• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

نُزولِ قُرآن: عالمِ انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا بیش بہا انعام

نُزولِ قُرآن: عالمِ انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا بیش بہا انعام

ڈاکٹر سعید احمد صدیقی

خالق کائنات نے اپنے بندوں کو بے شمارنعمتیں عطا کی ہیں ۔ان نعمتوںمیں سے ایک عظیم نعمت قرآن کریم کا نزول ہے، جسے اللہ عزوجل نے رمضان المبارک میں نازل فرمایا اور عربی زبان میں،جو انسانی زبانوں میں سب سے زیادہ فصیح و بلیغ ہے،جوتھوڑے سے الفاظ میں وسیع تر مفاہیم و معانی کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے، قرآن پر ایمان نہ لانے والے بھی اس کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں۔

قرآن کریم نے لوگوں کے دلوں پر نسل در نسل عجیب اثر ڈالا ہے۔یہ اثر جو اس کے نزول سے شروع ہوا اور تا قیامت جاری رہے گا۔امریکی اسکالرڈاکٹر سڈنی فشر رقم طراز ہے’’قرآن کریم ایک ایسی زندہ آواز ہے جو آدمی کے دل کو تسکین اور ٹھنڈک پہنچاتی ہے اور جب اسے محظوظ کن خوش الحانی سے سنایا جائے تو اس کی تسکین دوچند ہو جاتی ہے۔‘‘

قرآن کریم کی سماعت سے دل میں خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔مومنوں کے دل سہم جاتے ہیں اور وہ اپنے رب کی طرف رغبت رکھتے اور ڈرتے ہوئے متوجہ ہوتے ہیں اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں۔

مہاجرین حبشہؓ نے جب مدینہ طیبہ واپس جانے کا عزم کیا تونجاشی شاہ حبشہ نے ان کے ساتھ اپنے ہم مذہب نصاریٰ کے بڑے بڑے علماء، مشائخ کا ایک وفد آپﷺ کی خدمت میں بھیجا، جو ستّر آدمیوں پر مشتمل تھا، جن میں باسٹھ افراد حبشہ کے اور آٹھ شام کے تھے۔یہ وفد ایک درویشانہ اور راہبانہ لباس میں دربار نبوی میں حاضر ہوا تو آپﷺ نے ان لوگوںکو سورۂ یٰسٓ سنائی۔یہ زبان نبوت سے کلام الٰہی سنتے جاتے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔سب نے کہا کہ یہ کلام، اس کلام کے کتنا مشابہہ ہے جو حضرت عیسیٰؑ پر نازل ہوا تھا اور سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے’’اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسولؐ کی طرف بھیجا گیا ہے تو آپ ان کی آنکھوں سے اشک رواں دیکھیں اس سبب کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا اور یوںکہتے ہیں۔ اے ہمارے رب ہم مسلمان ہو گئے ہمیں بھی ان لوگوں کے ساتھ لکھ لیجیے۔‘‘(سورۃ المائدہ)

رسول اللہﷺ کی بعثت کے بعد جب جنات کوآسمانی خبریں سننے سے روک دیا گیا تو آپﷺ کی بعثت و نبوت کے بعد ،جو جن آسمانی خبریں سننے کے لیے اوپر جاتا تو اس پر شہاب ثاقب پھینک کر دفع کیا جانے لگا۔ جنّات میں اس کا تذکرہ ہوا کہ اس کا سبب معلوم کرنا چاہیے کہ کون سا نیا واقعہ دنیا میں رونما ہوا ہے جس کی وجہ سے جنات کو آسمانی خبریں سننے سے روک دیا گیا۔ جنات کے مختلف گروہ دنیا کے مختلف خطوں میں اس کی تحقیقات کے لیے پھیل گئے۔ ان کا ایک گروہ جو نو جنوں پرمشتمل تھا، حجاز کی طرف پہنچا، اس روز آنحضرتﷺ اپنے چند صحابہ کرامؓ کے ساتھ مقام بطن نخلہ میں تشریف فرما تھے۔ اس مقام بطن نخلہ میںآپ ﷺفجر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ وہ جنات کا گروہ یہاں پہنچا۔قرآن سن کر کہنے لگے، بس وہ نئی بات یہی ہے ،جو ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان حائل ہے اور باہم کہنے لگے، خاموش ہو کر قرآن سنو۔جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تووہ اسلام کی حقانیت پر یقین و ایمان لا کر اپنی قوم کے پاس واپس گئے اور انہیں اس واقعے کے اصل سبب کی یہ خبر بھی دی کہ ہم مسلمان ہو گئے ،تمہیں بھی چاہیے ایمان لے آئو، ان جنوں کی زبانی یہ خبر سن کر اور ان کے ایمان لانے کی ترغیب دینے پر تین سو جن اسلام لانے کی غرض سے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے’’سورۃ الاحقاف‘‘ کی آیت 29 تا 32 اور سورۂ جن کی ابتدائی آیات میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہے۔

ولید مشرکین مکہ کا نمائندہ بن کر آتا ہے۔وقت کا سردارہے،عمر میں بھی بڑا ہے۔جب اس نے حضرت محمد ﷺ سے قرآن سنا تو پکار اٹھا۔اس میںتازگی اور حلاوت ہے، مگر ابوجہل کے بہکاوے کی وجہ سے اس تازگی اور حلاوت سے محروم رہا۔عتبہ بن ربیعہ بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوتا ہے اور آپﷺ کو ہر طرح کی پیش کش کرتا ہے۔جب اپنی بات کہہ چکا تو آپﷺ نے سورۂ حمٓ سجدہ کی تلاوت فرمائی۔ عتبہ دونوں ہاتھ زمین پر ٹیکے غور سے سنتا رہا۔ سرداران قریش سے جا کر کہتا ہے:’’خدا کی قسم، آج میں نے ایسا کلام سنا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہ سنا تھا۔واللہ، یہ شعر نہیں، یہ سحر بھی نہیں۔یہ کہانت بھی نہیںہے، یہ کیا ہے؟یہ قرآن کی اثرپزیری ہے کہ دشمن بھی اس کے حق ہونے کی گواہی دے رہا ہے اور وہ دشمن کے دل پر بھی اثر کر رہا ہے۔

طفیلؓ بن عمرو دوسی شاعرتھے۔وہ کہتے ہیں کہ جب میں مکے گیا تو لوگوں نے میرے خوب کان بھرے اور کہا محمدﷺ سے بچ کر رہنا، چناں چہ میںنے یہی طے کرلیا۔حرم میں گیا۔آپﷺ نماز پڑھ رہے تھے، میرے کان میں ان کے چند جملے پڑ گئے۔ میں نے اچھا کلام محسوس کیا اور دل میں کہا کہ میں بھی شاعر اور جواں مرد ہوں، عقل رکھتا ہوں، بچہ نہیں ہوں کہ غلط صحیح کی تمیز ہی نہ کر سکوں۔ اس شخص سے ملنا تو چاہیے۔ چناں چہ میںبھی ان کے پیچھے پیچھے ان کے مکان پر پہنچ گیا۔اپنی ساری کیفیت بیان کی اور عرض کیا کہ ذرا تفصیل سے بتائیے کہ آپﷺ کیا کہتے ہیں۔ اس کا بیان ہے کہ آپﷺ نے اس بات کے جواب میں مجھے قرآن کا کچھ حصہ سنایا اور میںاس سے اتنا متاثر ہوا کہ اسی وقت ایمان لے آیا اور واپس جا کر اپنے والداور بیوی کو بھی مسلمان کیا اور پھر اپنے قبیلے میں مسلسل تبلیغ اسلام کرتا رہا۔

’’سورۂ آل عمران‘‘کی آیت 92 نازل ہوتی ہے۔’’تم خیرکامل کو کبھی حاصل نہ کر سکو گے،یہاں تک کہ اپنی پیاری چیز کو نہ خرچ کروگے اور جو کچھ بھی خرچ کرو گے، اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے۔صحابۂ کرامؓ کے دل پر اس کا عجیب اثر ہوا اور اپنی متاع عزیز اللہ کی راہ میں خیرات کر دی۔حضرت ابو طلحہ انصاریؓ انصار مدینہ میں سب سے زیادہ مال دار تھے۔آپ کا ایک انتہائی بڑاقیمتی اور زرخیز باغ تھا۔ بیرحآء نامی کنواں بھی اس کے ایک کونے میں تھا۔رسول اللہﷺ اس باغ میںتشریف لے جاتے تو اس کنویں کا پانی پیتے تھے جو آپﷺ کو بہت پسند تھا۔ حضرت ابوطلحہ انصاریؓ نے اس آیت کے نزول کے بعد اس باغ کو اللہ کی راہ میںوقف کر دیا۔حضرت زید بن حارثہؓ نے اپنا قیمتی گھوڑا اللہ کے راستے میںوقف کر دیا۔ حضرت فاروق اعظمؓ نے اپنی سب سے محبوب کنیز اللہ کی رضا کے لیے آزادکر دی۔

اپنے وقت کے ولی کامل، مصلح امت فضیل بن عیاضؒ، ایک وقت تھا جب ڈاکہ زنی کرتے تھے اورڈاکو بھی اس درجے کے تھے کہ پہلے سے اعلان کر کے ڈاکہ ڈالا کرتے تھے۔ ایک رات وہ اسی نیت سے مکانوں کی چھتوں سے گزر رہے تھے کہ کسی روزن سے انہیں کچھ آواز سنائی دی۔ انہوں نے رک کر کان لگا دیے ،کوئی شخص قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا۔ فضیل بن عیاض نے یہ سنا:’’کیا ابھی تک ایمان لانے والوں کے لیے وہ گھڑی نہیں آئی کہ ان کے دل اللہ کے ذکر کے لیے گداز ہو کر جھک جائیں؟‘‘ ان مبارک کلمات نے عجیب تاثیر دکھائی۔تیر کی طرح ان کے دل میں اتر گئے۔ایک دم نعرہ مارا۔ہائے میرے رب،پھر اسی لمحے چوری سے توبہ کرلی، بلکہ اپنی ایسی اخلاقی اصلاح کی اورروحانی منازل طے کیں کہ آج ان کا شمار ذی مرتبہ صلحائے امت میںہوتا ہے۔

حضرت جبیر بن مطعمؓ فرماتے ہیں،میں نے رسول اللہﷺ کو نماز مغرب میں سورۂ طور کی تلاوت کرتے سنا۔ جب آپﷺ اس آیت پرپہنچے تو مجھے محسوس ہوا کہ میرا دل ابھی پرواز کرجائے گا۔ترجمہ’’ کیا وہ بغیر کسی خالق کے پیدا کیے گئے ہیں یا وہ خود اپنے خالق ہیں؟ کیا انہوں نے آسمانوں اور زمینوںکو پیدا کیاہے؟ بلکہ وہ یقین نہیں رکھتے۔ کیا ان کے پاس آپ کے رب کے خزانے ہیں یا وہ ان کے داروغہ ہیں‘‘ بے شک، قرآن کی اثر انگیزی بڑی زبردست ہے،اگروہ پہاڑ پر نازل کر دیا جاتا تو وہ اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو کربکھر جاتا۔

اپنے زمانے کا عظیم ادیب،شاعر،فصاحت و بلاغت کا شہ سوار اصمعی کو چھ برس کی ایک لڑکی ملی،جو نہایت عمدہ عربی اشعارگا رہی تھی۔ اصمعی کو یہ اشعار بہت پسند آئے۔ اسے ان اشعار کے اسلوب،الفاظ کی فصاحت اور بہترین اظہار خیال نے بے خود کر دیا۔اصمعی نے لڑکی سے کہا، تجھے اللہ سمجھے، تو کس قدر فصیح ہے۔لڑکی نے پلٹ کر جواب دیا۔ تیرا براہو تو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بعد اسے فصاحت شمار کرتا ہے،پھر اس نے ’’سورۃالقصص‘‘کی آیت نمبر7 تلاوت کی:’’اور ہم نے موسیٰؑ کی ماں کووحی کی کہ تم اس بچے کو دودھ پلاتی رہو، پھرجب تمہیں اس کی نسبت کوئی اندیشہ ہو تواسے دریا میں ڈال دینا اور کچھ خوف و غم نہ کرنا۔یقیناً ہم اسے تمہاری طرف لوٹانے والے ہیں اور اسے رسولوںمیںسے بنائیں گے۔‘‘ پھر اس لڑکی نے اصمعی سے کہا ۔اس آیت میںبلاغت آمیزاختصار کے باوصف دو امر،دو نہی،دو خبریں اور دو بشارتیںجمع ہیں۔ اس نے قرآن کی عمدہ فصاحت وبلاغت، اختصار و ایجاز کی جانب اصمعی کی توجہ مبذول کی اور قرآن کے اسرار سے باخبر کیا،جس کے ادراک سے وہ قاصرتھا۔گویا قرآن کریم کی یہ آیت موتیوں اور مرجان کی شگفتہ لڑی ہے اور اس کا ہر موتی ترازو میںتلا ہوا ہے۔

عیسائی پادری جان باٹسٹ اہو نیمو اپنے قبول اسلام کاسبب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں’’میرے قبول اسلام کے مرحلے کی تکمیل کا سبب ایک علمی لیکچر میںمیری موجودگی تھا۔یہ لیکچر درحقیقت ایک مسلمان اور ایک عیسائی کے درمیان مناظرے کی روداد پرمشتمل تھا۔ میںاس میں ’’سورۂ مریم‘‘اور ایک دوسری سورت سنتے ہی اس بات پر مطمئن ہوگیا کہ بلاشبہ اسلام ہی اصل دین حق ہے۔‘‘رحمت الٰہی نے ایک جرمن سائنس دان کو ایسا گھیرا کہ وہ مسلمان ہوگیا۔ اس نے سائنس دانوں کی ایک محفل میں اسلام قبول کرنے کا برملا اعلان کیا ۔جب ان سے اسلام قبول کرنے کا سبب پوچھا گیا تو انہوںنےکہا۔ میرے اسلام لانے کا سبب یہ آیت ہے’’کیوںنہیں ہم تو اس کی پور پور ٹھیک کرنے پر قادر ہیں‘‘۔پوروںکے نشانات کے فکر انگیز معاملے کا انکشاف یورپ پر آج کے جدید دور میںہوا ہے، جب کہ عربوں کو اس کی مطلق کوئی خبر ہی نہ تھی، لہٰذا قرآن کریم فی الحقیقت کلام الٰہی ہے، یہ کسی انسان کا کلام نہیں۔یہ بات جرمن سائنس دان کے دل پر اثرکر گئی اوروہ اس حقیقت کا انکار نہ کرسکا۔اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ قرآن ہی نے 360 بتوں کے پجاریوں کو توحیدکا علم بردار بنا دیا۔ یتیموںاوربیوائوں کا مال اڑانے والوںکو امین بنا دیا۔خود سروں اور قانون شکنوںکو قانون کا مطیع بنا دیا۔یہی قرآن رحمۃ لّلعالمینﷺ کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔اس میں تسخیرقلوب اور تسخیر عالم کی حیرت انگیز قوت پوشیدہ ہے۔ اس کے چند کلمات ہی انسان کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ جس وجود میں سرایت کر جاتا ،اس وجودمیں ایک دوسرا انسان نمودار ہو جاتا۔آج اُمّت مسلمہ جن مصائب و مشکلات، اختلاف و انتشار اور رنج و الم کا شکارہے۔ اس کا علاج قرآن کریم سے وابستگی،اس کی تلاوت،اس کا فہم و ادراک اور پوری طرح اس پر عمل ہے،اس کی دعوت پوری دنیامیں پھیلانی ہے۔ جو ہمارے دشمن ہیں، وہی ہمارے محافظ بن جائیں گے ،جو ہماری تباہی و بربادی کے خواہاں ہیں، وہ ہمہ تن ہماری آب یاری میں لگ جائیں گے، بس ہم قرآن سے اپنا رشتہ جوڑ لیں، ورنہ اس سے رشتہ جوڑے بغیر ہم مسلمان ہی نہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین