2018ء کے عام انتخابات انعقاد سے قبل ہی کافی متنازع ہو چکے ہیں یہ کوئی بڑی فلسفیانہ یا دانشمندانہ بات نہیں ہے بلکہ عام فہم والا شہری بھی اس سے بخوبی آگاہ ہے۔ جس طرح کے الیکشن ہونے جا رہے ہیں ان سے نہ تو ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور نہ ہی خوشحالی بلکہ اس سے صرف اور صرف افراتفری ، بے چینی اور عدم استحکام پیدا ہوگا تاہم فیصلہ کرنے والے طاقتور حضرات کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے کیونکہ ان کے سامنے تو صرف ایک ہی عظیم مقصد ہے کہ ایک مقبول ترین سیاسی پارٹی کو دیوار کے ساتھ لگا کر اسے ہرایا جائے اور کچھ دوسری پارٹیوں کو جتوایا جائے۔ اس مشن کی تکمیل کیلئے پلینگ فیلڈ کو مکمل طور پر نا ہموار کر دیا گیا ہے۔ میڈیا جس گھٹن کا شکار ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جس کا مقصد بھی الیکشن میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا ہے۔ میڈیا کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا اظہار پاکستان میں تو ڈر اور خوف کی وجہ سے کم ہو رہا ہے مگر انٹرنیشنل سرکٹ میں اس کا بار بار تذکرہ ہو رہا ہے جس سے یقیناً ملک بدنام ہو رہا ہے کہ جمہوریت نام کی چیز پاکستان میں ہوتے ہوئے بھی کیسے حالات پیدا کر دئیے گئے ہیں۔ مین اسٹریم میڈیا کو تو سائیلنٹ کر دیا گیا ہے مگر سوشل میڈیا جس کا اپنا اثر ہے پر تمام معاملات اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں کا کھل کر چرچا کیا جا رہا ہے۔ اگر ایک لمحہ کیلئے ہم یہ فیصلہ کر لیں کہ انتقامی کارروائیوں کا جو طوفان برپا ہے کو روک لیں اور انتخابات قانون اور آئین کی روح کے مطابق منصفانہ ہو جائیں تو کوئی انہونی نہیں ہو جائے گی۔ جب ہم دو تہائی اکثریت لینے والے وزیراعظم کو اقتدار سے مکھن سے بال کی طرح باہر پھینک سکتے ہیں تو پھر کیا ڈر ہے کہ سب سے پاپولر جماعت اپنی پبلک اسٹینڈنگ اور تمام قومی اور بین الاقوامی سروے کے مطابق الیکشن میں اکثریت حاصل کرلے۔ جس طرح کی غیر اعلانیہ سنسرشپ میڈیا پر ٹھونس دی گئی ہے اس سے تو بہتر مارشل لا کا دور تھا جب اعلانیہ سنسر شپ موجود تھی۔ اس وقت پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا بے مثال پریشر میں ہے۔
ریاستی اداروںکی طرف سے الیکشن کو جانبدارانہ رنگ دیا جارہا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تمام صوبوں میں پچھلے دس سال کے دوران پنجاب ہر لحاظ سے نمبر ون تھا جہاں کرپشن سب سے کم ہوئی اور جہاں ترقیاتی کام بے مثال ہوئے مگر نیب کی کارروائیوں سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ اس دور میں پنجاب میں سب سے زیادہ کرپشن ہوئی۔ اس صوبے میں جتنی اچھی حکمرانی شہبازشریف نے کی باقی صوبوں کے لوگوں کی یہ خواہش رہی ہے کہ ان کے ہاں بھی کوئی ایسا ہی وزیر اعلیٰ آجائے۔ نون لیگ بڑا ہا ہو مچا رہی ہے کہ نیب اس کے امیدواروں کے خلاف انتہائی امتیازی اور بے جا کارروائیاں کر رہی ہے جن کا مقصد صرف اور صرف الیکشن پر اثر انداز ہونا ہے مگر نیب ٹس سے مس نہیں ہو رہی ۔ عام طور پرہم سمجھتے تھے کہ جاوید اقبال ایک اچھے اور متوازن منصف ہیں اس لئے سب حیران ہیں۔ اس کارروائی کو ان کے مخالف سابق وزیر داخلہ چوہدری علی خان نے بھی رد کیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سے الیکشن متنازع ہو جائے گا۔ یقیناً اس کارروائی کا مقصد قمرالاسلام کو ہروانا ہے مگر جس طرح ان کے دو معصوم بچوں نے ان کی الیکشن کمپین شروع کر دی ہے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ مشن بھی ناکام ہوگا۔ پاکستان کے لوگوں کا مزاج بڑا واضح ہے وہ ہمیشہ اس جماعت کے ساتھ ہمدردی کرتے ہیں اور اسے ووٹ بھی دیتے ہیں جس کے خلاف مختلف ادارے جنگ کر رہے ہوں۔ پیپلزپارٹی کی مثال موجود ہے۔ جب بھی اسے مارشل لا کے دوران دبانے کی کوشش کی گئی وہ الیکشن جیتتی رہی۔ قائد نون لیگ اور معزول وزیراعظم نوازشریف نے جو بیانیہ 28 جولائی 2017ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پروجیکٹ کیا ہے اس نے ان کے مخالفین کے تمام اندازے ہوا میں اڑا دئیے ہیں۔ آخری خوش فہمی یہ تھی کہ جب 31 مئی کو نون لیگ کی حکومت ہو گی تو یہ تتر بتر ہو جائے گی مگر سب نے دیکھ لیا ہے کہ حکومت ختم ہوئے ایک ماہ ہوگیا ہے اور پارٹی ان ٹیکٹ ہے۔ اس کی ٹکٹوں کی تقسیم پر غور کریں تو کوئی شک و شبہ نہیں رہتا کہ اس کی ہارڈ کور اپنی جگہ سے نہیں ہلی اور آج بھی وہ اس پوزیشن میں ہے کہ 25 جولائی کو ہونے والے الیکشن میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی۔
ایک طرف نوازشریف اور ان کی جماعت کے امیدوار انتقامی چکی میں پسے جارہے ہیں اور ان کیلئے پلینگ فیلڈ کو پہاڑی علاقہ بنا دیا گیا ہے تو دوسری طرف لاڈلوں کی حالت دیکھیں کہ ان پر کیسی کیسی نوازشات ہو رہی ہیں۔’’الیکٹ ایبلز‘‘ کی ایک بہت بڑی فوج کو پی ٹی آئی میں دھکیل دیا گیا ہے جس نے اس جماعت کا جو کچھ بھی تشخص تھا اس کو ملیا میٹ کر دیا ہے اور ہر طرف لوٹے ہی لوٹے نظر آرہے ہیں۔ تاہم گزشتہ کئی عام انتخابات کا تجزیہ کرنے والے ایکسپرٹس کی رائے ہے کہ جس طرح کی انتہائی سیاسی پولرائزیشن اور عوام میں شعور موجود ہے الیکٹ ایبلز کا مستقبل کافی مخدوش لگ رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اب رائے دہندگان جماعتوں کو ووٹ دینے کو ترجیح دیتے ہیں نہ کہ افراد کو۔ تحریک انصاف میں اتنی زیادہ ’’پھوک‘‘ بھر دی گئی ہے کہ عمران خان اب اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھنے لگے ہیں۔ اس پارٹی کیلئے ایسی مثالی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے جو شاید ہی کسی جماعت کو کبھی میسر کی گئی ہو مگر اس کے باوجود بھی کوئی نہیں کہہ رہا اور نہ ہی کوئی پول ظاہر کر رہا ہے کہ تحریک انصاف انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آسکتی ہے۔ عمران خان تو سب سے بڑے لاڈلے ہیں مگر ایک چھوٹا لاڈلہ بھی موجود ہے جو پیپلزپارٹی ہے مگر اس جماعت کی حالت خصوصاً پنجاب میں اتنی ناگفتہ بہ ہے کہ اگر یہ کوئی دو چار سیٹیں بھی جیت گئی تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا۔ اس بیچاری کو تو امیدوار ڈھونڈنے میں بھی بڑی مشکلات کا سامنا رہا ہے اور جو لاٹ ملی بھی ہے وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے خیال میں پیپلزپارٹی 2018ء کے الیکشن میں بھی وہیں کھڑی ہے جہاں وہ 2013ء کے انتخابات میں تھی جب اسے بہت بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نیب نون لیگ کے خلاف تو کروسیڈ کر رہا ہے مگر جو کچھ سندھ میں پیپلزپارٹی کرتی رہی ہے اس کے بارے میں اس ادارے نے آنکھوں پر پٹی باندھ لی ہے اور جو بھی کرپشن کے مقدمات بنے ہوئے تھے کو یا تو ختم کر دیا گیا ہے یا ختم کیا جارہا ہے۔