مشتاق احمد یوسفی سے ہماراپہلا تعارف کرنل محمد خان کی کتاب ’’بجنگ آمد‘‘ کے توسط سے ہوا تھا۔دوسری جنگِ عظیم میں مینا نامی ایک فوجی کیمپ میںاپنے اردلی بابو رام کی پکائی ہوئی دال کی تعریف اپنے مخصوص شگفتہ انداز میں کرنے کے بعد کرنل صاحب نے لکھا تھا’’وہ جو مشتاق احمد یوسفی نے کہا ہے کہ دو چار دن مونگ کی دال کھالوں تواردو شاعری سمجھ میں نہیں آتی اور طبیعت بے تحاشا تجارت کی طرف مائل ہوتی ہے ، کسی اور دال کی بات ہوگی۔ ورنہ اگران کا روئے سخن بابو رام کی دال کی طرف ہے تو یہ بہتان ہے ۔ اگر جناب یوسفی مینا کیمپ میں میرے ہم نوالہ ہوتے تو آج ’’چراغ تلے‘‘ لکھنے کے علاوہ صاحبِ دیوان بھی ہوتے اور بینک کی بجائے کسی بریگیڈ کی کمان کر رہے ہوتے‘‘۔
ایک تو یوسفی صاحب کا فقرہ اور پھر کرنل صاحب کی سند ۔یقین ہوگیا کہ یوسفی صاحب کسی بریگیڈ کی کمان ہی کرتے ہیں اور وہ بریگیڈ مزاح نگاروں پر مشتمل ہے۔ بے تاب ہو کر یوسفی صاحب کی ’’چراغ تلے ‘‘ کی کھوج میں نکل پڑے۔ لیکن تلاشِ بسیار کے بعد نامرادی ہاتھ آئی۔ ناچار کرنل صاحب کی دوسری کتاب ’’بسلامت روی‘‘خرید لی اور پڑھنا شروع کی ۔ اس میں بھی کرنل صاحب یوسفی صاحب کی مدح کرتے نظر آئے ۔ لکھا ہے’’کراچی جا کر یوسفی کی ملاقات سے محروم رہنا ایسا ہی ہے جیسے آگرہ جا کر تاج محل نہ دیکھنا۔یوسفی دیدار سے زیادہ گفتار کے تاج محل ہیں ۔ ان کی زبان سے ، ان کے قلم کی طرح، ہر لفظ گل بدن بیگم بن کر نکلتا ہے اور ہمیں انہی گل بدنوں کی دید کا شوق تھا ، مگر وائے قسمت کہ فون کیا تو پتا چلا کہ تاج محل تو دورے پرہے ۔ناچار ازراہِ تلافی ہم نے ’’خاکم بدہن‘‘ کا ایک نسخہ اپنے ساتھ رکھ لیا کہ یہ بھی تاج محل کا جیبی نمونہ ہے‘‘۔
ہم آگرہ یعنی کراچی ہی میں تھے لیکن اس تاج محل یعنی یوسفی کے دیدار اور گفتار دونوں سے محروم تھے۔ خد اکا کرنا یہ ہوا کہ
مکتبہ ٔ دانیا ل نے یوسفی صاحب کی کتاب ’’چراغ تلے‘‘ دوبارہ چھاپ دی۔ہم جیسے کتنے ہی عاشقانِ یوسفی نہا ل ہوگئے۔ اور پھر ’’خاکم بدہن ‘‘بھی ہاتھ لگ گئی۔ پھر انہی دنو ں (۱۹۷۶ء میں ) یوسفی صاحب کی سوانح عمری’’زر گزشت ‘‘ (جسے خود یوسفی صاحب نے سوانح نو عمری قرار دیا ) شائع ہوئی تو ابن انشانے اس کے بارے میں لکھا کہ یہ کتاب سفر میں ان کے ساتھ تھی مگر پڑھتے اس ڈر سے نہیں تھے کہ ختم ہوجائے گی اور یہ ’’ظالم ‘‘ دس سال سے پہلے کوئی اور کتاب لکھنے کا نہیں۔لیکن ہم نے ’’ زرگزشت ‘‘فوراً پڑھ ڈالی اور اس کے ختم ہوجانے کا ڈر اس لیے نہیں تھا کہ ختم ہوجاتی تھی تو دوبارہ پڑھنا شروع کردیتے تھے۔ دس سال کون انتظارکر تا۔ اور اس’’ ظالم‘‘ نے بھی اگلی کتاب یعنی ’’آبِ گم‘‘ کوئی چودہ سال بعد شائع کرائی۔
جب ہماری کتاب ’’ہوائیاں ‘‘ شائع ہوئی تو خیال آیا کہ مزاح نگاروں کے اس امام کی نظر سے اگر یہ مزاحیہ تصنیف نہ گزری تو گویا ہم نے گھاس کھودی ہے۔ ڈرتے ڈرتے بذریعہ ڈاک ان کی خدمت میں ایک نسخہ ارسال کیاجو چند دنوں کے بعد واپس آگیا اور ڈاک کے عملے نے اس پر’’ خطِ شکستہ ‘‘میں اطلاع دی تھی کہ پتا درست نہیں ہے۔معلوم ہوا کہ یوسفی صاحب ڈیفنس سوسائٹی میں خیابان ِبدر پر واقع اپنے مکان میں منتقل ہوگئے ہیں۔ کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی میں کوئی مکان تلاش کرنا ایسے ہی ہے جیسے بقول شخصے کوئی کم زور بینائی کا حامل شخص ایک ایسی کالی بلی اندھیرے کمرے میں تلاش کرنے کی کوشش کرے جو وہاں ہے ہی نہیں۔ فرق یہ ہے کہ مکان وہاں ہوتا ہے ، اندھیرا بھی نہیں ہوتا ،بینائی بھی درست ہوتی ہے، بس مکان نظر نہیں آتا ۔ لوگ اسی سڑک پر جس پر مکان واقع ہوتا ہے کئی بار مکان کے سامنے سے گزرتے ہیں اورتین چار گھنٹوں کی تلاش کے بعدحسبِ توفیق و ترجیح خود کویا صاحبِ خانہ کوکوستے ہوئے اپنے گھر کا راستہ لیتے ہیں۔ لہٰذا ہم نے احتیاطاً خود کو کوسنے کا منصوبہ ملتوی کرکے ایک بار پھر ڈاک سے کتاب بھیج دی۔ چند روز بعد معلوم ہوا کہ یوسفی صاحب اپنے ادبی مراقبے سے نکل کر کسی ادبی مجلس میں شرکت کرنے آرہے ہیں۔ ہم بھی جا پہنچے ۔ یوسفی صاحب کی زیارت بھی ہوگئی اور کتاب کی حوصلہ افزا رسید بھی مل گئی۔ اس مختصر سی ملاقات میں اتناہی ہوسکا کہ ان سے مزید ملاقات کے راستے کھل گئے۔
کچھ عرصے بعدہمارے ہم کار ندیم حیدر صاحب نے کہا کہ یوسفی صاحب کو ایک تقریب میں مدعو کرنا ہے۔ ہم نے کہا یوسفی صاحب تقریبات میں بہت کم جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا آپ وقت تو لیجیے۔ یوسفی صاحب سے کبھی کبھار فون پر بات ہوتی تھی اور عید پر جب بھی کارڈ بھیجا ان کا جوابی عید کارڈ ضرورآیا ۔بلکہ ایک بار ایک صاحب نے اپنے ادبی رسالے میں اِس کج بیاں کی تحریرکا موازنہ (غالباً کسی سازش کے تحت ) مشفق خواجہ اور یوسفی صاحب کی تحریرسے کرنے کی ناکام کوشش کی تھی تو ہم نے نہ صرف ان صاحب سے احتجاج کیا بلکہ دونوں حضرات سے معذرت بھی کی۔ یوسفی صاحب نے اپنے ایک جوابی عید کارڈ پر اس ضمن میں بھی کچھ سطریں لکھ بھیجی تھیں (یہ قصہ پھر کبھی سہی)۔گویا رسم و رہِ آشنائی کے ابتدائی مراحل طے ہوچکے تھے ۔لہٰذا یوسفی صاحب کو فون کرکے آنے کی اجازت چاہی۔ بہت خوش ہوئے اور مکان کا نمبر اور پتا تفصیل سے سمجھایا(انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ ڈیفنس میں مکان ڈھونڈنا کتنا مشکل ہے )۔
اب اسے یوسفی صاحب کی ہدایات کا کمال کہیے یا ہمارے شوق کا کرشمہ کہ ہم نے گاڑی سیدھی لے جاکر یوسفی صاحب کے مکان کے باہر کھڑی کردی۔ ندیم حیدر صاحب کو شبہ ہوا کہ ہم پہلے بھی یوسفی صاحب کے گھر آچکے ہیں ،کیونکہ وہ بھی ڈیفنس کے ڈسے ہوئے تھے اورانھیں ہماری صلاحیتِ رہ نمائی پر کچھ ایسا اعتماد بھی نہ تھا۔خیر صاحب، اند ر پہنچے اور کچھ دیر میں یوسفی صاحب اپنے بشاش چہرے اور خوش لباسی کی روایات کی پابندی کرتے ہوئے ملاقاتی کمرے میں داخل ہوئے اور ہم سے پوچھا:
’’آپ کو مکان تلاش کرنے میں کوئی دشواری تو نہیں ہوئی۔ ‘‘
ہم نے کہا’’ بالکل نہیں‘‘ ۔
تو برجستہ کہا ’’آپ کوئی کینہ پرور آدمی معلوم ہوتے ہیں جو سیدھے پہنچ گئے۔ ورنہ اس راہ میں آج تک کوئی بھٹکے بغیر سیدھا یہاں نہیں پہنچا‘‘۔ پھر اس ضمن میں کئی قصے سنائے کہ کس طرح لوگ بھٹکتے رہتے ہیں اور بعض حضرات کہیں سے فون کی سہولت تلاش کرکے مجھ سے پتا سمجھتے ہیں (اس زمانے میں گشتی فون عنقا تھا)۔ پھر بتایا کہ
’’ ایک صاحب نے بڑی مشکل سے کہیں سے فون کیا اور کہا کہ کئی گھنٹوں سے آپ کا گھر تلاش کررہاہوں۔ میں نے کہا کہ فلاں راستے سے آئیے، میں گھر سے باہر نکل کر کھڑا ہوں ۔وہ صاحب فوراً ہی پہنچ گئے اوربتایا کہ کئی بار آپ کے گھر کے سامنے سے گزرا۔ آخری بار تو آپ کے ملازم سے پوچھا بھی کہ یہ کس کا مکان ہے تو اس نے بتایا کہ یہاں کوئی ایس پی صاحب رہتے ہیں۔کیا آپ کا ملازم نیا ہے ، اسے یہ بھی علم نہیں کہ آپ پولیس میں نہیں ہیں۔ میںنے کہا کہ وہ نیا نہیں ہے، پٹھان ہے ، اور’ یوسفی صاحب‘ کا تلفظ اس طرح اداکرتا ہے کہ’ ایس پی صاحب‘ سنائی دیتا ہے‘‘۔
غرض اسی طرح کی پر لطف باتیں کرتے رہے اور ہم گفتار کے اس تاج محل کو دیکھتے رہے، سنتے رہے۔ ملازم لوازمات لے آیا۔ندیم حیدر مطلب پر آئے اور ان سے کسی تقریب کا کہا۔ یوسفی صاحب نے بڑے مہذب انداز میں معذرت کرلی۔ لیکن یہ معذرت وقتی ہی رہی اور ندیم حیدر نے خدا جانے یوسفی صاحب پر کیا پڑھ کر پھونکا کہ بالکل موم ہوگئے اور بعد میں ان کی سجائی ہوئی کئی تقریبات میں بھی آئے اورخلافِ معمول مضمون بھی پڑھے جو ان کی آخری کتاب’’شام ِ شعرِ یاراں‘‘ میں بھی شامل ہیں۔
یوسفی صاحب کے در پر حاضری کا ایک اور موقع اس طرح ملا کہ یارِ عزیز اجمل سراج نے کہا کہ یوسفی صاحب کا انٹر ویو کرنا ہے لیکن وہ مان نہیں رہے۔ ہم نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یوسفی صاحب نہ کسی تقریب میں جاتے ہیں اور نہ کسی کو انٹرویو دیتے ہیں۔ لیکن اجمل بضد رہے کہ وقت لے لیجیے ، اگر انٹرویو دے دیا فبہا ،ورنہ کم از کم ملاقات ہی ہوجائے گی ۔ یوسفی صاحب نے حسبِ معمول فوراً آنے کا اذن دے دیا۔ اجمل احتیاطاً ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر بھی لے آئے تھے جس کے استعمال کا موقع ہی نہ ملا۔ حالانکہ اس روز یوسفی صاحب نے ہمیں بہت وقت دیا اور بعض ایسی باتیں کیں کہ وہ ایک تہلکہ خیز انٹرویو ہوتا۔ اب یوسفی صاحب کی یادیں ہی سرمایہ ہیں چنانچہ اس انٹرویو کی چند خاص باتیں پیش ہیں۔
اس ملاقات میں اجمل نے جب یہ کہا کہ میں اپنے اخبار کے لیے آپ کا انٹرویو کرنا چاہتا ہوں تو یوسفی صاحب نے کہا کہ میں انٹرویو نہیں دیاکرتا۔ ہم انہی دنوں عمرہ کرکے آئے تھے ۔ اس زمانے میں جدہ سے ایک اردو اخبارنکلا تھا ۔اگر حافظہ دھوکا نہیں دے رہا تو اس کا نام ارد وٹائمز تھا۔ خدا جانے اب نکلتا ہے یا بند ہوگیا ، لیکن ہم نے مکہ معظمہ میں ایک اسٹور پریہ اردو اخبار دیکھا تو مارے اشتیاق کے ایک نسخہ خرید لیا اور کمال یہ ہوا کہ اس میں یوسفی صاحب کا انٹرویو بھی تھا جو ایک خاتون نے لیا تھا ۔ان خاتون کی تصویر بھی یوسفی صاحب کے ساتھ چھپی تھی اور ہمارا اندازہ تھا کہ یہ تصویر یوسفی صاحب کے ملاقاتی کمرے ہی میں لی گئی تھی۔بات تازہ تھی لہٰذا ہم نے یوسفی صاحب کی شفقت کا فائدہ اٹھا کر کہا کہ آپ خواتین کو تو انٹرویو دے دیتے ہیں۔یوسفی صاحب چونکے اور کہا کس کو انٹرویو دیا ہے ؟ ہم نے بتایا کہ ایک خاتون نے آپ کا انٹرویو لیا ہے ، آپ کو وہ خاتون یاد نہیں ؟
کہنے لگے ’’خوش شکل نہیں ہوگی، ورنہ ضرور یاد رہتی‘‘۔
ہم نے کہا کہ ان کے حسن پر تو ہم کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے لیکن جدہ کے اردو اخبار میں چھپا ہوا وہ انٹرویو اتفاقاً ہماری نظر سے بھی گزرا ہے۔ یوسفی صاحب کو جیسے کچھ یاد آگیا ۔ تاسف بھرے لہجے میں کہنے لگے کہ ہاں ایک خاتون آئی تھیں اور خود کو میری تحریروںکا پرستار ظاہر کیا ۔ اپنا پرس کھول کر بیٹھ گئیںاور کچھ باتیں کرنے لگیں ۔چلتے ہوئے اجازت چاہی کہ آپ کے ساتھ تصویر ہوجائے۔ میں نے اجازت دے دی ۔ بعد میں کسی نے مجھے اطلاع دی کہ آپ کا انٹرویو چھپا ہے۔ معلوم ہوا کہ اس کھلے پرس کے اندر وہ چلتا ہوا ٹیپ ریکارڈر لے کر آئی تھیں اور تمام گفتگو انٹرویو بنا کر شائع کردیا۔ اس طویل ملاقات کے بعد ہم گھر پہنچے اور ابھی اس ملاقات کے نشے سے سرشار تھے کہ یوسفی صاحب کا فون آگیا۔ حیرت ہوئی اور پوچھا کہ خیریت تو ہے۔ کہنے لگے ’’آپ سے یہ گزارش تھی کہ آج کی تمام گفتگو آف دا ریکارڈ تھی، اس کا کہیں حوالہ نہ دیجیے گا‘‘۔ ہم نے کہا یوسفی صاحب آپ کو یہ گمان کیوں ہونے لگا۔ کہاکہ آپ کے دوست صحافی ہیں اور انٹرویو کے متمنی بھی تھے۔ ہم نے انھیں اطمینان دلایا کہ’’ نہ تو اجمل سراج کا یہ مزاج ہے اور نہ ہم یہ حرکت کبھی کریں گے کہ آپ کی اجازت کے بغیر آپ سے منسوب کرکے کوئی بات کہیں لکھیں‘‘۔
ہم نے اس عہد کی پاس داری آج تک کی ، حالانکہ اس وقت بھی ہمارا یہ خیال تھا اور اب بھی ہے کہ اس گفتگو میں کوئی ایسی بات نہ تھی کہ کوئی ہنگامہ ہوتا، یا کسی کو ناگوار گزرتا ، سواے چند باتوں کے جن کو ہم نے یہاں بھی حذف کردیا ہے ۔ان باتوں میں سے کچھ کو یہاں لکھ کر ہم نے شاید عہد شکنی نہیںکی ہے کیونکہ غالباًیہ وہ باتیں نہیں ہیں جن کو لکھنے سے یوسفی صاحب نے منع کیا تھا اور جن باتوں سے ’’خوفِ فسادِ خلق ‘‘ تھا ان کو یہاں بھی نہیں لکھا۔
یوسفی صاحب کو کرنل محمد خان نے بجا طور پر تاج محل کہا تھا۔جب خیال آتاہے کہ اردو مزاح کا یہ تاج محل اب ہم میں نہیں رہا تو بقول ِ فیض
فسردگی ہے کہ جاں تک اترتی جاتی ہے
لیکن یہ سوچ کر اطمینان ہوتا ہے کہ وہ عالم ِ بالا میں کرنل صاحب ،ابن انشا اور مشفق خواجہ جیسے اپنے مزاح نگار دوستوں میں اپنے مخصوص دھیمے انداز میں گفتار کے تاج محل تعمیر کررہے ہوں گے۔ ممکن ہے کوئی فرشتہ ا ن کی یہ گفتگو سن لے تو کسی دن ہمیں آپ کو اس کی بے ساختہ ہنسی کی آواز بھی سنائی دے جائے اور درختوں کی تراشی ہوئی شاخوں سے کونپلیں پھوٹنے لگیں۔