• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں آج بھی دریائے سندھ پر سندھ کا موقف بیان کرنا چاہتا تھا مگر کبھی کبھار اچانک ایسے ایشوز سامنے آجاتے ہیں کہ ا ن کو نظر انداز کرنا مشکل ہوجاتا ہے لہذا فی الحال ان کالموں کا سلسلہ روک کر موجودہ عنوان پر کالم لکھ رہا ہوں۔میرے خیال میں پاکستان کے پسے ہوئے نچلے طبقے کے عوام پر الیکشن کمیشن کا یہ ایک بڑا احسان ہے جسے پاکستان کے عوام کبھی بھی نہیں بھول سکتے ۔ الیکشن کمیشن نے یہ سوالنامہ جس کے جواب میں سارے ملک سے اتنے لکھ پتیوں‘ کروڑ پتیوں‘ا رب پتیوں اور کھرب پتیوں کی تفصیل ظاہر ہوئی‘ پاکستان کے چیف جسٹس کی ہدایات پر امیدواروں کے دیگر کاغذات کے ساتھ شامل کیاتھا ‘ مجھے اجازت دیں کہ میں یہ دعویٰ کروں کہ پاکستان کے تقریباً 70 سال کے دوران ایسا چیف جسٹس نہیں ملا بلکہ میرا خیال ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے ایک اور سوالنامہ بھی ان کاغذات کے ساتھ شامل کرنے کی ہدایت کی تھی کہ انہوں نے قومی یا صوبائی اسمبلی کے ممبران یا سینیٹر ہوتے ہوئے اپنے حلقے میں کیا کیا اصلاحات کرائیں۔ میرے خیال میں ان کاغذات میں ایک یہ بھی سوالنامہ شامل کیا جائے کہ انہوں نے اسمبلی ممبر کی حیثیت میں حکومت کی طرف سے اپنے اپنے حلقے میں کیا کام کرائے ہیں اس کی بھی تفصیل دی جائے‘ بہرحال پہلے سوالنامہ کے جواب میں جو تفصیلات سامنے آئی ہیں انہوں نے اپنے ملک کے عوام کی تو آنکھیں کھول دیں مگر دنیا بھر کے لوگوں کی بھی آنکھیں کھل گئی ہوں گی کہ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر کیا کھلواڑ کیا جاتا رہا ہے کیا یہ کم حیران کن نہیں کہ جو لوگ اب تک کئی بار اسمبلیوں کے ممبر منتخب ہوتے رہے ہیں اور اب پھر کاغذات نامزدگی داخل کیے تو ان کی طرف سے ظاہر کی گئی دولت اور املاک کی تفصیلات پڑھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد سینکڑوں تو کیا ہزاروں میں ہے جو نہ فقط لکھ پتی ‘ کروڑ پتی ‘ ارب پتی بلکہ کھرب پتی بھی ہیں‘ بڑے دکھ کی بات ہے کہ یہ سارے لکھ پتی‘ کروڑ پتی‘ ارب پتی اور کھرب پتی پہلے دن سے پاکستان کے حکمران رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے نچلے طبقے اور پسے ہوئے لوگوں کی خوشحالی کے لئے کچھ نہیں کیا گیا‘ کیا قائد اعظم نے ایسے پاکستان کا خواب دکھایا تھا اگر اس ساری صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچنا پڑتا ہے کہ یہ مارشل لائوں کا پاکستان کے عوام کے لئے تحفہ تھا۔ اس وقت کے آمروں نے جو امریکی سامراج کی ہدایات پر یہ پالیسیاں اختیار کیں انہوں نے پاکستان کی یہ حالت کی‘ ان آمروں نے حکمران طبقوں کو چنا اور انہیں صنعتیں اور زمینیں عطا کیں تاکہ وہ جب الیکشن کے لئے میدان میں اتریں تو ان کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہ ہو لہذا ان مارشل لائوں کے بعد جو جمہوریت آئی وہ ہمارے سامنے ہے‘ کیا کوئی اس بات سے انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان بھر کے نچلے اور متوسط طبقے ان لکھ پتی‘ کروڑ پتی‘ ارب پتی اور کھرب پتی حکمرانوں کے عملی طور پر غلام بن گئے ہیں‘ کیا ایسی جمہوریت کو ہم حقیقی جمہوریت کہہ سکتے ہیں‘ یہ تو حقیقی جمہوریت نہیں مگر نقلی جمہوریت ہے‘ تو کیا ہم اس کے بعد بھی اس نقلی جمہوریت کو قبول کرسکتے ہیں اور کیا ہم اب بھی ان لکھ پتی‘ کروڑ پتی‘ ارب پتی اور کھرب پتیوں کی حکمرانی قبول کریں‘ جب میں یہ بات کررہا ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کچھ حلقے یہ رائے قائم کریں کہ میں جمہوریت نہیں چاہتا نہیں جناب جمہوریت ہمارا ایمان ہے‘ جمہوریت کے لئے پاکستان کے بھوکے عوام کو اٹھنا پڑے گا مگر وہ نقلی جمہوریت نہیں حقیقی جمہوریت ہونی چاہئے‘ میں اس بات کی بھی وضاحت کرتا چلوں کہ ’’حقیقی جمہوریت‘‘ سے میری مراد حقیقی عوامی جمہوریت ہے‘ اس جمہوریت میں ارب پتی اور کھرب پتی استحصالیوں کی چوہدراہٹ نہیں پاکستان بھر کے نچلے اور پسے ہوئے طبقوں کی بالادستی ہونی چاہئے‘ مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ ہماری نظر میں پاکستان حقیقی پاکستان تب بنے گا جب پاکستان میں عوامی جمہوریت اور حقیقی وفاق کا نظام آئے گا‘ اس وقت جس نظام کو وفاق کہا جارہا ہے وہ وفاق نہیں وہ آج بھی Unitary Form of Government ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ون یونٹ ختم ہوگیا ہے مگر ایسا نہیں‘ لوگوں کو ون یونٹ نظر نہیں آتا مگر سارے اختیارات کس کے پاس ہیں‘ مجھے حقیقی وفاق کے موضوع پر ایک الگ کالم لکھنا ہے‘ اسی طرح میں عوامی جمہوریت کے بارے میں بھی ایک الگ کالم لکھوں گا اور دونوں نظاموں کے بارے میں اپنے خیالات تفصیل سے پیش کروں گا۔ فی الحال آج کے کالم میں ارب اور کھرب پتی استحصالیوں سے جان چھڑانے کے بارے میں اپنے خیالات پیش کرتا ہوں۔ میں اکثر یہ سوال کرتا ہوں کہ ملک میں اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں وہ ان ارب پتی اور کھرب پتی استحصالیوں کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے نہیں ہوئے تو پھر کیا کہا جائے کہ ملک میں حقیقی عوامی جمہوریت قائم ہے۔ اس سلسلے میں مجھے اور جو کچھ کہنا ہے وہ لکھنے سے پہلے میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلائوں گا کہ اسمبلیوں کے امیدواروں کے جو کاغذات اور سرٹیفکیٹ جمع ہوئے ہیں ان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان ارب پتیوں اور کھرب پتیوں کی بڑی تعدادکئی بینکوں کے اربوں کی مقروض ہے اور ان میں سے کئی نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے ان قرضوں کا بڑا حصہ معاف کرایا ہے‘ یہ قرضے کیسے معاف ہوئے یا یہ استحصالی ارب پتی اور کھرب پتی کیسے بنے‘ اس سلسلے میں تحقیقات ہونی چاہئے۔ اس سلسلے میں ہم قابل قدر چیف جسٹس سے درخواست کریں گے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی اعلیٰ سطح کا عدالتی تحقیقاتی کمیشن بنائیں حالانکہ ہم انتخابات ملتوی ہونے کے حق میں نہیں ہیں مگر یہ موقف اختیار کرنا پڑتا ہے کہ اس تحقیقات کے نتائج کے آنے تک اگر انتخابات ملتوی ہوتے ہیں تو اسے تسلیم کیا جائے‘ اب جہاں تک اس استحصالی نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کے مقصد کے حصول کی بات ہے تو اس سلسلے میں عوام کو خود اٹھنا پڑے گا مگر خوشی کی بات ہے کہ ان استحصالیوں اور افسر شاہی میں ان کے ایجنٹوں نے اتنی کرپشن کی اور عوام اور ملکی خزانے کو اتنا لوٹا کہ مختلف علاقوں سے آنے والی اطلاعات کے مطابق نچلے اور پسے ہوئے ان طبقوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں‘ خوشی کی بات ہے کہ اس سلسلے میں پہل پنجاب نے کی ہے جہاں کے مختلف علاقوں کے عام لوگوں نے بڑے بڑے جاگیر داروں اور لکھ پتیوں کی پگڑیاں اچھالی ہیں‘ اس مرحلے پر سندھ بھی خاموش نہیں رہ سکا‘ سندھ بھی اٹھ کر کھڑا ہوتا نظر آتا ہے یہاں نہ فقط عام لوگوں نے کئی مصنوعی ’’چٹانوں‘‘ کے مقابلے میں فارم بھرے ہیں بلکہ ان ساری پارٹیوں میں سب سے اہم یہ ہے کہ اکثر میں اندر سے بغاوت پھوٹ پڑی ہے‘ باقی ایک آدھ ایسی پارٹی بھی ہے جو پیرون اور میروں کے سہارے آگے بڑھ رہی ہے مگر عوام ان کا بھی کیا حشر کریں گے سب کو معلوم ہوجائے گا۔

تازہ ترین