• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ امر تقریباً یقینی ہے کہ موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرلیں گی۔ تنقید و اعتراضات کے سائے میں اس مخلوط حکومت نے اپنے پانچ برس بھی مکمل کر لئے ہیں۔ انتخابات کی راہ ہموار ہو گئی ہے اور اب عبوری حکومت کا قیام اور انتخابات کس کی زیرنگرانی ہوں گے، یہ معاملات طے پا رہے ہیں لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ انتخابات سے قبل سیاسی جماعتیں جو جمہوری سیاسی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، ان کا اور رائے دہندگان کے درمیان رابطے کا بنیادی ذریعہ کیا ہے۔ سیاسی خانوادوں، بااثر شخصیات کی انتخابی مہم دیکھتے ہوئے پینسٹھ برس کا عرصہ بیت گیا ہے لیکن اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ امیدوار اور رائے دہندگان کے درمیان رابطے کا بڑا ذریعہ انتخابی منشور ہونا چاہئے اور ایک ایسا منشور جو مسائل کو گنواتا نہ ہو بلکہ ان کا احاطہ کرتے ہوئے ایک قابل عمل حل بھی پیش کرتا ہو۔ اس ضمن میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور وہی مملکتیں فلاحی ریاست کہلاتی ہیں جو اپنے عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں صحت کے شعبے کی، جہاں عرصہ دراز سے ترقی کی باتیں کی جا رہی ہیں، عوام کی دہلیز تک علاج معالجے کی سہولت پہنچانے کے دعوے کئے جا رہے ہیں لیکن صورت حال میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ صحت کی پالیسی ترتیب دیتے وقت اسے ہمہ جہتی بنانے کے لئے ہر سطح پر پالیسیاں وضع کی جائیں۔ مثال کے طور پر وہ لوگ جنہیں علاج معالجے کی ضرورت ہے،انہیں علاج معالجہ فراہم کیاجائے۔ ساتھ ساتھ نئی نسل کوحفظان صحت کے اصولوں سے آگاہی دی جائے تاکہ وہ اپنی صحت کی خود حفاظت کریں کیونکہ احتیاط علاج سے لاکھ درجہ بہتر ہے۔
موروثی امراض ، متعدی امراض کی بیخ کنی کے لئے آگہی ایک موٴثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہوسکتی ہے، بالکل اسی طرح وہ موذی امراض جو متعدد دیگر عوارض کا باعث بنتے ہیں ( مثلاً ذیابیطس اور موٹاپا وغیرہ جو کئی امراض کو جنم دیتے ہیں) ان کی روک تھام کے لئے بھی پالیسیاں بنائی جائیں۔ اس سے صحت مند معاشرے کی تشکیل ہوگی اور علاج معالجے پر حکومت کا خرچ بھی کم ہوگا۔
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جنوبی ایشیاء کے اردگردکے ممالک تعلیم کے میدان میں ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا نظام تعلیم مختلف سطحوں پر ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہے اور وہ اس امر کو بھی مدنظر رکھتے ہیں کہ طالب علم کی کردار سازی کے ساتھ ساتھ مستقبل میں پیشوں کے اعتبار سے اس کی کھپت کے حوالے سے بھی اس کی مشاورت کی جاتی ہے اور مڈل کی سطح تک ہی اس بات کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے کہ اس نوجوان کو کس شعبے میں کام کرنا ہے اور اس کا فیصلہ کرتے وقت طالب علم کے رجحان اور ملکی ضروریات پیش نظر رکھی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ملک کا نظام تعلیم اس حوالے سے پسماندگی کی طرف جارہا ہے کہ سرکاری تعلیمی ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں بلکہ سیاسی مداخلت اور انتہا پسندانہ سوچ کے باعث تقریباً برباد ہو کر رہ گئے ہیں اور اس خلا کو نجی تعلیمی اداروں نے پُر کیا جو کہ ایک مہنگا نظام تعلیم ہے لہٰذا اس شعبے کی اصلاح کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس میں تربیت یافتہ اساتذہ کی بھرتی کی جائے۔ ان اساتذہ کی تنخواہیں اور مراعات اس معیار کی ہوں کہ انہیں کسی اور جانب دیکھنے کی ضرورت نہ پڑے، تب جا کر ہم ایک مضبوط نظام تعلیم ترتیب دینے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ یہ بات بھی مشاہدے میں ہے کہ صرف ہمارے پرائمری اورسیکنڈری اسکول ہی نہیں ملک کے کالجز بھی سیاسی کشاکش کے باعث تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں نجی یونیورسٹیوں کے قیام نے بھی دراڑیں ڈال دی ہیں اور یوں تعلیم غریب اور متوسط طبقے کے افراد کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہے۔
صحت اور تعلیم ایسے شعبے ہیں کہ جو منفعت بخش کاروبار نہیں بلکہ عوام کو سہولتیں بہم پہنچانے اور عوام کو تعلیم یافتہ اور صحت مند رکھنے کا ذریعہ ہونے چاہئیں، انہیں محض کاروبار نہ بنایاجائے۔ بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے ضمن میں تحفظ فراہم کرنا بھی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ ملک میں امن و امان کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے ۔ عدالت عظمیٰ مسلسل ان خرابیوں کی نشاندہی کر رہی ہے جو معاشرے میں موجود ہیں۔ حال ہی میں کراچی بدامنی کیس کا فیصلہ سناتے وقت عدالت نے جو ریمارکس دیئے وہ قابل توجہ ہیں۔ پولیس میں سیاسی مداخلت، مقدمات چلائے بغیر لوگوں کو قید رکھنا اور حدود سے تجاوز وہ معاملات ہیں جو معاشرے میں بدامنی کی وجوہات ہیں۔ طالبان سمیت تمام جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کا حکم عدالت عظمیٰ نے صادرکردیا ہے جس کے بعد ذرائع ابلاغ پر حکومتی نمائندے کارروائی کرنے کا عندیہ بھی دے رہے ہیں مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ لاشیں گرتی رہیں اور حکومتی اہلکار عدالتی فیصلے کا انتظار کر رہے تھے کہ فیصلہ آئے گا تو کارروائی کی جائے گی جبکہ یہ ہر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہری کو تحفظ فراہم کرے۔ امریکہ جیسے ملک میں صدر کسی سرکاری افسر کا تقرر توکر سکتا ہے لیکن وہ اسے ہٹا نہیں سکتا۔ ہٹانے کے لئے ایک طریقہ کار موجود ہے اور جس سے گزار کر ہی کسی اہلکار کو ملازمت سے برخاست کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور شہریوں کے تحفظ فراہم کرنے والے اداروں میں سیاسی مداخلت نہیں ہے۔ یہ تینوں عوامل اگر یکجا ہو جائیں تو وہ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی بہتر شکل اختیار کر تے ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام کیلئے ان سہولتوں کی فراہمی کیلئے ہر ممکن کوشش کرے اور اس میں نفع یا نقصان کی بحث نہیں کی جاتی۔ آج ملک کے طول و عرض میں انتخابات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں اور ن لیگ سندھ میں سیاسی داؤ پیچ آزما رہی ہیں۔ دوستیاں دشمنیوں میں اور دشمنیاں دوستیوں میں بدل رہی ہیں۔ اس تمام جوڑ توڑ کا مقصد بھی محض اقتدار کا حصول نہیں بلکہ ایک فلاحی ریاست کا قیام ہونا چاہئے۔ انتخابات کے دوران بحث ان نکات پر بھی ہونی چاہئے کہ دستور پاکستان میں موجود وہ سقم ختم کئے جائیں جو عام لوگوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی کی راہ میں حائل ہیں۔ ذرائع ابلاغ بھی اب ان مسائل کا حل تلاش کریں اور اکابرین سیاسی جماعت کو مجبور کیاجائے کہ وہ ایسا لائحہ عمل سامنے لائیں جو مسائل کو باضابطہ طریقے سے حل کر سکے۔ ہمارے ملک میں اب جمہوریت مستحکم ہوچکی ہے۔ ریاستی ستون آزادی کے ساتھ اپناکام انجام دے رہے ہیں۔ تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کر رہے ہیں اور وہ عدلیہ کو جوابدہ بھی ہیں اور پارلیمنٹ بھی ان کا محاسبہ کر سکتی ہے۔ ملک جمہوریت کی پٹڑی پر آچکا ہے اور اب ہمیں اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ اس کے لئے انتخابات، رائے دہندگان اور منشور کی حقیقی روح کو نافذ کرنا ہوگا۔ بحث و تمحیص کے ذریعے ملک کو مسائل سے نکالنا ہوگا۔
تازہ ترین