• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’خدا سے میری صلح ایسی ہے
جس میں کبھی کوئی امکان نہیں، جنگ کا
نفس امارہ سے جنگ ایسی ہے میری
کہ جس میں کبھی کوئی امکان نہیں صلح کا‘‘
یہ نظمیہ ترجمہ ہے ابوالحسن خرقانی کے اقوال میں سے ایک خوبصورت نمونہ جو معین نظامی صاحب نے کیا ہے۔ نظامی صاحب بہت لوگوں سے ملتے ملاتے نہیں، فارسی کے ایسے عالم ہیں کہ ایک دفعہ میں نے چند نظمیں ترجمے کے لئے بھیجیں، پلک جھپکتے ہی ترجمہ موصول ہوگیا۔ اللہ لوگ ہیں، اپنے کام میں لگے رہتے ہیں اور پیاسوں کی پیاس بجھانے کے لئے کبھی لمز کے شمارے بنیاد کو مرتب کرتے ہیں تو کبھی بچوں کی ایرانی کہانیاں ترجمہ کرتے ہیں اور اب خدا خدا کرکے چار مجموعے اکٹھے کرکے، وہ بھی دوستوں نے کام کیا۔ بہرحال یہ مجموعہ میری فرمائش پر مجھ تک پہنچ گیا۔ اس میں حمد، نعت، منقبت، غزلیں، نظمیں اور کئی جگہ تو مجھے لگا کہ یہ نظمیں اوائل عمری کی ہیں کہ لطف و عنایت، محبت کے توسط ایسی نظمیں بھی ہیں ’’میں دل کی انگلی تھامے چلتا رہتا ہوں‘‘ یا پھر دفینہ کہ جہاں ایسے مصرعے آتے ہیں ’’مرے نام کا صرف اولین تری اوڑھنی کے کناروں پر‘‘ اگلا مصرعہ، پھر ان کی مشکل طبیعت کو ظاہر کرتا ہے۔ جب وہ لکھتے ہیں ’’تمہیں دیکھا نہیں ہے‘‘ یا پھر پھول سانس لیتے ہیں۔ توھڑوں کی روانی بے ساختہ ہے۔ البتہ غزلوں میں ’’بے نیازی کی نظر میں رکھا جیسے مصرعے یا پھر ہجر کی پہلی صبح کو صبح وصال کردیا‘‘، بے محابہ پڑھنے کے لئے روک لیتے ہیں۔ البتہ نظمیں جگہ بہ جگہ ’’الٰہی نامہ‘‘ بنتی یا ایسے روحانی سلسلے کو قائم رکھتی ہیں جو اکثر و بیشتر ان کی شاعری میں پایا جاتا ہے۔ تصوف کی شاعری پر تبصرہ، میرے بس کی بات نہیں۔
مگر کروں کیا کہ سامنے اختر عثمان کی مشکل پسند طبیعت کی مسلسل نظم جس میں زبان، استعارے، لہجہ اور جگہ جگہ بحر بھی بدل جاتی ہے۔ مثلاً ایک مصرعہ سنہ کے طور پر پڑھیں ’’تمام دنیا کے صاف و سادہ سلامتی خواہ، چند بونوں میں گھر گئے ہیں‘‘ ساتھ ہی صفحہ پلٹو تو ’’تم ایک ہو سب/ سید سفید ایک ہیں/ کسی کو کسی پر کچھ برتری نہیں ہے /بجز تقویٰ، بجز نیکوخوئی، کوئی بھی برتری نہیں ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نظم ہو کہ مرثیہ، اس کے بیانیے میں فارسی، عربی کی ترکیبوں کے ساتھ ساتھ، اس کے ہونٹوں پر سنجوگتا کا نام آتا ہے، جسے وہ بھی اسی نظم میں اپنی سنجوگتا کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ غزلوں کی کتاب میں بھی فصاحت و بلاغت ایسی کہ ہم جیسے پڑھنے والوں کو کبھی کبھی لغت استعمال کرنی پڑتی ہے مگر اس کے ہاں یہ لہجہ مصنوعی نہیں ہے، اس نے خود کو مرثیہ گوئی کی جانب اتنا مصروف کیا ہے کہ وہی لغت لوٹ کر اس کی نظموں خاص طور پر ’’تراش‘‘ میں شامل ہے، جسے وہ طویل نظم کہتا ہے اور میں ہر ایک کو الگ الگ معنویت میں قبول کرتی ہوں۔
رمضان کے اس زمانے میں مجھے اختر شمار نے عاجزانہ کے عنوان سے حمدیہ اور نعتیہ غزلیات مرتب کی ہیں اور آگے نظم نما غزلیں اور باقاعدہ غزلیں، چھوٹی بحر میں لکھی ہیں۔ پھر اچانک اسے ’’انقلاب مصر‘‘ یاد آجاتا ہے۔ البتہ نظم کا اختتام اس دعائیہ مصرعے پر کرتا ہے ’’کاش پاکستان میں بھی آئے ایسا انقلاب‘‘، اختر شمار کو یاد نہیں رہا کہ موجود حکومت نے کتنے ادیبوں، صحافیوں اور روشن خیال لوگوں کو پھانسی دی ہے۔ غزلوں کے درمیان پھر ایک نظم ’’سڑک پر آئو‘‘ انقلابی لہجہ لیے ہوئے ہے۔ اس لئے غزل میں بھی کہہ اٹھتا ہے ’’رائے ونڈ تک محدود۔ کب لاہور حکومت ہے۔ اختر شمار کو عاجزانہ نصیحت ہے کہ رومانویت سے کبھی کبھی انقلاب کی جانب پلٹتے ہوئے کالے امریکی اور فلسطینی شاعروں کو ضرور پڑھ لیا کرو۔
اب گرمی کی دوپہر میں، میز پر رکھ کر مجلہ پڑھ رہی ہوں یہ ہے ’’لوح‘‘ ممتاز شیخ کی جنونیت اور ادب سے محبت کا نمونہ جو کہ 650صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں جس نے جو لکھا، اس نیک نیت آدمی نے شامل کردیا ہے۔ فیض صاحب نے ایک زمانے میں کہا تھا، ہمارے یہاں شاعر بہت ہوگئے ہیں یہ مجلہ اور پھر ’’مکالمہ‘‘ کا سالنامہ پڑھ کر، فیض صاحب کے الفاظ یاد آرہے ہیں۔ حوصلہ ممتاز شیخ اور مبین مرزا کا، یکتا و تنہا، ان ضخیم شماروں کو مرتب کیا، محنت بھی کی اور ہم سے قیمت بھی نہیں مانگی۔ مکالمہ میں جوش صاحب کا مصرع ’’لکھ رہی ہیں، لکھ رہی ہیں، لکھ رہی ہیں انگلیاں‘‘ پڑھ کر یاد آیا کہ ابھی تک ایسے مصرعوں پر بے پناہ داد دی جاتی ہے۔ دونوں شماروں میں ناولوں کے حصے بھی شامل ہیں، پر عجب بات یہ ہے کہ ناول کا باب ختم کرنے کے بعد، آگے پڑھنے کی تشنگی نہیں رہتی ہے۔ شاید اس میں میرا اپنا قصور ہے۔
اب آخر میں بہت مشکل کتاب کا، اتنا ہی مشکل ترجمہ، اس پر طرہ یہ کہ نجیبہ عارف اور روش ندیم کا پیش لفظ بھی اتنا ہی مشکل ہے۔ یہ مشکل کام الیاس بابر اعوان نے کیا ہے۔ موضوع بہت منفرد ہے۔ مقصود یہ ہے کہ آج کل ڈاکٹر نارنگ سے لیکر ڈاکٹر ناصر عباس نیر تک نے تنقید میں جن مبادیات تنقید کے پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے۔ میرے نوجوان دوست الیاس نے بتایا کہ یہ سب کچھ پیٹر بیری کی کتاب میں وضاحت سے موجود ہے اور الیاس نے پوری کتاب کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ البتہ تانیثیت کے بارے میں جو بات ہے، وہ ایک مختلف نقطہ نظر کو اجاگر کرتا ہے۔ پیٹر کے بقول خواتین لکھنے والیوں کا ماحول، لغت اور استعارے ایجاد کیے چاہے وہ ورجینیا وولف ہی کیوں نہ ہو، ہمارے سنجیدہ محققین نے بھی اس کی طرف نظر نہیں کی ہے۔ ایک اور موضوع کہانی کیسے بیان کی جاتی ہے اس پر جینٹ جیرار کا حوالہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین