• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی تو حقِ رائے دہی کا سورج طلوع ہوگا اور کبھی تو شبِ تاریک ختم ہوگی۔ بس اسی انتظار میں دہائیاں بیت گئیں۔ وہ کونسا انتخاب ہے جو پاکستان میں متنازعہ نہ ہوا ہو؟ یہاں تک کہ ٹریڈ یونینز اور پیشہ ور تنظیموں کے انتخابات بھی اس غیرجمہوری کلچر کی نذر ہو جاتے ہیں۔ حقِ رائے دہی اور اس کےآزادانہ اظہار بنا تو پاکستان بھی وجود میں نہ آتا، کجا یہ کہ سلامت رہتا۔ حقِ بالغ رائے دہی ملا بھی تو 1968ء کی عوامی تحریک کے ثمر کے طور پر اور جب پہلی اور آخری بار 1970ء میں آزادانہ و منصفانہ انتخابات ہوئے بھی تو عوام کی منشا کو کچلنے کا تلخ انجام ہم پاکستان کے دو لخت ہونے کے سانحہ کی صورت دیکھ چکے اور یہ عوام کی منشا ہی تھی جس نے 1973ء کے متفقہ آئین کی صورت میں وفاقی اکائیوں اور ریاست اور عوام کو ایک عمرانی معاہدے میں باہم مربوط کر دیا۔ لیکن یہ عمرانی معاہدہ اور آئین بھی ایک بار نہیں تین بار توڑا گیا اور ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت اس کا حلیہ بگاڑنے کیلئے کیا کیا ترامیم و تصحیحات نہیں کی گئیں اور یہ سلسلہ ختم ہونے کو نہیں۔ برطانوی سامراج سے حقِ رائے دہی کے استعمال سے جو آزادی ملی بھی وہ تقریباً تمام (شاید ایک کے سوا) انتخابات اور ادوارِ حکومت میں گہنائی گئی۔ کونسا انتخاب ہے کہ جس پر انگلی نہیں اُٹھائی گئی۔ سیاست دانوں پر پابندیاں لگتی رہیں، پارٹیاں ٹوٹتی، بنتی اور اغوا ہوتی رہیں۔ جھرلو پھرتے رہے۔ بنیادی جمہوریتوں سے لیکر غیرپارٹی انتخابات تک اور سیاسی انجینئرنگ سے انتخابات کے التوا تک اور نظریۂ ضرورت کے تحت آئین سے ماورا آمرانہ حکومتوں کے سلسلے تھے کہ ختم نہ ہوئے۔ تلخ اور تباہ کن نتائج کے باوجود چال وہی بے ڈھنگی۔ مسئلہ صرف ایک ہے کہ مملکتِ خداداد میں حقِ حاکمیت یا اقتدارِ اعلیٰ کس کے پاس ہو۔ اقتدارِ اعلیٰ کے مالک وفاقِ پاکستان کے عوام ہوں یا پھر نوآبادیاتی نوکرشاہی ورثہ۔ بعض اوقات سوچتا ہوں کہ آخر مظلوم کشمیریوں کے حقِ استصوابِ رائے اور پاکستان کے عوام کے حقِ رائے دہی میں صفتی فرق کیا ہے؟ وہ آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہم آزاد ہو کر بھی اپنے مقدر کا تعین کرنے میں آزاد نہیں۔
اس بار تو ایسے لگتا ہے جیسے اک آفت ہے کہ ٹوٹ پڑے گی، اگر نااہل قرار دیئے گئے وزیراعظم کی جماعت پی ایم ایل این پھر انتخابات جیت گئی۔ اور کونسا حربہ ہے کہ جو استعمال نہیں ہو رہا۔ احتساب ہے تو زیادہ تر مسلم لیگیوں کا، نااہلی ہے تو ان کی، لوٹوں کی بغاوت ہے تو مسلم لیگ ن میں۔ پوری کی پوری صوبائی پارٹی کا بلوچستان میں اغوا ہے تو اسی پارٹی کا، ن کے لاحقے والی مسلم لیگ کی صدارت سے نواز کی برخاستگی سے لے کر اب الیکشن کمیشن میں ن کے لاحقے کو نااہل قرار دلوانے اور عدالتِ عالیہ میں نواز شریف کے مبینہ طور پر ملکی سلامتی سے غداری کے مرتکب انٹرویو اور سابق وزیراعظم عباسی کے سلامتی کے اجلاس کی خفیہ کارروائی ’’غدار‘‘ نواز شریف سے شیئر کرنے کی بنیاد پر دونوں سابق وزرائے اعظم کو طلب بھی کر لیا گیا ہے اور آئین سے غداری کی دفعہ 6 کا مقدمہ غور طلب ہے۔ لگتا ہے کہ نااہلیوں اور رسوائیوں کا طوفان تب تک تھمنے والا نہیں، جب تک پی ایم ایل این کا 25 جولائی سے پہلے پہلے بھرکس نہ نکال دیا جائے۔ پھر بھی ضرورت پڑی تو ’’مثبت نتائج‘‘ کیلئے جھرلو کے استعمال میں کیا مضائقہ! لیکن یہ جو سب کچھ ہو رہا ہے، وہ ایک بار پھر اس ملک میں آزادانہ و منصفانہ انتخابات کو متنازعہ بنا رہا ہے اور عوام کے حقِ رائے دہی کی پھر سے مٹی پلید کرنے کا بندوبست جاری ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کارِ خیر میں کون کون سی نہایت قابلِ احترام مقدس ہستی ہے کہ اپنا اپنا حصہ نہیں ڈال رہی؟
بھئی آخر نواز شریف نے ایسا کونسا انقلابی کام کیا تھا جو ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو بدل دے؟ اُن کے پاس ایسا کونسا تیر ہے جس سے مملکت گھائل ہو سکتی ہے، یا جو تیر وہ پہلے چلا نہیں پائے تھے، جو اَب چلا پائیں گے۔ بدقسمتی سے عوام کی حقیقی نجات اور مقتدر آزادی کی حامل کوئی جماعت بڑے انتخابی معرکے میں سرے سے ہے ہی نہیں۔ گنتی کے چند سو خاندانوں (جاگیردار، مالدار، سردار اور نام نہاد محفوظ حلقوں والے) نے پورے سیاسی و انتخابی عمل کو اپنا یرغمال بنا رکھا ہے۔ پرسوں پیپلز پارٹی میں تھے، کل مسلم لیگ ’’ن‘‘ یا ’’ق‘‘ میں تھے اور آج ’’تبدیلی‘‘ لانے کی دعویدار پارٹی کو اسٹیٹس کو کی بڑی جماعت میں بدل چکے ہیں۔ انتخابات اب کروڑوں اور اربوں روپے کا کھیل ہے اور اس میں 95فیصد آبادی محض تماش بین بن کے رہ گئی ہے۔ ذرا اُمیدواروں اور رہنماؤں کے اثاثوں پہ تو غور کریں، بڑی پارٹیوں کے 90 فیصد اُمیدوار کروڑپتی ہیں یا زمینوں، جائیدادوں والے ہیں۔ اوران میں سے 60 فیصد ٹیکس بھی نہیں دیتے۔ بھلا مفت خور اُمرأ نے عوام کی کیا خدمت کرنی ہے، سوائے اس کے کہ گلے سڑے نظام میں اپنا کالا دھندہ جاری رکھیں۔ یہی وہ مفت خور امرأ، لٹیروں، وڈیروں کا استحصالی گروہ ہے جس نے سیاست کو بیچا بھی اور بدنام بھی کیا اور عوام کے مینڈیٹ سے بار بار غداری کی۔ ان کے باعث جمہوری کلچر فروغ پایا نہ جمہوریہ آگے بڑھی۔ ایسے میں جدید نوآبادیاتی مقتدرہ کو کون آئینی شکنجے میں باندھ سکتا ہے اور عوام کی خوشحالی اور قومی توانائی کے دروازے کھول سکتا ہے۔
اس غل غپاڑے میں اگر کوئی روشنی کی کرن ہے تو وہ یہ کہ عوام لوٹوں، وڈیروں، لٹیروں اور خدمت نہ کرنے والے نمائندوں اور اُمیدواروں سے سوالات پوچھ رہے ہیں، ان کا گریبان پکڑ رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر اس کی دھوم مچی ہے۔ یہ انتخاب فقط حلقوں اورحلقے کے جمعداروں کا نہیں رہا۔ لوٹوں اور حلقوں سے غیرحاضر رہنے والوں کی شامت اور ملکی سیاست میں ایک نئی زقند کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان کا تبدیلی اورا سٹیٹس کو کو بدلنے کا بیانیہ لوٹوں اور ابن الوقتوں کی تحریکِ انصاف میں شمولیت سے اپنا اخلاقی جواز کھو چکا ہے۔ پیپلز پارٹی ہونہار بلاول بھٹو کے عوامی نعرے ’’روٹی، کپڑا اور مکان، علم و صحت، سب کو کام، ہم سب کا پاکستان‘‘ کے باوجود اپنی بُری کاکردگی کے ہاتھوں کوئی بڑا معرکہ سر کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ رہی مسلم لیگ نواز تو اس کا کلہ پنجاب میں ہلا تو ہے، اُکھڑا ابھی نہیں۔ نواز شریف کا بیانیہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ وہی سوال اُٹھا رہا ہے جو میں نے اس مضمون کے شروع میں اُٹھایا تھا کہ پاکستان میں اقتدارِ اعلیٰ کا مالک کون؟ عوام یا مقتدرہ!! لیکن مسلم لیگی کاٹھ کے شیر ہیں، پاکستان میں اقتدار کی کایا پلٹ کا انقلابی کام اُن کے بس کا نہیں۔ اب نواز شریف کب واپس آتے ہیں، کتنا متحرک رہ سکتے رہیں اور اپنے بیانیے کو کتنا صاف صاف بیان کر سکتے ہیں اور پنجاب کو کتنا کھڑا کر سکتے ہیں؟ یہ سب اُن کے مستقبل اور اگلے انتخابات کی سیاسی نوعیت کو معین کرے گا۔ پنجاب میں چھائے بِنا اُن کا بیانیہ ٹھوس روپ دھارنے والا نہیں اور شہباز شریف اگر وزیراعظم بن بھی جاتے ہیں تو اُسی تنخواہ پرگزارا کرنے پہ راضی ہوں گے جس پر کام کرنے سے نواز شریف نے انکار کیا تھا۔
بھلے عمران خان بابا فرید شکر گنج کی دہلیز کو کتنا ہی چوما کریں، اُن کی اخلاقی ہوا نکل چکی ہے۔ گناہ گاروں کی بارات کو جو وہ ساتھ لیکر چلے ہیں صوفی بزرگ سے اُنکو مکتی ملنے والی نہیں۔ شاید وہ یہ بھی بھول رہے ہیں کہ کوئی پاپولر پرائم منسٹر موجودہ اقتدار کے ڈھانچے میں نہیں چل سکتا۔ وہ یقیناًپہلے سے زیادہ نشستیں لے سکتے ہیں، لیکن اتنی نہیں کہ خود سے وزیراعظم بن سکیں۔
ایک ممکنہ معلق پارلیمنٹ میں کوئی بھی وزیراعظم بن سکتا ہے، شاید وہ نہیں! اور اگر بنے بھی تو انہیں جانے کس کس کی کٹھ پتلی بننا پڑے گا جو اُن کے مزاج کے مطابق نہیں۔ مسلم لیگ پہلے جتنی نشستیں حاصل کرتی نہیں دِکھتی، لیکن یہ کسی سانحہ کا شکار ہوتی بھی نظر نہیں آتی خواہ کوئی کتنے ہی پاپڑ بیلے۔ پنجاب کی یہ پھر بھی بڑی ہی پارٹی رہے گی۔ پیپلز پارٹی بھی کھیل میں رہے گی اور اس کے پاس پہلے سے زیادہ نشستیں ہو سکتی ہیں اور ایک زرداری سب پر بھاری ڈارک ہارس ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ طائرانہ جائزہ محض قیاس آرائی ہے۔ اگر کوئی لہر چل پڑی اور وہ بھی عوامی اور مقتدرہ کے خلاف، دیکھئے پھر کیا ہوتا ہے؟
نواز شریف کی مشرقی بنگال کی مثال البتہ درست نہیں۔ یہ پنجاب ہے، پاکستان کی سب سے مقتدر اکائی اور وہ اس کے ایک مضبوط لیڈر۔ پھر وفاقی اکائیوں کے نمائندے مل کر شاید پاکستان میں جمہوری استحکام کا راستہ نکال سکیں۔ لیکن وہ دن ابھی بہت دور لگتا ہے۔ انتخابات کا غُل مچا ہے اور میڈیا کو سنسر کا سانپ سونگھ گیا ہے۔ آزادئ اظہار اور اختلافِ رائے مشکل ہوا جاتا ہے۔ وہ مارتے بھی ہیں تو بول نہیں سکتے۔ عجب سراسیمگی ہے۔ ایسے میں جب انتخابات میں اظہارِ رائے کا طوطی بج رہا ہوگا، میڈیا کیا تیل بیچے گا؟ خدا جانے! جب تک انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوتے، عوام کے حقِ رائے دہی کا احترام نہیں ہوتا اور اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل نہیں ہوتا، تب تک انتخابات اشک شوئی کے سوا کچھ نہیں دے سکتے۔ کاش! کبھی اسٹیٹس کو ٹوٹے اور عوام اور اُن کے حقیقی نمائندے جمہوریہ کو عوامی بنا سکیں! کبھی تو حقِ رائے دہی کا سورج طلوع ہوگا اور کبھی تو شبِ تاریک ختم ہوگی۔ بقول فیض
کب جان لہو ہوگی کب اشک گہر ہوگا
کس دن تری شنوائی اے دیدۂ تر ہوگی
کب مہکے گی فصلِ گل، کب بہکے گا مے خانہ
کب صبح سخن ہوگی، کب شام نظر ہوگی
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین