• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے دیس کی عید آج بھی سہانی ہوگی

’’ابّو دیکھیں ناں بھائی مجھے بازار نہیں لے کر جا رہے، میری ساری سہیلیاں چوڑیاں پہننے گئی ہیں، مجھے مہندی بھی لگوانی ہے اور ابھی تو ایک سوٹ کے ساتھ میچنگ چپّل بھی خریدنی ہے، بھائی ۔۔۔ پلیز، میرے اچھے بھیّا لے چلیں ناں بازار،زہرا نےمحسن کو تقریباً پوری طاقت سے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ کیا ہے، ناک میں دم کرکے رکھتی ہو، اتنی تیاری تو روزوں کی نہیں کرتیں، جتنی عید کی کرتی ہو، شعبان سے تمہاری عید کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں، پھر ہر سال چاند رات پہ میرا دماغ کھاتی ہو، بازار لے چلیں، مہندی لگوادیں، چوڑیاں پہنوادیں۔۔۔ویسے ہی میرے سی اے کے امتحان ہونے والے ہیں، میں اس کی تیاری کروں یا تمہیں بازار لے کر گھوموں، چلو بھاگو میرے پاس وقت نہیں ہے۔

ٹھیک ہے، مت لے کر جائیں، اب اگر آپ خود بھی کہیں گے، میں تب بھی آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گی، اس عید پر جب میری ساری سہیلیاں اپنی اپنی مہندی دکھائیں گی، تو میری ہتھیلیاں سونی ہی ہوں گی، چوڑیاں بھی نہیں پہنوں گی اور آپ سے عیدی بھی نہیں چاہیے مجھے اس بار، اپنے پیسے اپنے پاس رکھیں۔۔زہرا نے رنجیدہ ہوتے ہوئے کہا اور روتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔۔’’زہرا، زہرا نا راض مت ہو سنو تومیں مذاق کرر ہا تھاسنوتو۔۔۔‘‘

’’محسن محسن۔۔۔ کیا ہو گیا ہے، نیند میں کیوں بڑبڑا رہے ہو؟، کسے رکنے کے لیے کہہ رہے ہو؟‘‘ محسن کے ایک روم میٹ نے اسے نیند سے جگاتے ہوئے کہا، اس کی آنکھ کھلی تو اسے خیال آیا کہ وہ پاکستان میں نہیں بلکہ اپنوں سے دور دیارِ غیر میں ہے۔ وہ آنکھیں مسلتے ہوئے گم سم بیٹھ گیا، ’’کیا ہوا؟ کامران نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔بہت پیارا خواب تھا، میں اپنے ملک میںتھا،جہاں عید کا چاند نکلتے ہی، چھوٹی بہن میرے آگے پیچھے گھومنا شروع کر دیتی تھی کہ بازار لے کر چلیں، مہندی لگوانی ہے، چوڑیاں پہننی ہیں،ہر سال مجھ سے دُگنی عیدی لیتی تھی،جب میں اور ابّو عید کی نماز پڑھ کر لوٹتے تھے، تو زہرا ہمارا بے صبری سے انتظار کر رہی ہوتی تھی۔جانتے ہو کامران بیرون ملک آنا، یہاں نوکری کرنا ہی میرا خواب تھا، اسی لیے میں دن رات ، بس پڑھائی اور محنت کرتا رہا۔ جب یہاں آرہا تھا، تو امّی کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں،ابّو کا ادا س چہرہ بھی یہ بتا رہاتھا کہ وہ مجھے روکنا چاہتے تھے لیکن کچھ کہہ نہ سکے۔ یہاں آنے کی بنیادی وجہ زیادہ پیسے کمانا تھی،میں امّی کو چند پیسوں کی بچت کے لیے پرانے جوڑے میں گزارا کرتا نہیں دیکھ سکتاتھا، ابّو کو کئی برس ایک ہی جوتا ، پہنتے ہوئے دیکھا ہے، صرف اس لیے تاکہ ہماری خواہشات پوری ہو سکیں، میں اپنےگھر والوںکو پُر تعیش زندگی گزارتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں، میں نے اپنے لیے اس ٹھنڈی صبح و شام والے ملک کا انتخاب اس لیے کر لیا تاکہ میرے دیس میں، میرے اپنوں کے صبح و شام پُرسکون گزریں کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ عید اپنوں کے ساتھ مناؤں، مگر پھر خیال آتا ہے کہ جانے میں جتنا خرچہ ہوگا اس سے بہتر ہے کہ میں وہی پیسے بچا کر اپنے گھر والوں کو بھیج دوں، یہ کہتے ہوئے دونوں نوجوانوں کی آنکھیں پوری طرح بھیگ چکی تھیں ، مگر ان کے آنسو پوچھنے والا کوئی اپنا نہ تھا، اسی دوران محسن کا فون بجا ، دیکھا تو زہرا کا وائس میسج تھا، جس میں اس نے عید کی مبارک باد دینے کے ساتھ امّی کا پیغام بھی دیا تھا کہ ’’تمہارے بنا ہر عید ، ہر تہوار ادھوراہے، ہم نے تمہارے کہنے پر گھر میں اے سی تو لگوالیا ہے، لیکن میری آنکھوں کی ٹھنڈک تو دیار غیر میں ہے، مجھے کیسے سکون آئے گا۔‘‘ میسج سننے کے بعد محسن نےوقت دیکھااور نماز عید کی تیاری میں مصروف ہوگیا۔

مندر جہ بالا کہانی کسی ایک نوجوان ’’محسن‘‘ کی نہیں بلکہ ہمارے ملک کے نہ جانے کتنے نوجوانوں کی ہے، جو مالی تنگ دستی یا اپنے ملک میں معقول تنخواہ پر نوکری نہ ملنے کے باعث دیار غیرمیں ملازمت کرنےپر مجبور ہیں۔ اگر اپنے ہی ملک میں نوجوانوں کو تعلیم و روزگار کے بہتر مواقع میسر آئیں ، تو اپنوں سے دور کون رہنا چاہے گا؟ تہواروں کا مزاصرف اپنوں کے ساتھ ہی آتا ہے، پھر بھی چند پیسوں کی بچت کے لیےہزاروں نوجوان اپنوں سے دور رہ کرروکھی، سوکھی،عیدمناتے ہیں۔پر دیس کی عیدیں دکھی بے رنگ ہوتیں ہیںنہ گلی میں بچوں کا شور ،نہ ہلّہ گلہ ،عید آتی ہے توپردیس میں بیٹھے متعدد نوجوان تڑپ جاتے ہیں،وطن سے دور اپنی خوشیوں کو قتل کر کہ گھر والوں کو کہتے ہیں چھوٹی بہن کو یہ لے کر دینا، بھائی کو اتنی عیدی دینا ، وغیرہ۔۔۔ اپنوں کو خوش دیکھ کہ دل کو کچھ حوصلہ بھی ہو تا ہوگا کہ چلوہم سب سے دور ہیں، لیکن گھر والے تو سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔اس عید بھی بہت سے نوجوان اپنے گھروالوں سے دور دیار غیر میں عید منائیں گے،ایسا نہیں کہ وہ بالکل تنہا ہوں گے، ان کے ساتھ چند اور نوجوان ، دوست بھی ہوں گے ،لیکن گھر والے تو نہیں ہوں گے،ویڈیو کال کے ذریعے اپنے پیاروں سے باتیں ہوںگی، جب کال بند ہوجائے گی تو آنکھیں پُر نم ہو جائیں گی۔شاید سارا دن بچپن کی عیدیں یادکرنے،میں گزرے ،خیالوں کے پرندے اڑ اڑ کر تھک جائیں گے، مگریاد آتی رہے گی۔پردیس میں رہنے والے ہی شدت سے اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ گھر والے،دوست ،محلے والے کیا ہوتےہیں، ان کے ساتھ گزارے ہوئے میٹھے پل کیا ہوتے ہیں، بہن کا زیادہ عیدی کا مطالبہ کرنا، اسے تنگ کرنا، کھٹی میٹھی نوک ، جھونک کتنی خوب صورت اور قیمتی ہوتی ہے۔جب تک ہم اپنے گھر والوں کے درمیان ہوتے ہیں تب تک ان لمحوں کی وقعت کا اندازہ نہیں ہو پاتا، مگر ان پلوں کا احساس ان کے گزر جانے کے بعد ہوتا ہے۔نوجوان دوستو! اگر آپ اپنے دیس میں ، اپنوں کے بیچ عید منا رہے ہیں،تو اپنے رشتوں کی قدر کیجیے، جو روٹھے ہوئے ہیں، انہیں منالیجیے۔

ہماری طرف سے سب کو پیش گی عید مبارک۔

تازہ ترین