• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ پاکستان کے بہترین پہلو کی نمائندگی کرتی تھی، اور وہ امریکہ کے بدترین پہلو کی نمائندگی کرتا تھا۔ لیکن یقیناً بات اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ سترہ سالہ سبیکا شیخ، جو ایک ایکس چینج طالبہ تھیں، کو سانتا فی اسکول ٹیکساس میں ایک سترہ سالہ امریکی طالب علم دمتروز پیگوکرتس (Dimitrios Pagourtciz)نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ اس طالب علم کے ہاتھوں دس افراد سفاکانہ طریقے سے قتل ہوئے۔ اُسکے ہاتھ میں دو گنز تھیں جو اُس نے اپنے گھر سے لی تھیں۔ پاکستانیوں کے لیے یہ ایک المناک سانحہ تھا۔ پہلی بات یہ کہ سبیکا زندگی کے جذبوں اور خوابوں سے بھرپور ایک نوجوان طالبہ تھی اور اُس کی زندگی بلاوجہ لے لی گئی۔ دوسری یہ کہ اے پی ایس کے سانحے کے علاوہ پاکستان، جو دہشت گردی کے واقعات کیلئے بدنام ہے، میں اسکولوں میں ایسے واقعات بمشکل ہی کبھی پیش آتے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ، جو دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا دعویدار ہے، میں فائرنگ کے ایسے واقعات ایک معمول ہیں۔ ٹیکساس اسکول میں ہونے والی فائرنگ دو ماہ میں اس قسم کا آٹھواں واقعہ تھا۔ ان واقعات میں بیس جانیں ضائع ہوئیں۔ امریکی یہ کہہ کر ان واقعات کا جواز پیش کرتے ہیں کہ قاتل ذہنی مریض تھے، چنانچہ اُنہیں ان واقعات پر مورد ِالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ شاید ہی کوئی خود کش بمبار یا اندھا دھند فائرنگ کرکے انسانوں کو ہلاک کرنے والا شخص صحیح الدماغ ہو۔ چنانچہ ان قاتلوں کو دہشت گرد قرار نہ دینا بذات خود ایک مجرمانہ سرگرمی ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی پر دہرامعیار اپنانے کا الزام رہا ہے کہ یہ جلدکی رنگت، ملک، مذہبی عقیدے کی بنا پر فیصلہ کرتی ہے کہ کوئی مجرم پاگل ہے یا نہیں، معتدل مزاج ہے یا انتہا پسند، دہشت گرد ہے یا لمحاتی اشتعال میں آکر بے گناہوں پر گولیاں برسانے والا۔ بدقسمتی سے امریکہ کی طرف سے کی جانیوالی اس درجہ بندی نے نہ صرف بیرونی ممالک کو ناراض کیا ہے بلکہ اس نے خود امریکہ میں انتہائی سوچ رکھنے والوں کو بھی شہ دی ہے۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں بندوق کی دہشت گردی سے ہونے والی اموات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہلاکتوں کے اعدادو شمار چونکا دینے والے ہیں۔ جی وی اے (گن وائلنس ایسوسی ایشن) کے مطابق گزشتہ ساڑھے چار برسوں کے باون مہینوں میں صرف چھ مہینے ایسے گزرے ہیں جن میں امریکہ کے کسی اسکول میں اسلحہ سے تشدد کا کوئی واقعہ نہ پیش آیا ہو۔ امریکہ میں 2014ء سے لیکر 2017ء تک فائرنگ سے 56,755 امریکی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ ان میں بارہ سال سے کم عمر کے 2,710بچے تھے۔ بائیس ہزارخود کشی سے ہلاکتیں اس کے علاوہ ہیں۔ بہت کم ممالک اس طرح کی مسلسل دہشت گردی اور تشدد کی مثال رکھتے ہیں۔
یہ سوال کہ اندھا دھند فائرنگ کے اس کلچر کو فروغ پانے کی اجازت کیوں دی گئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امریکی سیاست میں بندوق ایک اہم ایشو ہے۔ ایسے افراد کی کمی نہیں جو امریکہ کے بانیوں کی قائم کردہ روایت کے ساتھ جڑے رہنا چاہتے ہیں۔ یہ روایت دوسری آئینی ترمیم کی صورت میں امریکیوں کو اپنی حفاظت کیلئے گھر میں ہتھیار رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔ دراصل اس روایت کا تعلق اُس دور سے ہے جب امریکہ پر یورپ کی نوآبادیاتی فورسز اور دیگر افواج حملہ آور ہورہی تھیں۔ لیکن آج امریکہ خود ایک عالمی طاقت ہے۔ اس نے دنیا پر بہت سی جنگیں مسلط کررکھی ہیں۔ چنانچہ آج ہتھیار رکھنے کی ضرورت پر سوال اٹھتا ہے۔ سابق صدر اوباما نے ہتھیار رکھنے کے قوانین کو سخت کرنے کی کوشش کی تھی لیکن حکومت میں شامل گن لابیز نے اسکی مخالفت کی۔ حتیٰ کہ گن خریدنے والے شخص کی ذہنی صحت کی جانچ کی ضرورت پر بھی اعتراض کیا گیا۔
ٹرمپ نے گن کنٹرول پر اعتراضات کو اپنی انتخابی مہم کے دوران بہت مہارت سے استعمال کیا۔ نیشنل رائفل ایسوسی ایشن(این آر اے) نے اُنہیں انتخابی مہم چلانے کے لیے تیس ملین ڈالر فراہم کیے ۔ ٹرمپ بھی پہلے صدر تھے جو نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کے پاس گئے اور کھل کرتقریر کرتے ہوئے کہا کہ این آر اے الیکشن میں اُن کے ساتھ کھڑی رہی، چنانچہ وہ این آر اے کے سچا دوست بن کر اس کا ساتھ دیں گے۔ یہ رویہ تشدد میں اضافے کا باعث بنے گا۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ اگر ایک امریکی دوسرے امریکیوں کو ہلاک کردے تو یہ افسوس ناک واقعہ ہے، لیکن اگر قاتل کوئی پاکستانی یا کوئی عرب شہری ہو تو پھر یہ واقعہ منظم دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔
سانتا فی اسکول میں ہونیوالی ہلاکتیں منظم منصوبے کا نتیجہ تھیں۔ سترہ سالہ قاتل دمترو اکثر وہ ٹی شرٹ پہنا کرتا تھا جس پر لکھا ہوا تھا ’’Born to Kill‘‘ گویا اُس کے نزدیک اُسکی زندگی کا مقصد ہی دوسروں کو قتل کرنا تھا۔ اُس نے حملے کیلئے ایک شاٹ گن اور ایک ریوالور استعمال کیے۔ اسکے ہاتھوں ہلاک ہونے والے دس طلبہ، اور بہت سے دیگر جو اسی طرح کے واقعات میں مارے گئے، شاید زندہ رہتے اگر وہ دیگر قاتلوں کی طرح آسانی سے ہتھیاروں تک رسائی نہ رکھتا، یا اس نے ایسے واقعات اپنے ارد گرد نہ دیکھے ہوتے۔ امریکیوں کیلئے پیغام یہ ہے کہ گنز سیکورٹی کو یقینی نہیں بناسکتی، لیکن ایک دوسرے کا خیال رکھنے سے یہ دنیا محفوظ ضرور ہوسکتی ہے۔ ہتھیار آپ کو آزادی نہیں دے سکتے، امن ایسا کرسکتا ہے۔ ہتھیار آپ کو زیادہ طاقتور نہیں بناتے، باہمی احترام بناتا ہے۔ طاقت، جبر اور تشدد کی روایت سے کچھ وقت کیلئے چند ایک امور میں تحفظ ملتا ہے، لیکن اس سے وہ نظام تباہ ہوجاتا ہے جو آپ کے مجموعی تحفظ کو یقینی بناتا ہے ۔امریکی دنیا کے دیگر ممالک سے ’’ڈومور‘‘ کا کہتے رہتے ہیںتاکہ دنیا کو زیادہ محفوظ بنایا جاسکے، لیکن اُنھوں نے خود کو اپنے ہاتھوں سے محفوظ بنانے کیلئے کچھ نہیں کیا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران امریکہ میں گنز سے 56 ,755 ہلاکتیں ہوئیں، جبکہ پاکستان میں دہشت گردی سے اس عرصے کے دوران ہونے والی ہلاکتیں 5246 تھیں۔ مزید یہ کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آرہی ہے، جبکہ امریکہ میں ایسے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اب باقی دنیا کو امریکہ سے مطالبہ کرنے کا وقت آن پہنچا ہے ، ’’ڈومور‘‘
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین