• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی زندگی ایک جہد مسلسل ہے جس میںبا ہمت لوگوں کے لیے ایک کے بعد ایک کامیابی منتظر ہوتی ہے۔ شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال میںبھی ایسے ہی باہمت لوگوں کی ٹیم ہمہ وقت مریضوں کو فراہم کی جانے والی خدمات کے معیار کو بہتر سے بہتر بنانے کی تگ و دو میںلگی رہتی ہے ۔ میں یہ بتاتے ہوئے بے انتہاء خوشی اور فخر محسوس کرتاہوں کہ میرا تعلق پاکستان کے ایک ایسے منفرد اسپتال سے ہے جو اپنی کارکردگی کی بدولت اندرون و بیرون ملک ایک روشن مثال بن چکا ہے ۔
حال ہی میں شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال اور ریسرچ سنٹرکے اعزازات کی لمبی فہرست میں ایک ایسے اعزاز کا اضافہ ہو اہے جو نہ صرف اس اسپتال کے عملے بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک قابلِ فخر بات ہے ۔ شوکت خانم اسپتال نے جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل کی جانب سیـ پیشنٹ کئیر کے میدان میں بین الاقوامی معیار اپنائے رکھنے کی وجہ سے ’’گولڈ سیل آف اپروول‘‘ حاصل کی ہے۔ گولڈ سیل آف اپروول مریضوںکی دیکھ بھال کے ضمن میںکسی بھی اسپتال میںرائج اعلیٰ ترین پیمانوں اور مریضوں کی معیاری دیکھ بھال کیلیے اسپتال کی انتظامیہ کے عزم کی علامت ہے۔ واضح رہے کہ جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل کا قیام1997میں جوائنٹ کمیشن ریسورسز کے غیر منافع بخش ذیلی ادارے کے طور پر ہوا، کمیشن نے مریضوں کی دیکھ بھال اورحفاظت کے ضمن میں انٹرنیشنل اکریڈیشن اورکنسلٹیشن سمیت دیگر پروگرام متعارف کروائے ۔
یہ اعزاز ملنا اتنا آسان نہیں تھا اس کے لیے شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال اور ریسرچ سنٹر لاہور میں جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل کے ماہرین کی جانب سے 5دن کا ایک تفصیلی سروے کیا گیا۔ ان ماہرین کی جانب سے اسپتال کے مختلف شعبہ جات کے معیار کی کڑی جانچ پڑتال کی گئی ان شعبوں میں مریضوں کی دیکھ بھال کے بین الاقوامی معیار، انیستھیزیا، سرجیکل کئیر،میڈیکیشن مینجمنٹ معیار کی بہتری کے انتظامات، انفیکشن سے بچائو اور کنٹرول، انتظامی امور، فیسیلیٹی مینجمنٹ عملے کی تعلیمی قابلیت اور مریضوں اور لواحقین کی آگاہی کے شعبے شامل ہیں۔شوکت خانم اسپتال کو پاکستان کے پہلے سپیشلائزڈ کینسراسپتال ہونے کا اعزاز ہی حاصل نہیں، یہ اسپتال کینسر کے ان ہزاروں مریضوں کے لیے زندگی کی واحد امید ہے جو کینسر کا مہنگا علاج کروانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ یہ اسپتال ایک بیٹے کی اپنی ماں سے لا زوال محبت کی ایک داستان ہے ، ایک قوم کے جذبہ ء خدمت ، اور ایک قومی ہیرو سے محبت کرنے والے ہزاروں لوگوں کی محنت کی کہانی ہے جنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ہم وطنوں کو کینسر جیسے موذی مرض سے بچائیں گے۔
شوکت خانم اسپتال جس بڑے پیمانے پر اعلیٰ معیار کی سہولیات مستحق مریضوں کو پہنچاتا ہے اس کے لیے ایک بہت بڑے بجٹ کی ضرورت پڑتی ہے جس کو پورا کرنے میں اسپتال کے خیر خواہو ں کی طرف سے دیے جانے والے عطیات بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔ سال 2018کے لیے اسپتال کا بجٹ تقریباً 11ارب روپے ہے۔ یہ بجٹ ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے تو اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں ایک تو اسپتال علاج کی سہولیات کے معیار پر کوئی سمجھوتا نہیں کرتا اور ساتھ ہی یہ پاکستان ہی نہیںدنیا بھر میں واحد کینسر اسپتال ہے جو 70سے 80فیصد مریضوں کو مفت علاج کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ واضح رہے کے کینسر کا علاج انتہائی مہنگا ہوتا ہے اور ایک مریض کے علاج پرکم از کم دس لاکھ روپے تک خرچ ہوتا ہے ۔ اسپتال اپنے سالانہ اخراجات کا تقریباً نصف اندرون و بیرون ملک اپنے ڈونرز سے عطیات و زکوٰۃ کی صورت میں وصول کرتا ہے جبکہ بقایا نصف لیب کولیکشن سنٹر اور دیگر ذرائع آمدن سے حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسپتال نے زکوٰۃ کے استعمال کے حوالے سے ایک واضح پالیسی برقرار کھی ہے جس کے مطابق زکوٰۃ کی رقم صرف اور صرف مستحق مریضوں کے علاج پر ہی خرچ کی جاتی ہے اور اس مد میں اسپتال اپنے قیام سے اب تک تقریباً 33ارب روپے خرچ کر چکاہے۔ شوکت خانم ہسپتا ل میں کسی بھی مریض کے ساتھ اس کی مالی حالت کے پیشِ نظر کوئی امتیازی سلوک نہیں رکھاجاتااور تما مریضوں کو ایک ہی طرح کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ پاکستان میں کینسر کے مرض میں تیزی سے اضافہ ہوا رہا ہے اور تیزی سے پھیلتی ہوئی کینسر کی شرح کے باعث شوکت خانم میوریل کینسر اسپتال اور ریسرچ سنٹرز میںآنے والے مریضوں کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہاں آنے والے ہر مریض کوکینسر کی تشخیص وعلاج کی سہولیات فراہم کی جائیں تاہم مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ہمارے محدود وسائل ہمیں اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم ترجیحی بنیادوں پر صرف ایسے مریضوں کا انتخاب کریں جن کو اس سے فائدہ حاصل ہونے کے امکانات زیادہ ہوں ۔ مریضوں کے اس بڑھتے ہوئے بوجھ کو سنبھالنے کے لیے 2015میں پشاور میں دوسرا شوکت خانم اسپتال تعمیر کیا گیاجہاں اب آغاز کے مقابلے میں مریضوں کی دوگنی تعداد کا علاج کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف کراچی میں تیسرے اور پاکستان کے سب سے بڑے شوکت خانم اسپتال کی تعمیر کاآغاز بھی سال2018کے اختتام تک متوقع ہے جہاں کینسر کی تشخیص اور علاج کی تما م تر سہولیات ایک ہی چھت تلے فراہم کی جائیں گی۔ یہ نیا اسپتال ملک میں کینسر کا علاج فراہم کرنے کی مجموعی گنجائش میں اضافہ کرے گا۔
ہمارے لاہور اور پشاور کے ہسپتالوں میں اس سال 9004نئے مریض رجسٹر کیے گئے ۔ جبکہ دونوں ہسپتالوں میں مجموعی طور پر 243,633مریضوں کو آئوٹ پیشنٹ کلینک کے ذریعے طبی خدمات فراہم کی گئیں۔ اس سال پشاورکے شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال اور ریسرچ سنٹر میں مریضوں کی آمد میں 20 فیصدکا واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔شوکت خانم میموریل کینسراسپتال اور ریسرچ سنٹرلاہو رمیں پانچ linear accelerator مشینوں کے ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا ریڈیوتھراپی یونٹ ہے یہاں گزشتہ کئی سالوں سے IMRT ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جا رہا تھا، اس سال اسی سلسلے کو ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے IGRT ٹیکنالوجی کو متعارف کروایا گیا ہے جو کہ کینسر کے علاج میں ریڈی ایشن تھراپی کا جدید ترین طریقہ ہے۔شوکت خانم میموریل کینسراسپتال اور ریسرچ سنٹر لاہور میں روزانہ صبح سے شام تک تقریباً100مریضوں کو خصوصی طور پر تیار کیے گئے کمیوتھراپی بے میںکیموتھراپی کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ یہ یونٹ بچوں اور بالغوںکے لیے علیحدہ علیحدہ طبی خدمات فراہم کرتا ہے ۔ اس موسم گرما کے دوارن شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال پشاور میںپہلا پٹ سی-ٹی (PET CT) اسکینر مکمل طور پر فعال ہو چکا ہو گا جس سے اس خطے میں کینسر بارے ہماری تشخیصی خدمات فراہم کرنے کی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔مزید برآں، پشاورکے اسپتال میں اس سال 250ملین روپے کی لاگت سے ایک دوسری نئی MRI مشین بھی نصب کی جائے گی۔یہ کہنا بالکل بجا ہو گا کہ شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال پاکستان کا سب سے زیادہ قابل اعتماد خیراتی ادارہ ہے اور اس کی بنیادی وجہ ہماری شفاف مالیاتی پالیسی اور اعلیٰ کارکردگی ہے اورمیں پاکستان کے تمام لوگوں اور بالخصوص اسپتال کے ڈونرزکو یہ یقین دلاتا ہوں کہ ہم آئندہ بھی اپنے مشن کے مطابق غریب اور مستحق کینسر کے مریضوں کو علاج کی جدید ترین سہولیات فراہم کرتے رہیں گے۔ ٍ
صاحب تحریر چیف ایگزیکٹو آفیسر ، شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال اور ریسرچ سنٹرہیں ۔

تازہ ترین