• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مستند عسکری ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ فی الحال شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن نہیں کیا جارہا ہے حالانکہ سیاسی و عسکری قیادت پر اس علاقے میں موجود دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنے کے سلسلے میں خاصہ دباؤ بڑھ رہا ہے لیکن معروضی حالات کے پیش نظر فی الحال یہ آپریشن ملتوی کیا جارہا ہے، اس امید کے ساتھ کہ شمالی وزیرستان میں موجود پاکستان دشمن دہشت گرد اپنا احتساب کرتے ہوئے پاکستان کیخلاف دہشت گردی نہیں کریں گے بلکہ پُرامن شہریوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہوئے اس علاقے میں کئے جانے والے ترقیاتی کاموں میں حکومت اور عسکری قیادت کے ساتھ تعاون کریں گے تاکہ روزگار کے ذرائع پیدا ہونے کے ساتھ یہاں سے بے روزگاری اور غربت کا بتدریج خاتمہ ہوسکے۔ پاکستان کی حکومت نے امریکہ کو بھی آگاہ کردیا ہے کہ فی الوقت پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کا شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اسی قسم کا ایک اہم بیان صدر مملکت آصف زرداری نے بھی صحافیوں کی ایک تنظیم SAFMA کے ایک اجلاس سے خطاب کے دوران دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کرنے سے پہلے اس کے تمام پہلوؤں پر نہایت ہی سنجیدگی اور باریک بینی سے غور کیا جائے گا اور یہ بھی تعین کیا جائے گا کہ کیا ہم اتنی استعداد رکھتے ہیں کہ اس آپریشن کو طویل عرصے تک کے لئے برداشت کرسکیں ۔ اس لئے فی الوقت شمالی وزیرستان کے خلاف کوئی آپریشن نہیں کیا جارہا ہے۔ صدر مملکت کے بیان کے بعد پاکستان‘ افغانستان کے خصوصی نمائندے گروس مین نے بھی اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کی حکومت پر شمالی وزیرستان پر فوجی کارروائی کرنے کے سلسلے میں امریکہ کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں ہے، اس کا فیصلہ خود پاکستان کی حکومت اور عسکری قیادت کو کرنا ہے اور وقت کا تعین بھی پاکستان ہی کو کرنا ہے کہ کب اس علاقے میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کس وقت موثر کارروائی کی جاسکے گی۔ تاہم گروس مین نے کہا کہ شمالی وزیرستان القاعدہ کے علاوہ ایسے دہشت گردوں کا مرکز بن چکا ہے جہاں سے یہ عناصر پاکستان کے اندر اور افغانستان میں کارروائیاں کرکے نہ صرف قیمتی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ معصوم عوام کی جانوں سے بھی کھیل رہے ہیں۔ یہ عناصر عالمی امن کیلئے بھی خطرے کا باعث بنے ہوئے ہیں اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو خراب کررہے ہیں۔
تاہم اس ضمن میں ایک اور ذریعے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کو اس لئے موخر کیا ہے کہ شاید ان دہشت گردوں کو ہوش آجائے کہ وہ پاکستان کے علاقوں میں پناہ گزیں ہو کر ایک ایسی ”جنگ“ لڑرہے ہیں جس کا انجام عبرتناک شکست کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا اور اگر واقعی وہ امن کے قیام میں دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ اپنے علاقے میں معاشی ترقی کے خواہشمند ہیں تو انہیں مہلک ہتھیاروں کو خیرباد کہہ کے حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے ہوں گے اور ان تمام عناصر کو شمالی وزیرستان سے نکلنا ہوگا جو پاکستانی شہری نہیں ہے وہ محض پیسے کی خاطر یہاں براجمان ہیں اور پاکستان کے لئے بے پناہ معاشی و سیکورٹی کے مسائل پیدا کررہے ہیں بلکہ اس خطے میں سامراجی طاقتوں کے لئے پاکستان کی سا لمیت کے حوالے سے ناسازگار حالات پیدا بھی کررہے ہیں ان کی ان پاکستان دشمن کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان کے عوام کی اکثریت ان کے خلاف فوجی آپریشن کے لئے مسلسل دباؤ بڑھا رہی ہے۔ اس ضمن میں لاہور اور کراچی میں فوجی آپریشن کے حق میں ریلیاں بھی نکالی گئیں جن میں باقاعدہ حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کے ان عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جب ملالہ پر ایک سفاک قاتل نے 10/اکتوبر کو اسے قتل کرنے کی نیت سے حملہ کیا تھا اس وقت سے پوری قوم غم و غصے کا شدید مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت سے پرزور مطالبہ کررہی تھی کہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی بے حد ضروری ہوگئی ہے تاہم سیاسی و عسکری قیادت نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوجی آپریشن کو نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور سیاسی ڈائیلاگ پر زور دیا ہے حالانکہ ان عناصر سے دو مرتبہ مذاکرات ہوچکے ہیں اور دونوں مرتبہ یہ عناصر دہشت گردی نہ کرنے اور امن کے قیام کا وعدہ کرکے اس سے منحرف ہوگئے اور پاکستان کیخلاف بیرونی طاقتوں کے اشارے پر دہشت گرد کارروائیاں کررہے ہیں جس کی وجہ سے ایک عام پاکستانی ان سے نہ صرف نفرت کرتا ہے بلکہ انہیں پاکستان کی سالمیت کے حوالے سے خطرے کا باعث بھی سمجھتا ہے۔اس ضمن میں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ تحریک طالبان اور ان کے دیگر غیر ملکی ہمنوا جن میں پنجابی طالبان بھی شامل ہیں حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ یہاں شریعت محمدی نافذ کی جائے۔ حالانکہ شریعت محمدی (قرآن اور سنت) کا حوالہ بڑی وضاحت کے ساتھ پاکستان کے آئین میں موجود ہے جبکہ پاکستانیوں کی اکثریت عین اسلامی روایات اور اقدار کے مطابق اپنی زندگی بسرکررہی ہے۔ ان پاکستانیوں کے ذہنوں میں اسلامی تعلیمات سے متعلق کوئی ابہام نہیں ہے جبکہ ان بھٹکے ہوئے عناصر کی پاکستان دشمن اور فرقہ پرستی پر مبنی بھیانک مذموم کارروائیوں کے باوجود مسجدیں آباد ہیں بلکہ پاکستانی نوجوان بڑی تعداد میں مسجدوں میں عبادت کرتے ہیں اور دین کی رونق بنے ہوئے ہیں ان کے ذہنوں میں فرقہ پرستی کا شائبہ تک نہیں ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کے واضح طرز عمل اور حکمت عملی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عناصر کن طاقتوں کا آلہٴ کار بنے ہوئے ہیں اور پاکستان کو کمزور کرنے کے سلسلے میں ان کے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں۔ ملّا فضل اللہ عرف ملّا ریڈیو بھی افغانستان انٹیلی جنس کی حمایت سے پاک افغان سرحد پر پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیاں کررہا ہے۔
تاہم پاکستان دشمن عناصر کو شاید تحریک پاکستان کی تاریخ یاد نہیں ہے یا پھر انہوں نے اس عظیم تحریک کا مطالعہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے جس کی خاطر برصغیر کے تیس لاکھ مسلمانوں نے قربانیاں دی ہیں قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان کے حصول کی جدوجہد ایک ایسا عالمی تاریخ ساز واقعہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ مسلمانوں کی اس غیر معمولی قربانی و ایثار، بھرپور توانا جذبے اور باہمی اعتماد و یقین محکم کی لازوال قوت سے پاکستان کا قیام ممکن ہوا تھا اور انشاء اللہ اس کا قیام قیامت تک رہے گا (آمین) جو عناصر مثلاً تحریک طالبان پاکستان اپنے بیرونی آقاؤں کی مدد سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں ان میں یہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ پاکستان کا نوجوان پاکستان سے بے پناہ محبت کرتا ہے اس کو اپنی فوج اور دیگر عسکری اداروں سے بے پناہ پیار ہے اور فخر بھی ہے ان پاکستانی نوجوانوں کو اس بات کا ادراک ہے کہ پاکستان دشمن طاقتیں پاکستان کی افواج کو ملک کے اندر خلفشار پیدا کرکے کمزور اور غیر فعال بنانا چاہتی ہیں اس لئے وہ ان کے خلاف پاکستان کی سا لمیت کے لئے لڑنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں اور خدا کی نصرت بھی ان کے ساتھ ہے۔
تازہ ترین