میاں محمد شہزاد مقبول مڑل
فصل کی اچھی اور معیاری پیداوار کا انحصار معیاری بیج پر ہے جبکہ ناقص اور غیرمعیاری بیج سے بہتر پیداوار حاصل کرنا ناممکن ہے۔ پاکستان میں کپاس کے کاشتہ علاقوں میں کسان ہر سال فصل کاشت کرنے کیلئے معیاری بیج کی تلاش میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ کسان وہ کاٹن سیڈ پسند کرتے ہیں جو زیادہ پھل برداشت کرنے کی صلاحیت کے ساتھ بیماریوں کے خلاف زیادہ قوت مدافعت رکھتے ہوں۔ ترقی پسند کاشتکار سخت موسم اور کم پانی کے باوجود اچھی فصل دینے والے بیج ہر قیمت پر خریدنے کو تیار رہتے ہیں۔ پاکستان میں وفاقی اور صوبائی سطح پر سرکاری زرعی اداروں کے علاوہ پرائیویٹ ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی کپاس کی ایسی اقسام پر تحقیق کر رہی ہیں جو مذکورہ بالا خصوصیات رکھتی ہوں مگر بدقسمتی سے ابھی تک پاکستان میں وائرس فری کاٹن سیڈ تیار نہیں کیا جاسکا۔ تمام کاٹن ریسرچ ادارے اپنے تیار کردہ کاٹن سیڈ کو وائرس کے خلاف قوت مدافعت رکھنے کا حامل قرار دیتے ہیںلیکن ابھی تک سو فیصد وائرس فری ورائٹی تیار نہیں کی جاسکی۔ سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ملتان (جن کو اپ گریڈ کرکے انٹرنیشنل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بنا دیا گیاہے) کے علاوہ بہاولپور ، فیصل آباد اور سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سندھ جبکہ صوبائی سطح پر کاٹن ریسرچ سٹیشن ملتان اور وہاڑی کے علاوہ پرائیویٹ کمپنیاں بھی ایک عرصے سے وائرس اور سنڈیوں کے خلاف زیادہ قوت مدافعت رکھنے والی کپاس کی اقسام تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ اسی طرح ’’نیاب‘‘ نامی ادارہ بھی کاٹن سیڈ پر کام کر رہا ہے۔ اس کے باوجود وائرس سنڈیوں اور ملی بگ ڈسڈی بگ کے خلاف فیصد فیصد قوت مدافعت رکھنے والے بیج تیار نہیں کئے جاسکے۔ اس صورتحال کے باعث ہر سال کپاس کا بیج درآمد کرنا پڑتا ہے۔ امپورٹڈ کاٹن سیڈ زیادہ پیداوار کے ساتھ بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بھی رکھتے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے زرعی سائنسدانوں کا ایک مدت سے درآمدہ بیجوں کے حوالے سے مخاصمانہ رویہ چلا آتا ہے۔
ہمارے سائنسدان درآمدہ بیجوں کو شروع شروع میں نہ صرف ناقص قرار دیتے بلکہ ان کا استعمال ملک دشمنی مترادف بھی گردانتے ہیں۔ چار پانچ سال گزر جانے کے بعد وہی درآمدہ بیج استعمال کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں حالانکہ اس مدت میں کپاس کے دیگر ممالک میں اس سے بہتر پیداوار دینے والا کاٹن سیڈ متعارف ہوچکا ہوتا ہے۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ پاکستانی زرعی سائنسدان نہ تو خود کپاس کابہتر بیج تیار کرپاتے ہیں اور نہ ہی وہ درآمدہ بیجوں کو بروقت استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اس سے جہاں کسان کا استحصال ہو رہاہے وہیں کپاس کی ملکی پیداوار بھی ہر سال کم ہو رہی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال بی ٹی کاٹن ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں متروک ہونے کے بعد یہ قسم اب پاکستان میں کاشت ہو رہی ہیں جبکہ امریکا ، آسٹریلیا ، چین اور روسی ریاستوں میں اس کی ایڈوانس اقسام کاشت ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں چار ہزار سیڈ کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں جو سالانہ 7 سے 8 ارب روپے کا کاروبار کرتی ہیں جبکہ نان رجسٹرڈ کمپنیاں منافع خور ترقی پسند کپاس کے کاشتکار بھی سیڈ کا کاروبار کرکے اربوں روپے بٹورتے ہیں جبکہ دوسری جانب حکومت کاٹن ریسرچ کے اداروں پر سالانہ 9 سے 10 ارب روپے خرچ کرتی ہے۔ اس کے باوجود ان کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ اس صورتحال کے باعث سیڈ مافیا نے ملکی زراعت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ سالانہ 30 سے 40 کروڑ روپے کا ناقص اور غیرمعیاری کاٹن سیڈ فروخت ہوتا ہے جس سے کسانوں کو اربوں روپے کا نقصان برداشت کرناپڑتا ہے۔ اس سلسلے میں حکومتی ادارے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال کپاس کاشتہ اور پیداواری اہداف پورے نہیں ہو رہے ہیں۔ سیڈ مافیا کی اجارہ داری کو ختم نہیں کیا جاسکا ہے۔ جنوبی پنجاب میں کپاس کے چند ترقی پسند کاشتکارزرعی اداروں کی ملی بھگت سے کروڑوں روپے کے سیڈ کا کام کرنے لگے ہیں جس میں وہاڑی ، میلسی ، لودھراں اور ملتان کے کاشتکار شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چند پیسٹی سائیڈ کمپنیوں کے مالکان نے بھی سیڈ یونٹ بنا رکھے ہیں جو کروڑوں روپے کا کام کر رہے ہیں۔اس طرح سیڈ مافیا کافی شتر بے مہار ہوگیا ہے جس میں بااثر شخصیات کے ملوث ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ صوبائی سیکرٹری زراعت پنجاب کاٹن سیزن کے آغاز پر طویل رخصت پر بیرون ممالک کی سیر پر چلے گئے جس کی وجہ سے سیڈمافیا کھلے عام لوٹ مار کرنے لگا ہے۔ ان حالات کی وجہ سے رواں سال مئی کے آخری ہفتہ تک کپاس کی کاشت کا سرکاری ہدف حاصل نہیں ہوسکا۔ سیڈ مافیا کی لوٹ مار کی وجہ سے کاٹن زون میں دھان ، کماد ، جنتر کی کاشت زیادہ ہو رہی ہے۔ سیڈ کو کنٹرول کرنے والے ادارے شدید گرمی اور رمضان المبارک کی وجہ سے ٹھنڈے کمروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ سیڈ ایکٹ پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ فیڈرل سیڈ سرٹیفکیشن ڈیپارٹمنٹ کے فیلڈ افسران بھی محدود ہو گئے ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے 18 ویں ترمیم کے بعد سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹس کو دوبارہ موجودہ حکومت نے وفاق یعنی نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کی تحویل میں دے دیا ہے جس کی وجہ سے ان اداروں کی افسر شاہی دوبارہ فعال ہوگئی ہے۔ سمال فارمرز پنجاب کے صدر رائو افسر نے کہاہے کہ سیڈ مافیا کو ختم کرنے کیلئے وفاقی صوبائی اداروں کے ساتھ ضلعی انتظامیہ کو بھی کارروائی کرنے کا اختیار دیا جائے۔ گزشتہ سال پنجاب سیڈ کارپوریشن نے بھی ناقص منظور شدہ کاٹن سیڈ فروخت کیا جس سے کروڑوں روپے کا خسارہ کسانوں کو برداشت کرنا پڑا۔ اس کیلئے سیڈ کمپنیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ جس کمپنی کے بیج کی وجہ سے فصل خراب ہوتی ہے تو اس کمپنی کو ازالہ کرنے کا پابند بنایا جائے تب جا کر سیڈ مافیا کا مکمل خاتمہ ہوسکتا ہے۔