عبد الخالق
ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بھی جولائی میں ہونے والے عام انتخابات کے سلسلے میں سرگرمیوں میں تیزی آرہی ہے ، گرم موسم کے باوجود رمضان المبارک کے دوران بھی اگرچہ افطار پارٹیوں اور رات گئے ہونے والے پروگرام جاری رہے تاہم کاغذات نامزدگی داخل اور جانچ پڑتال کے بعد اب انتخابی مہم میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی نظر آرہی ہے ، 2018 کی مردم شماری کے بعد بلوچستان میں اکثر حلقوں کی حلقہ بندیاں تبدیل ہوگئی ہیں ، دوسری جانب کوئٹہ کی نشستیں 6 سے بڑھاکر 9 کردی گئی ہیں تاہم صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد بدستور 51 ہی ہے جبکہ مجموعی طور پر نشستوں کی تعداد 65 ہی ہے ، اندروں صوبہ آبادی اور حلقہ بندیوں کے لئے طے شدہ فارمولا پر پورا نہ اترنے والے بعض حلقوں کو ملا کر ایک حلقہ بنادیا گیا ہے ، بلوچستان سے قومی اسمبلی کی 16 نشستوں کیلئے 435 ،صوبائی اسمبلی کے 51 حلقوں کیلئے 1400 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی الیکشن کمیشن سے حاصل و جمع کرائے گئےجبکہ صوبائی و قومی اسمبلی کی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کیلئے 208 نامزدگی فارم جاری ہوئے قومی اسمبلی میں خواتین کی 4 مخصوص نشستوں کیلئے 36، صوبائی اسمبلی میں خواتین کی 11 مخصوص نشستوں کیلئے 116 اور صوبائی اسمبلی میں اقلیتوں کی 3 مخصوص نشستوں کیلئے 56 نامزدگی فارم جمع ہوئے ، دوسری جانب گزشتہ دنوں سابق صدر آصف علی زرداری سے بلاول ہاؤس لاہور میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اخترمینگل نے ملاقات کی جس میں ملک کی سیاسی صورتحال خاص طور پر بلوچستان کے سیاسی حالات اور آئندہ انتخابات کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا ، جس کو سیاسی حلقوں میں اہمیت دی جارہی ہے ، جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمعیت علما اسلام کے درمیان ضلع خضدار میں انتخابی ایڈجسٹمنٹ کو بھی سیاسی حلقوں میں اہمیت دی جارہی ہے ، جس کے تحت ضلع خضدار کی قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر بی این پی اور صوبائی اسمبلی کی نشستون پر جمعیت علما اسلام کے امیدوار دونوں جماعت کے مشترکہ امیدوار ہوں گے ، جس کے بعد دنوں جماعتیں مستحکم پوزیشن میں آگئی ہیں ، اتحاد کی تفصیل بتاتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ قومی اسمبلی کی نشست این اے 269 ،پی بی 40 سے بی این پی کے نامزد امیدوار مشترکہ امیدوار ہونگے جبکہ پی بی 38 زہری کرخ مولہ و پی بی 39 خضدار نال سے ایم ایم اے کا امیدوار دونوں جماعتوں کا مشترکہ امیدوار ہونگے،چند ماہ قبل بننے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں صوبے کے تجربہ کار اور منجھے ہوئے سیاست دانوں کی شمولیت سے پارٹی مضبوط انتخابی پوزیشن میں آگئی ہے ، یہ جماعت دراصل مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ کے ان رہنماوں پر مشتمل ہے جنہوں نے مسلم لیگ (ن) کے سابق صوبائی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ خان زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں حصہ لیا اور عبدالقدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ منتخب کرنے میں کردار ادا کیا ، نئی جماعت میں شامل ہونے والے اکثر رہنما ماضی میں بھی اپنی نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی ہیں اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کی بہتر پوزیشن میں ہیں ، تاہم کاغذات نامزدگی کا سلسلہ مکمل ہونے کے بعد مزید سیاسی ایڈجسٹمنٹ بھی متوقع ہیں ، آئندہ عام انتخابات میں کئی سابق وزرا اعلیٰ بھی حصہ لے رہے ہیں جن میں نواب ثنا اللہ خان زہری ، سردار اختر مینگل ، جان محمد جمالی ، سابق نگران وزیراعلیٰ سردار صالح بھوتانی ، سابق اسپیکر راحیلہ حمید خان ، پشتونخوامیپ کے سابق پارلیمانی لیڈر عبدالرحیم زیارتوال ، جمعیت علما اسلام کے پارلیمانی لیڈر مولانا عبدالواسع ، ائے این پی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی ، جمعیت نظریاتی کے مولانا عبدالقادر لونی سمیت دیگر شامل ہیں، بلوچستان مین ماضی میں کوئی جماعت اتنی اکثریت حاصل نہیں کرسکی ہے کہ تنہا حکومت بنا سکے ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے اور سیاسی صورتحال کے پیش نظر یہ کہنا مشکل نہیں کہ مستقبل میں بھی صوبے میں صوبائی حکومت مخلوط ہوگئی تاہم یہ کہنا ضرور قبل از وقت ہوگا کہ مخلوط حکومت میں کون سی جماعتیں شامل ہوں لیکن انتخابی اتحاد اہم ثابت ہوسکتے ہیں ۔