرت علیؓ کی طرف دیکھ کرفرمایا"یہ میرابھائی ہے۔حضرت ابن مسعودؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: علیؓ کےچہرے پر نظر کرنا عبادت ہے(طبرانی) حضرت ابن ابی وقاصؓ سے روایت ہےکہ حضوراکرمﷺ نے فرمایا: جو شخص علیؓکو آزار پہنچائے،اس نے مجھے آزارپہنچایا۔یہ حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے منقول ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا: اگرتم آدم کاعلم، نوح کاعزم، ابراہیم کی خصلت، موسیٰ کی مناجات، عیسیٰ کا زہد اورمحمدؐکی ہدایت ایک ذات کے اندرجمع دیکھنا چاہتے ہوتواس شخص کودیکھوجوتمہاری طرف آرہاہے لوگوں نے گردنیں اٹھائیں تودیکھاکہ علی ابن ابی طالبؓ ہیں۔
یعقوبی نے اپنی تاریخ جزء دوم میں نقل کیاہے کہ پیغمبرﷺحجۃ الوداع کے بعدجب مدینے کی طرف واپس ہوئے تو18ذی الحجہ کوجحفہ کے قریب غدیرخم کے مقام پرٹھہرکرخطبہ دیااورعلیؓکاہاتھ پکڑکرفرمایا"جس کا میں مولا ہوں، علی بھی اس کے مولاہیں۔ خداوندا،دوست رکھ اسے جوعلیؓ کودوست رکھے اوردشمن رکھ اسے جوعلیؓ کودشمن رکھے۔ حضوراکرمﷺکوحضرت علیؓ کی تربیت پرجومان تھا،وہ حضرت علیؓ نے حضوراکرمﷺ کے بعدبھی قائم رکھا۔ اسلام کی سربلندی اور استحکام کے لیے ہمہ وقت مشغول رہے۔ آپ نے اپنے علم، شجاعت اور اپنی انفرادی صلاحیتوں کو دین کے لیے وقف رکھا اور اپنی شہادت تک پیغام رسالتﷺ کوعام کرنے میں سرگرم رہے۔