• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک ازبک تعلقات تجارت اور روابط

ازبکستان افغانستان کے شمال مغرب میں واقع ہے اور اس کی سرحدیں افغانستان کے علاوہ قازقستان، ترکمانستان، تاجکستان اور کرغیزستان سے ملتی ہیں۔ازبکستان اور پاکستان میں شاید آخری چار حروف مشترک ہوں لیکن ہماری ثقافت اور طرز زندگی میں کئی قدریں مشترک ہیں ۔ ہماری اردو زبان میں چار ہزار ازبک الفاظ ہیں‘ ہمارا ہر تیسرا لفظ ازبک ہوتا ہے‘ ہمارے پاس پلاؤ‘ نان‘ گوشت‘ کباب‘ سلاد‘ شوربہ اور پیالہ ازبکستان سے آیا‘ تربوز بھی ازبک ہندوستان لے کر آئے ‘ پنجابی ظہر کی نماز کو پیشی اور عشاءکی نماز کو کفتاں کہتے ہیں‘ یہ دونوں نام ازبکستان سے پنجاب آئے‘ یہ لوگ آج بھی ظہر کو پیشی اور عشاءکو کفتاں کہتے ہیں‘ شہتوت بھی ازبکستان سے پاکستان آیا‘ یہ لوگ سبز شہتوت کو توت اور سیاہ اور سرخ کو شہتوت کہتے ہیں‘ شاہ دراصل سیاہ تھا‘ ہم نے سیاہ کو بگاڑ کر شاہ بنا دیا‘ پاکستانی علاقوں کے 80 فیصد لوگ ازبک صوفیائی‘ علمائی‘ شعراءاور جرنیلوںکی وجہ سے مسلمان ہوئے۔

سوویت یونین کے دور میں روس نے اس علاقے کو کپاس اور الیکٹرک سٹی ایریا بنا دیا تھا‘ ازبکستان کے دو دریا بہت مشہور ہیں‘ دریائےآمو اورسیردریا‘ یہ دریا ”ارل سی“ میں گرتے تھے‘ روس نے 1960ءمیں دونوں دریاؤں کے رخ موڑے‘آبپاشی کا نظام وضع کیا اور ازبکستان کو کپاس کا کھیت بنا دیا‘ آزادی کے وقت ملک کا 85 فیصد ریونیو کپاس سے آتا تھا‘ روس نے یہاں کپاس کا ایک ایسا بیج بھی بنایا جو 40 فیصد کم پانی کے ساتھ دگنی کپاس دیتا ہے‘ ازبک کپاس پاکستانی کپاس سے کوالٹی میں بہت بہتر ہے‘ روس‘ چین اور یورپ ازبک کپاس کے بڑے خریدار ہیں‘ یہ لوگ ہمیں تکنیک بھی دینا چاہتے ہیں اور بیج بھی‘ ہماری وزارت زراعت ازبک حکومت کے ساتھ رابطہ کر کے یہ ٹیکنالوجی حاصل کر سکتی ہے‘ یہ لوگ آبپاشی کے جدید ذرائع بھی استعمال کرتے ہیں۔یہ کم پانی سے زیادہ فصلیں حاصل کرتے ہیں‘ ہم ان سے یہ بھی سیکھ سکتے ہیں‘ سوویت یونین کے دور میں ازبکستان میں پاور پلانٹس کی ٹیکنالوجی آئی‘ یہاں بجلی کی خصوصی مہارت پیدا کی گئی‘ آج بھی ازبکستان میں پاور پلانٹس کے ہزاروں انجینئر موجود ہیں‘ یہ 2005ءسے افغانستان کو بجلی فروخت کررہے ہیں‘ ہم ان سے یہ ٹیکنالوجی بھی حاصل کر سکتے ہیں اور سستی بجلی بھی‘ ہم اپنے طالب علم یہاں بھجوا کر پاور پلانٹس کی مہارت بھی سیکھ سکتے ہیں۔

گزشتہ ماہ ازبکستان کے اعلیٰ سطحی تجارتی وفد نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران یہاں کے تجارتی حکام اورایوانہائے صنعت وتجارت کے عہدیداروں سمیت دیگر اعلیٰ شخصیات سے طے شدہ ملاقاتیں کیں،یقیناًآنے والے دنوں میں دونوں ملکوں کی اقتصادی ترقی پر اس کے خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ان ملاقاتوں کے وقفوں میں مختلف اجلاس منعقد ہوئے جن میں تجارت اورسرمایہ کاری کے لئے راستوں اوربنکنگ چینل پراتفاق قائم ہونا نہایت خوش آئند امور ہیں۔اسلام آباد میں پاک ازبک بزنس فورم کے افتتاح اورفارما مصنوعات کی برآمدات میں اضافے کےلئے مفاہمت کی یادداشت پر دونوں اعلیٰ سطح کہ وفود کے درمیان دستخط بھی ہوئے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔پاکستان اورازبکستان کے درمیان دوطرفہ سفارتی ،تجارتی اور ثقافتی تعلقات 1991سے قائم ہیں جس کے تحت دونوں ملکوں میں تجارت کاموجودہ حجم 3.4ملین ڈالر برآمدات اور0.276ملین ڈالر کی درآمدات پرمشتمل ہے۔زمینی حقائق کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان محض1295کلومیٹر کافاصلہ ہے اس سے ملتی جلتی ہی صورتحال دیگر وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ بھی ہے، ان سب ریاستوں کے ساتھ پاکستان کا موجودہ مجموعی تجارتی حجم50.7ملین ڈالر برآمدات اور7.718ملین ڈالر کی درآمدات پرمشتمل ہے۔جبکہ پاکستان ازبکستان سے میڈیکل، فارماسوٹیکل کا سامان،کیمیکلز، ملبوسات، کھیلوں کے سامان، تمباکو، چمڑا اور چمڑے کی مصنوعات کی تجارت کررہاہے۔اب جوں جوں سی پیک منصوبہ پرکام آگے بڑھ رہا ہے خطے کے ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات تیزی سے مزید فروغ پارہے ہیں۔یہ امکانات نہایت روشن ہیں کہ پاکستان موجودہ اور آنے والے دنوں کوسامنے رکھتے ہوئے خطے کے ممالک سے اپنے تعلقات کو جلد ایک نئی جہت پر لے آئے گا۔تجارتی تجزیہ کاروں اور کاروباری افراد کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون بڑھانا ایک مثبت قدم ہے جس میں بہت زیادہ ترقی کا امکان موجود ہے۔

دیکھا جائے توپاکستان اور ازبکستان میں تجارت اور سرمایہ کاری میں توسیع بنیادی طور پر نجی شعبے کا ابتدائی قدم ہے جسے دونوں ممالک کی حکومتیں سہل بنا رہی ہیں۔پاکستان اور ازبکستان ایسے شعبوں میں، جن میں ترقی کا زیادہ امکان ہے، باہمی تعاون کا فائدہ اٹھا کر تجارت اور سرمایہ کاری کو بہتر بنا سکتے ہیں۔مثال کے طور پر، پاکستان خوراک، ٹیکسٹائل، ادویات ، سرجیکل اور کھیلوں کا سامان برآمد کر سکتا ہے اور ازبکستان سے معدنیات درآمد کی جاسکتی ہیں ۔ان میدانوں میں ہمارے مینوفیکچررز کو ازبکستان میں اپنے یونٹ قائم کرنے چاہئیں تاکہ وسط ایشیائی ریاستوں اور ان کے ہمسایہ ممالک کی منڈیوں تک رسائی حاصل کی جا سکے، ایسا کرنے سےبرآمدات میں اضافہ ہوگا۔ دونوں ممالک مختلف صنعتی سامان بنانے کے لیے مشترکہ منصوبوں کو بھی فروغ دے سکتے ہیں۔ ایسی مصنوعات کو ازبکستان کے ہمسایہ ممالک کو برآمد کیا جا سکتا ہے یا پاکستان انہیں واپس خرید سکتا ہے۔ ٹیکس میں چھوٹ، بجلی اور گیس کے نسبتاً کم نرخوں کے باعث، ازبکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت پاکستان میں کاروبار کرنے کے مقابلے میں بہت مسابقتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک جغرافیائی فائدہ بھی موجود ہے۔ ازبکستان زمینی طور پر گھرے ہوئے پانچ ممالک کے ساتھ سرحد سانجھی کرتا ہے - کرغیزستان، ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان اور افغانستان - جو اسے وسطی ایشیاء، یورپ اور روس کی منڈیوں تک پہنچنے کی اجازت دیتا ہے۔

تازہ ترین