مجیب الرحمٰن صدیقی
ارشادِ ربانی ہے’’یہ (اہلِ ایمان) وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کا نام لیا جاتا ہے، تو اُن کے دل ڈر جاتے ہیں اور (جب) اُن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے، تو وہ صبرکرتے ہیں اور نماز آداب سے پڑھتے ہیں اور جو مال ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے،اُس میں سے (نیک کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الحج)حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جب میں اپنے بندۂ مومن کی کوئی دنیاوی محبوب چیز لے لوں اور وہ اس پر صبر کرے، تو اُس کے لیے میرے پاس جنّت کے سوا کوئی اور بدلہ نہیں ہے۔‘‘(صحیح بخاری)جس طرح خداوندِعالم نے انسان کے ہر عمل کے لیے دنیاوی جزا اور اخروی پاداش رکھی ہے، اسی طرح مصائب و آلام پر انسان کے صبر و برداشت کے لیے دنیا وآخرت میں بہترین جزا مقرر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’بہ تحقیق ہمارے بندوں کا ایک گروہ کہتا ہے: رب العالمین! ہم ایمان لائے، پس تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر، کیوں کہ تو سب سے اچھا رحم کرنے والا ہے، تم نے ان کا مذاق اڑایا، یہاں تک کہ انہوں نے تمہیں میرے ذکر سے غافل کردیا اور تم لوگ اسی طرح مذاق اڑاتے رہے، ہم نے آج ان کے صبرو استقامت کی وجہ سے انہیں جزا دی ہے،یقیناً وہ لوگ کام یاب ہیں۔ وہ لوگ جنہیں ہم نے قرآن سے پہلے آسمانی کتاب دی۔
اس پر ایمان لاتے ہیں اور جب ان پر تلاوت ہوتی ہے، تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے، یہ سب کا سب حق ہے اور ہمارے رب کی طرف سے ہے اور ہم اس سے پہلے بھی مسلمان تھے، ایسے لوگ اپنے صبر و استقامت کی بناء پردومرتبہ جزا دریافت کرتے ہیں اور نیکیوں سے بُرائیوں کو دور کرتے ہیں، جوکچھ ہم نے انہیں روزی دی ہے، اس میں سے انفاق کرتے ہیں اور جب کبھی بےہودہ اور لغو بات سنتے ہیں، تو اس سے روگردانی کرتے ہوئے کہتے ہیں ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے۔ تم پر سلام کہ ہم جاہلوں کو دوست نہیں رکھتے۔‘‘
صبر وبرداشت انسانی شخصیت کی ایسی خصوصیت ہے، جو اسے استحکام اور معنویت عطا کرتی ہے۔ یہ خصوصیت اس وقت سامنے آتی ہے، جب بندہ کسی آفت ناگہانی، جسمانی تکلیف یا زندگی کی صعوبتوں کا سامنا کرتاہے، کسی بھی ناپسندیدہ یا تکلیف دہ صورتِ حال کی بناء پر انسان جذباتی ردِعمل سے گزرتاہے اور وہ غم وغصّے کا اظہارکرتاہے، اس کا غم وغصّہ اسے اشرف المخلوقات کے درجے سے گرا کر حیوانی سطح پر لے آتا ہے اور اس حالت میں وہ کچھ بھی کر گزرتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ ۖ نے ارشادفرمایا:’’جب نامۂ اعمال کھولا جائے گا اور اعمال تولنے کے لیے میزان قائم ہوگی، تو مصیبتوں کا سامنا کرنے والے صابروں کے لیے نہ اعمال تولنے کا ترازو ہوگا اور نہ ہی ان کے اعمال نامے کھولے جائیں گے اور صابروں کو ان کے صبر کی بے حساب جزا ملے گی۔‘‘ صبر وبرداشت کی صفت کیوں کر پیداہوتی ہے؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے جذبات کا بے روک اظہار کرنے کے بجائے ان کی تادیب وتہذیب کرے اور یہ عقلی قوتوں کو کام میں لانے ہی سے ممکن ہے، یہ جان کر بھی کہ مشتعل جذبات رشتوں اور محبتوں کی تباہی کا سامان کرتے ہیں، ان پر قابو پانے کی سعی نہ کرنا نادانی ہے۔ ایک عقل مند آدمی کی پہچان یہ ہے کہ وہ ایسی تباہی سے بچنے کے لیے صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
اکثر اوقات اپنی مرضی کے خلاف بھی کام کرتاہے۔ مصیبتوں کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتا ہے، نامساعد حالات میں بھی سلامت رہتا ہے، کسی شخص کی بدتمیزی، اس کے صبر وضبط پر حاوی نہیں ہونے پاتی۔ دیکھاگیا ہے کہ لوگوں کی طرف سے زیادتیوں کے باوجود ایسے لوگ صبر، برداشت، تحمّل اوربردباری سے کام لیتے ہیں اور یوں انسانیت کی اقدار کا تحفظ کرتے ہیں۔ صبر وبرداشت کا تعلق ان اعلیٰ صفات سے ہے، جن کا حامل ہر کس و ناکس نہیں ہوا کرتا۔ یوں تو اس صفتِ حمیدہ سے متصف ہونے کا دعویٰ ہر کوئی کرتا ہے، مگر حقیقت میں اس سے آراستہ ہونا بڑے دل، گردے کا کام ہے۔
صبرو برداشت دل کی کم زوری کا نام نہیں، بلکہ دل کی انتہائی قوت، ہمّت کی بلندی، عزم کی استواری اور مشکلات ومصائب کو اللہ کے بھروسے پر خاطر میں نہ لانے کا نام ہے، اسی لیے قرآنِ پاک میں صبر وبرداشت کرنے والوں کا انعام بے حساب بتایا گیا ہے۔ ترجمہ: ’’صبر کرنے والوں کو تو ان کی مزدوری بے حساب ملے گی۔‘‘ صبروبرداشت کی تعلیم پر قرآنِ مجید میں جابجا مختلف طریقوں سے زور دیا گیا ہے اور صبر کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ حضور اکرم ﷺکو مکّی زندگی میں بالخصوص اور مدنی زندگی میں بالعموم متعدد بار آزمایشوں، تکالیف اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن آپﷺ نے ہر موقعے پر نہ صرف خود صبرو برداشت، استقامت اور عفوودرگزر کا عظیم مظاہرہ کیا، بلکہ صحابہ کرامؓ کو بھی صبروبرداشت کی تاکید و تلقین فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپﷺ کو صبر کا پیغام ملاکہ آپﷺ اضطراب وگھبراہٹ میں نہ پڑیں اوراپنا کام کرتے جائیں۔ چناں چہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (اے رسولﷺ)آپ اپنے پروردگار کے فیصلے پرثابت قدم رہ کر منتظر رہیے، کیوں کہ آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔(سورۂ طور) سورئہ یونس میں صبر کی تلقین کچھ اس طرح کی گئی ہے ’’اور ثابت قدم رہ کر منتظر رہو، یہاں تک کہ خدا فیصلہ کردے، وہ سب فیصلہ کرنے میں بہتر ہے۔‘‘ حضرت ابو امامہ ؓسے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اے فرزندِ آدم! اگر تونے صدمے میں صبر کیا اور میری رضا اور ثواب کی نیّت کی، تو میں نہیں راضی ہوں گا کہ جنّت سے کم اور اس کے سوا کوئی ثواب تجھے دیا جائے۔‘‘ (ابن ماجہ) حضرت صہیب ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’بندئہ مومن کا معاملہ عجیب ہے، اس کے ہر معاملے اور ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیرہے، اگر اسے خوشی اور راحت و آرام پہنچے، تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کےلیے خیر ہی خیر ہے، اگر اسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے، تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر بھی اس کے لیے سراسر خیر اورموجب ِبرکت ہے۔‘‘