• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ہمہ گیر تبدیلی تو کبھی سے ناگزیر ہو چکی۔ بدقسمتی ملک و قوم کی یہ ہوئی کہ جب ہوئی تو عشرہ جمہوریت تو نصیب نہ ہوا، بدترین جمہوریت کاایک اور عشرہ قسمت میں آیا۔ پھر کرپٹ سول منتخب حکمرانوں نے اسٹیٹس کو کو سیمنٹ لگانا شروع کردیا۔ مطلوب تغیر کو روکنے کے لئے کنکریٹ کی دیواریں کھڑی کردی گئیں۔ پی پی اور ن لیگ کی وفاق میں ایک ایک اور سندھ و پنجاب میں اقتدار کی دودو باریوں میں انتظامی اختیارات کا خلاف آئین و قانون ایسی دیدہ دلیری سے ہوا کہ گورننس بد سے بدتر ہوتی گئی۔ ایسے میں ضمیر و کردار کی خرید و فروخت کھلے عام ہوئی، سرکاری رائے ساز ناجائز کمپنیوں میں لپٹے چھپے مطلوب آئینی نظام کے متوازی نظام بد کے وکیل بن کر وفادار قرار پائے اور جمہوریت دو جماعتوں کی بھی نہیں خاندانوں کی لونڈی قرار پائی اورسرکاری اہل دانش کی جانب سے اس کی ممکنہ وکالت قانونی وکالت کے مقابل مار دھاڑ مزاج کا نیا پیشہ بن گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی تو کمپنیوںکی حکومتیں برہنگی پر اتر آئیں۔ کرپشن پر واضح مگر غیر اعلانیہ گٹھ جوڑ، پارلیمانی اپوزیشن گونگی اور فرینڈلی بھی۔ ایسے میں 10سال قبل میدان سیاست میں اترے سیاست میں ناکام اناڑی کھلاڑی کے عزم نے حوصلہ پایا، عزم باندھا۔
خان اعظم نے جو کمر کسی، اسٹیٹس کو (نظام بد) کو سونامی سے بہا لے جانے کا خواب دیکھا اور عوام کو دکھایا اوربتایا تو مطلوب تبدیلی کے حالات سازگار ہونے لگے۔ اب سرکاری خزانے کی بے دردی سے لوٹ مار کرنے والوں کا بے رحمانہ احتساب، نعرہ یا روایتی سیاسی ابلاغ ہی نہ رہا قومی ضرورت اور میڈیا کا ایجنڈا بھی بن گیا۔ پھر بھی سونامی و نامی تو کوئی نہ آیا، خان اعظم کی یقین دہانیوں کے مقابل خاندانی جمہوریت کے گرد کنکریٹ کی دیواریں چنی جارہی تھیں۔ ان ہی دیواروں اور دولت دیوتا حکومتی بتوں کی پوجا سے کرپٹ حکمرانوں کی وفا کا ساماں ہوتا رہا اور ملک اور اس کے غریب دیوالیہ۔ ’’الحمدللہ‘‘۔ حاکم امیر سے امیر تر اور اتنے امیر جس کا حساب کتاب رکھنا بھی مشکل اور دینا بھی مشکل۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس کے مقابل کمر کسے خان کی سیاست میں سرگرمی، جیسے نزول میں تبدیلی ہونے لگی۔ حالات سازگار ہوتے گئے، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم کی جگہ تیسری بڑی پارلیمانی قوت بن گئی۔ پس پشت 75لاکھ ووٹرز کا ووٹ بینک ۔ معاملہ یہیں نہیں رکا خان صاحب فرینڈلی کے مقابل پارلیمانی تو بالکل نہیں، ہاں اصلی اپوزیشن لیڈر قرار پائے، خود حکومت نے بھی یہ ہی جانا اور مانا۔ تبدیلی کو پھر بھی الیکشن 13نے بریک لگا دی۔ جو دھرنے سے آسکتی تھی خان کو وہ لانی ہی نہ آئی۔ خیر خواہوں کے مشورے نہ چلے۔ لیکن ہر صاحب ایمان کا ایمان کہ ’’نیک نیت منزل آساں‘‘۔ خان نے پھر بھی انحصار فقط نیک نیتی پر ہی نہ کیا۔ کرپشن کی مسلسل نشاندہی اور احتساب کی دہائی جاری رہی۔ ہمت مرداں کا نتیجہ مدد خدا کی صورت میں نکلا، بظاہر بے نتیجہ دھرنے کو ٹی وی پر دیکھتے دیکھتے مردوں میں شعور ہی نہیں گھریلوخواتین میں بھی ہمت آگئی، جواں پہلے ہی تھے، عورتوں کی بھاری اکثریت گھر بیٹھے ہی پی ٹی آئی کی ہوگئی، اتنی کہ 25جولائی کے انتخابی نتائج ہی بتائیں گے کہ کتنی؟ اور تو اور خان کی بے ڈھنگ پارٹی ’’خاندانی سیاسی اجارہ داری‘‘ کے مقابل جمہوری رنگ میں رنگی گئی، اتنی کہ آج شہر شہر سے بنی گالا پہنچے خان کے گھر پر دھرنا دے کر غبار نکال رہے ہیں، یہ لغو تجزیہ ہے کہ اس سے پارٹی کمزور ہورہی ہے، پاکستان میں پارٹیاں عوامی خدمات سے عوامی نہیں بنتیں، بلکہ جمہوری مزاج اور عوام سے قربت سے ،’’عوام کی خدمت‘‘ کا کوئی مکمل ماڈل تو ابھی سامنے آیا ہی نہیں، آغاز خیبرپختونخوا سے ضرور ہوا، جہاں سرکاری اسکول پھر عوام میں بااعتبار ہوگئے۔ ہاسپٹلز نیٹ ورک کی خدمت کا معیار بڑھ گیا، پولیس غیر سیاسی ہوگئی اور شجر کاری کا خالق اور خلق دوست ایجنڈا۔ جس کی عالمی سطح پر توصیف ہورہی ہے۔ سو، خدا کی رضا کے اشارے بہت واضح ہیں۔ وکلا کی قومی بنی تحریک سے پاناما لیکس تک، میڈیا اورعدلیہ میں برپا ہوئی تبدیلی اور پاناما لیکس سے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ تک یہ سب کیا ہیں؟ سو، الیکشن 13سے اسٹیٹس کو میں جو چٹخ پیدا ہوئی تھی وہ دراڑوں میںتبدیلی ہوئی اب نظام بد کی شکست و ریخت کا عمل شروع۔
ابھی سیاست پر بولنا آیا تھا نہ لکھنا نہ اسے سمجھنا تو بزرگوں سے یہ سنا تھا، پھر سنتے پڑھتے دیکھتے ہی رہے کہ لاہور سے کوئی تحریک چلے، یہاں سیاسی ہل جل ہو تو سیاست ہی نہیں پلٹتی نقشے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ برصغیر تقسیم ہو جاتا اور پاکستان بن جاتا ہے جیسے جیسے شعور پکڑا، فرسٹ ایئر میں تھےجب پہلے سیاسی احتجاج میں شریک ہوئے اور لاہور میں ایوب حکومت کے خلاف جلسے جلوس دیکھے بھی اور اس میں نعرے بھی لگائے تو کچھ جلدی ہی سیاسی ہوگئے لیکن اس کی تصدیق بچپن میں ہی ہوگئی کہ لاہور کے بدلتے تیور ہی بڑی سیاسی تبدیلی کا سبب بنتے ہیں۔
غالباً یہ اپریل تھا 1977ء تو یقینی۔ بھٹو حکومت کے کرائے گئے انتخابات میں ملک گیر اور کھلی کھلی دھاندلیوں کے خلاف کراچی، حیدرآباد اور پشاور میں احتجاجی سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ لاہور قومی اتحاد کی سرگرمیوں کا مرکز تھا،
اتحاد تشکیل بھی لاہور ہی میں پایا، جس کی مختصر خبر لیکن تمام بنیادی اور اہم حقائق کے ساتھ میں نے اپنے اخبار میں قومی اتحاد کے مسلم لیگ ہائوس میں مولانا مفتی محمود اور پروفیسر غفور کی مشترکہ پریس کانفرنس میں باقاعدہ اعلان سے ایک روز پہلے بریک کی،(ایڈیٹر جرات، محترم جمیل اطہر اور ریکارڈ گواہ ہیں۔)
علما کونسل کا جلوس بیرون کوہاری دروازے سے نکل کر رہنمائوں کی تقاریر کے لئے جلوس جب مکمل قریبی مسلم مسجد میں داخل ہوگیا تو اس پر کیل کانٹے سے لیس پولیس نے دھاوا بول دیا۔ بے تحاشا اور انتہائی بے رحمی سے تشدد کا سلسلہ شروع ہوا، میں کوئی دس بارہ فٹ کی بلندی سے گلی میں چھلانگ لگا کر خود کو بچا کر پان منڈی کے نکڑ پر آیا تو وہاں اکبر بگٹی چند بزرگ صحافیوں کے ساتھ کھڑے بڑی امید بھری نظروں سے گردن تانے مسلم مسجد کا ہنگامہ دیکھ رہے تھے۔ اور کہے جارہے تھے یہ لاہوری جاگ گئے ہیں، بس گیا شیطان (حاکم وقت)۔ دو روز قبل کراچی اور حیدرآباد کے احتجاجی کارکنوں نے مسلم لیگ ہائوس کے پتے پر چوڑیوں کا پارسل بھیجا تھا کہ سب جاگ گئے ہیں لاہوریوں نے سونا ہے تو یہ چوڑیاں بھی پہن لیں‘‘۔ پھر لاہور میں جو کچھ ہوا تو کراچی اور حیدرآباد سے فون اور خط آنے لگے، بھائیو! معاف کروہم نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ اتنا خون دو۔ نتیجہ سول حکومت کے اختیار سے ہی پہلے کراچی، حیدرآباد اور لاہور میں اور پھر ملک بھر میں مارشل لا تک گیا۔ وہ مارشل لا جس نے آج کی اسٹیٹس کو کی بڑی قوت (ن لیگ) کابیج بویا۔
شکر الحمدللہ۔ اب ملک انتخابی عمل میں ہے، نہ احتجاجی جلسے جلوس اور نہ ان پرتشدد کی ضرورت ہے۔ پھر لاہور بڑی لمبی نیند کے بعد جاگ گیا۔ کوئی چوڑیاں نہ بھیجے کہ تبدیلی کی اہم ترین اور مطلوب شکل خود ن لیگی بنا رہے ہیں، کسی بڑی بغاوت سے نہیں، لیکن سیاست پر خاندانی اجارہ داری کے خلاف اک سید زادے کے مستانہ بیانیئے سے ’’پاکستان اور لاہور حمزہ اور تمہاری باپ کی جاگیر نہیں‘‘۔ فالو اپ، وفا کے بڑے پیکر غفور چوہدری کے جاگنے سے ہوا، جنہوں نے ضعیم قادری کا نعرہ مستانیہ دہرا دیا۔ لاہور کے حلقوں میں جلوس نکل رہے ہیں، ’’ووٹ کو نہیںووٹر کو عزت دو‘‘ یہ فقیر کا تجزیاتی بیانیہ ہے جو میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کے انتخابی مہم کے بیانیے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے فقیر نے اصلاح احوال کے لئے ’’آئین نو‘‘ کے لئے تراشا۔
اب لاہور جاگ گیا۔ تبدیلی ن لیگ سے بھی نکل آئی۔ چودھری نثار تو دائرے میں ہی چودھراہٹ ایسی سیاست کرتے ہی ضمیر جاگنے کا یقین دلاتے رہے۔ دائرہ توڑ دیتے تو، ن لیگ ٹوٹ کر بھی ن لیگ ہی بنتی۔ مسلم لیگ (نثار) بہرحال لاہور کی جاگ۔ مطلوب تبدیلی کے لئے نوشتہ دیوار ہے۔ جو پڑھ سکے پڑھ لے۔ ہم نے تو بہت پہلے پڑھا بار بار پڑھا اور سمجھا۔ اب بھی یہ ہی پڑھ اور سمجھ رہے ہیں کہ تبدیلی برپا ہونے کو ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین