• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت کو ایسے نظام ِحکومت کے طور پر جانا جاتا ہے جسے اس نظام کے تحت رہنے والے افراد چلاتے ہیں۔ لوگ یا تو براہ ِراست ، یا منتخب نمائندوں کے ذریعے حکومت سازی کرتے ہیں۔ اسے ’’لوگوں کی ، لوگوں پر، لوگوں کے لیے حکومت‘‘ قرار دیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا آئین تقاضا کرتاہے کہ منتخب نمائندے عقلمند ، نیک، کفایت شعار، صادق اور امین ہوں۔ اس طرح آئین ڈاکوئوں، چوروں، منی لانڈرنگ کرنے والوں، اور بدعنوان افرادکو اس کا حصہ بننے اور ریاست کے معاملات چلانے سے روکتا ہے ۔
یہ انتہائی بدقسمتی اور افسوس کی بات ہے کہ اس اسلامی جمہوریہ میں اخلاقی طور پر گھٹیا اور کم تر درجے کے افراد بہت آسانی سے ملکی سیاست میں آجاتے ہیں۔ آپ ایسے انسانوں سے ہوشربا بدعنوانی، گھنائونے جرائم،اسکینڈلز، شرمناک اور گمراہ کن بیانات، کھوکھلے نعروں، ناقص گورننس، ملکی خزانے کی لوٹ مار، سیاسی اقربا پروری کے منفرد مظاہرے،عوام کے استحصال اور حتیٰ کہ قومی سلامتی اور ریاست کے مفاد کو نقصان پہنچانے کی سازش کے سوااور کیا توقع کرسکتے ہیں؟وہ قانون کو پامال کرنے سے مطلق نہیں ہچکچاتے ۔
یہ ٹولہ عوام کو لاعلم رکھنے والی ناخواندگی کو افیون کے طور پر استعمال کرتا ہے ۔ یہ ہے وہ اسلامی جمہوریہ جس میں ٹھگ، چور، ڈاکو، لٹیرے اور غریبوں کا خون چوسنے ، اور ان کا استحصال کرنے والے وسیع وعریض محلات میں رہتے اور مہنگی گاڑیاں چلاتے ہیں، جبکہ عام شہریوں کو پینے کا صاف پانی، ہیلتھ کیئر اور رہنے کے لیے مکان تک کی سہولت دستیاب نہیں ۔ کیا یہ دائمی لٹیرے عزت کے مستحق ہیں یا انہیں ووٹ دینے والے عوام؟قوم کا قابل ِ فخر سرمایہ، جیساکہ اسٹیل ملز، پی آئی اے، انڈسٹریل کمپلکس، اور گرتی ہوئی برآمدات خطرے کی گھنٹی بجارہی ہیں، جبکہ غیر ملکی قرضہ بھی خطرے کی حد کو چھوتے ہوئے 93 بلین ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے ۔ کسی کو پانی کی کمیابی، آباد ی میں اضافے اور زرعی پیداوار میں کمی کا احساس نہیں ہے ۔
ان سب کے باوجود اشتہاری بھگوڑے، جو جلاوطن ہیں، ملک میں لگی کھلی نیلامی (ووٹوں کی خریدوفروخت) کے ذریعے منتخب ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے یہ افسوس ناک انتخابی عمل مضحکہ خیزڈرامہ بن جاتا ہے ۔ سیاست دانوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے عدالتوں پر اتنا دبائو ہے کہ وہ عوام کو انصاف فراہم نہیں کرسکتیں۔ سرکاری ملازمین عموماً ان جعلی ڈگریاں رکھنے والے حکمرانوں کے سامنے گھٹیا، بدعنوان، خوشامدی اور پست کردار کامظاہرہ کرتے ہیں، تاکہ وہ بھی انہیں خوش رکھتے ہوئے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو سکیں۔ سرکاری کنٹرول میں چلائی جانے والی ہر انٹر پرائزسیاسی وابستگی رکھنے والے بدکردار، بے شرم، بدعنوان اور نااہل افسران کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل خسارے کا سامنا کررہی ہیں۔
جب بطور قوم ہم منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو مالی وسائل فراہم کرنے کے الزام (چاہے کتناہی غلط کیوں نہ ہو) کی وجہ سے گرے لسٹ میں جا چکے ہیں تو بھی ان کند ذہن حکمرانوںاور خود غرض لٹیروں کو ہر گز کوئی احساس نہیں کہ اس کے بعد بلیک لسٹ میں جانے کے کیا سنگین مضمرات ہوںگے۔ یہ خطرہ منہ پھاڑے سامنے کھڑا ہے لیکن یہ نام نہاد جمہوریت کو خطرے کا رونا رو رہے ہیں۔ یقیناً یہ جسے جمہوریت کہتے ہیں، وہ بہتر ین انتقام ہے۔ کیا اس بے چاری قوم سے انتقام لے لے کر ابھی ان کا جی نہیں بھرا؟ شاید نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ریاست کے باقی ماندہ ستونوں، جیسا کہ عدلیہ اور فوج کو بھی منہدم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
مجھے ان کو بتانا ہے کہ یہ جمہوریت نہیں ، اسے منتخب شدہ چوروں کی حکومت، یا شیطانی نظام کا نام دینا مناسب ہوگا ۔ جمہوریت کا مطلب تو شفافیت، کارکردگی، احتساب، سماجی ترقی، قوم سازی اور عوام کی خدمت ہوتا ہے ، لیکن ان کند ذہن اور غبی سیاستدانوں کے لیے جمہوریت کی یہ تعریف ناقابل ِفہم ہے ۔ میں یہاں اُن حلقوں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں جو حالات کو تبدیل کرنے کے وسائل رکھتے ہیں، کہ سیاست دانوں کے روپ میں ان چور اچکوں نے پہلے ہی اٹھارویں ترمیم کے ذریعے وفاقی ڈھانچے پر کاری ضرب لگا کر ملک کو پانچ آزاد ریاستوں میں تقسیم کردیا ہے ۔ اب وہ تمام حدیں عبور کرکے ریاست کے ہر ادارے کے لیے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔ اگر انہیںدھاندلی، پیسے کی چمک اور الیکشن پر اثر انداز ہوکر ایک مرتبہ پھر اقتدار حاصل کرنے کا موقع دے دیا گیا تو ریاست کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی۔ اُنھوںنے اپنے طرزِعمل سے دکھایا ہے کہ وہ اپنے فائدے کے لیے کس قدرتیزی سے آئین میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔ چنانچہ اُنہیں ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے ۔
ملک ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکا ہے ۔ اگر اُنہیں ایک موقع اور مل گیا تو وہ آئین، اور اپنے راستے میں مزاحم ہر قانون کو تبدیل کردیں گے تاکہ مزید لوٹ مار کرتے ہوئے پاکستانی عوام سے اپنی جمہوریت کے ذریعے جی بھر کر انتقام لے سکیں۔ وقت آچکا ہے جب تنزلی اور گراوٹ کے عمل کو روکا جائے ۔ اس کے لیے پاکستان کے عوام کی خواہشات اور خوابوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نیا سیاسی منشور تشکیل دینا ہوگا۔
ہم ایک جوہری قوت ہیں۔ ہم دنیا کی بہترین مسلح افواج رکھتے ہیں۔ ہماری عدلیہ فعال ہے ۔ ہم نوجوان اور جاندار افرادی قوت، اور چار موسموں کا حامل بہترین زرعی نظام رکھتے ہیں۔ ہمارے بزنس مین اور تاجربرادری کسی سے کم نہیں۔ ہمارا سب سے قابل ِقدر اثاثہ سمندر پار پاکستانی ہیں، جو ہمیشہ ریاست کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ جب پاکستان کے عوام اپنی حکومت کی دیانت داری کے قائل ہوجائیں تو وہ تمام مشکلات اور حریفوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ، اور وہ ہر ابتلا اور آزمائش میں سرخروہوتے ہیں۔
تمام قوم نے اپنی امیدیں اُن سے وابستہ کررکھی ہیں جو تبدیلی کی طاقت رکھتے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ صدارتی نظام ِ حکومت بھی جمہوریت ہے ۔ اگر ریاست کا وجود ، اور اس کی جغرافیائی سالمیت کا تحفظ کرنا ہے تو دلیرانہ فیصلے کرنے کا وقت آن پہنچا ہے ۔ صدارتی نظام ِحکومت ، جس میں بائیس انتظامی یونٹس ہوں، اورعوام صدر اور ریاست کے گورنروں کا براہ ِراست انتخاب کریں، ملک کو بہت سے مسائل سے بچا سکتا ہے ۔ا س وقت ملک کو چند ایک پرعزم اور اچھے افراد کی ضرورت ہے جو اس کی کشتی کو مشکلات کے گرداب سے نکال سکیں۔ موجودہ معاشی بحران پیشہ ورانہ مینجمنٹ کا متقاضی ہے ۔ بدعنوان جمہوریت کو ایک طرف کردیا جائے تاکہ حقیقی جمہوریت اپنی جڑیں مضبوط کرلے ۔ اس وقت پاکستان کو عقلمند ، نیک، کفایت شعار، صادق اور امین افراد کی حکومت کی ضرورت ہے ۔ یقیناً پاکستان میں ایسے افراد کی کمی نہیں۔
ہمیں دنیا کے سامنے کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ہم کسی کو اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ راستے کا پتھر سمجھ کر ٹھوکریں مارتا پھرے ۔ ہماری خارجہ پالیسی اور اس کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے ۔ اس وقت ہمیں بااخلاق، دلیر، عقل مند اور مضبوط کردار کی قیادت درکار ہے ، جو قوم کو اندرونی اور بیرونی مسائل سے نکال سکے ۔ ایسی قیادت جو دوست اور دشمن، سب کو ایک طاقتور پیغام دے سکے ۔
’’ہر قوم جان لے ، چاہے اس کی نیت اچھی ہے یا بری، ہم اپنے بچائو، کامیابی، آزادی اور خودمختاری کی کوئی بھی قیمت چکانے کے لیے تیار ہیں۔ہر کسی کو پتہ ہونا چاہیے کہ جب ہماری فورسز طاقت ور اور ناقابل ِ تسخیر ہیں، اور جب ہمارے بازوئوں میں دم ہے تو ہی امن کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ ہمیں مذاکرات کا کوئی ڈر نہیں ہے، لیکن ہم ڈر کے مارے کبھی مذاکرات نہیں کریں گے ۔‘‘
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین