• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں کھانے کی تفریح اور ریسٹورنٹس کا بڑھتا رحجان

پاکستان میں کھانے کی تفریح اور ریسٹورنٹس کا بڑھتا رحجان

ایک زمانہ تھا کہ لوگوں کی تفریح کا سامان سینما،تھیٹر اور تفریح گاہیں ہوا کرتیں لیکن حاضرِ زمانہ ہمارے لیےشکم کی آگ بجھانے کے ساتھ تفریح اور مل بیٹھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ریسٹورنٹس ہیں۔ پاکستان کی تجارت و صنعت میں فوڈ انڈسٹری کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ کھانے کی یہ صنعت مجموعی قومی پیداوار میں چالیس فی صد کی حصے دارہے،جس سے وابستہ دیگر صنعتیں اسی کے دم سے قائم ہیں۔ پاکستان میں اگر کوئی کاروبار گھاٹے کے خطرے سے آزاد ہے تو بلاشبہ وہ کھانے کا کاروبار ہے جو کبھی گھاٹے کا سودا نہیں رہا۔پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ ، حیدر آباد، ملتان اورفیصل آباد سمیت ملک بھر کےتمام شہروں میں ریسٹورنٹس یا ہوٹلوں کا جال بچھا ہے کیونکہ معیاری کھانے سب کے پسندیدہ ہوتے ہیں۔ کئی شہر تو اپنے کھانوں کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں جیسے کراچی کی پہچان بریانی اورنہاری ہے تو کوئٹہ کی سجی، لاہور کا چرغا،پشاور کے چپلی کباب اور شکارپور کا اچار۔ اس طرح چائنیز کھانے ہوں یا اٹالین پیزا اور افغانی چاول، ان تمام ذائقوں کے سب سے زیادہ رسیا پاکستانی دکھائی دیں گے۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان میں ریسٹورنٹس کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ساتھ ہی سڑکوں کا انفرا اسٹرکچر مضبوط ہونے سے آپ کو کراچی سے کشمیر تک مقامی ڈشز ہر دو بڑے شہروں میں دکھائی دیں گے۔ کراچی و لاہور اور کوئٹہ و پشاور کی ڈشز سے اب آپ ہر اس جگہ لطف اندوز ہوسکتے ہیں جہاں فوڈ اسٹریٹس بنی ہوئی ہیں۔اس حوالے سے نمایاں شہر کراچی ،لاہور اور اسلام آباد ہیں ۔ایسے میں اگر ہم کراچی کی فوڈ اسٹریٹس کی بات کریں تو ساحلِ سمندر کے کنارے دو دریاپر قائم ریسٹورینٹس اور نیٹی جیٹی پل کے نیچےپورٹ گرینڈ نامی فوڈ اسٹریٹ کھانوں کے شوقین خواتین و حضرات کو اپنی جانب متوجہ کیا ہوا ہے وہیں برنس روڈ، نارتھ ناظم آباد،لیاقت آبادڈاکخانہ دس نمبر، عائشہ منزل،حسین آباد،جوہر، گلشن اقبال، طارق روڈ ،کھڈہ مارکیٹ اور سی ویو کی فوڈ اسٹریٹس بھی کراچی کے شہریوں کو اپنی جانب کھینچتی ہیں۔ ریسٹورنٹس کی بڑھوتری کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب وہ دن چلے گئے جب کھانے کے لیے قطاریںباندھنی پڑتی تھیں۔ ہر قسم کے آراستہ ریسٹورنٹس آپ کے اپنے علاقے میں مل جائیں گے۔لوگوں کی اکثریت اب گھر پر کھانے کے بجائے ریسٹورنٹس کا رخ کرتی ہے۔اگر گھر میں کھانا بنتا بھی ہے تو چپاتی اور نان باہر سے منگوائے جاتے ہیں۔آج کل پاکستانی سالانہ114.78 ارب روپے سے زائد گھر سےباہرکھانا کھانے پر صرف کرتے ہیں۔اسٹیٹ بینک کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستانی اپنی آمدنی کا لگ بھگ چالیس فیصد تیار کھانوں پر صرف کرتے ہیں۔لوگوں کے باہر کھانے کے رجحان میں کئی امور نے اثر ڈالا ہے۔ایک تو کھانے کے بارے میں لوگوں کا شعور بڑھا ہے اور وہ ہر قسم کے کھانے کی طرف مائل ہوئے ہیں دوسری جانب مڈل کلاس کی آمدنی بھی بڑھی ہے ۔ساتھ ہی ٹیکنالوجی کے در آنے سے آن لائن فوڈ آرڈرز نے لوگوں کی نفسیات پر مثبت اثر ڈالا ہے کہ جب تیار معیاری کھانا گھر بیٹھے مل جاتا ہے تو پھر کیوں چولہے ہانڈی میں وقت برباد کیا جائے۔پاکستان میں سنگل فیملی رجحان نے بھی اس روش کو تقویت دی ہے کہ میاں بیوی اور دو بچوں کی خوراک کا خرچہ گھر پرکھانا پکانے سے کم بنتا ہے۔اس پر ایک پیزا ہی پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

کراچی میں افغانی کھانوں کی مقبولیت

یہ خیال عام ہے کہ کراچی میں افغانستان کی جھلک دیکھنا ہو تو سہراب گوٹھ چلے آئیے۔ افغان ثقافت اور روایات کے حقیقی رنگوں کو پیش کرنے کے سبب ہی یہ علاقہ 'منی افغانستان کہلاتا ہے۔ یہاں افغانی طرز کے ہوٹل موجود ہیں۔ اردو بولنے والے ہوں، سندھی، پشتون، بلوچی، پنجابی یا خود افغانی، سب کو ان ہوٹلز کے روایتی کھانوں نے یکجا کردیا ہے۔

شام ہوتے ہی ان ہوٹلز پر آنے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ افغانی بوٹی، کباب، دنبے کا نمکین گوشت، کابلی پلاؤ، قندھاری نان، کابلی نان، سلاد، رائتا اور سب سے بڑھ کر کوئلے کی دھیمی دھیمی آنچ پر بنا قہوہ۔ یہ سب خاص مشہور افغانی ڈشز ہیں جن کے ذائقے اور لذت پاکستان میں بسنے والی تمام قوموں کو یکجا کرنے کا سبب بنی ہوئی ہیں۔افغانی بوٹی اور کباب، مقامی بوٹی اور کباب سے اس لیے مختلف ہوتے ہیں کہ ان میں چربی کی مقدارزیادہ ہوتی ہے۔ یہاں دنبے کے گوشت کو دنبے کی چربی میں سینڈوچ کی طرح بھر کر سینکا یا گرل کیا جاتا ہے۔افغانی نان سائز میں چھوٹے لیکن موٹے ہوتے ہیں۔ کھانے کے کچھ دیر بعد گاہکوں کو سبز چائے، نقل اور خصوصی طور پر تیار سوئٹس جن کو اردو میں 'الائچی دانہ‘ کہا جاتا ہے، کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ یہ بادام پر شکر کی کوٹنگ کرکے تیار کی جاتی ہے۔ یہ چائے ہردل عزیز ہے اور خوب پی جاتی ہے۔ابتدا میں یہ ہوٹلز صرف سہراب گوٹھ پر ہی قائم تھے مگر اب شہر کی تمام فوڈ اسٹریٹس پر آپ کو افغانی کھانے مل جائیں گے۔ انہیں تیار کرنے والے افغان باورچی ہیں، اس لیے یہ کھانے افغانیوں کے روزگار کا بڑا سبب بنے ہوئے ہیں۔ 

تازہ ترین