معاون:اختر سعیدی
رپورٹ:طلعت عمران
عکّاسی:اسرائیل انصاری
یوسفی صاحب نے اردو طنز و مزاح کو اس معیار پر پہنچا دیا کہ اب اس سے آگے بڑھنا بہت مشکل ہے،وہ باقاعدگی سے انگریزی لٹریچر اور ادبی مضامین کا مطالعہ کیا کرتے تھے، ایک ہی جملے میں کئی مرتبہ ترمیم کرتے تھے، اب ہمارے کئی مزاح نگار پرانے مزاح نگاروں اور انگریزی تحریروں کی نقل کرنے لگے ہیں اور ان کی تحریروں میں اوچھا پن یا ولگیریٹی بھی آ گئی ہے،
آج کل زبان کا معیار بھی کافی گر گیا ہے، جبکہ مزاح کا تعلق ہی خالصتاً زبان سے ہے مزاح نگاری میں ناکامی کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں اور اسی لیے بہت سارے لکھاری مزاح نہیں لکھتے،مزاح کو نبھانا بہت مشکل ہوتا ہے، بسیار نویسی بھی شاعر کی طرح مزاح نگار کے لیے سمِ قاتل ہے، یوسفی صاحب نے صرف چار کتابیں لکھیں، یعنی آدمی کم لکھے، لیکن اچھا اور معیاری لکھے، آج شاعری میں محبوبہ اور نثر میں منکوحہ مزاح پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے
ڈاکٹر رؤف پاریکھ
انیسویں صدی اکبر الہ آبادی کی صدی تھی اور بیسویں صدی بلامبالغہ مزاح کے حوالے سے یوسفی صاحب کی صدی تھی، یوسفی صاحب مزاح کا ایک ایسا معیار قائم کر گئے کہ اسی کی روشنی میں آگے سفر طے کیا جائے گا، یوسفی صاحب کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے اپنی ذہنی سطح کو بلند کرنا ہو گا،یوسفی صاحب کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ مغربی لٹریچر کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے اور اس کی جھلکیاں ان کی تحریر میں بھی نظر آتی ہیں،
لیکن اب مطالعے کا رجحان ختم ہو گیا ہے، اب آگے ایک بلیک اسپاٹ ہے اور ایسا کوئی فرد نظر نہیں آتا کہ جو ان کی جگہ لے سکے،مزاح لکھتے وقت ادب اور شائستگی کا پہلو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے، مزاح بھرے ہوئے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے اور طنز خالی پیٹ سے،آج کل مزاح لکھا ہی نہیں جا رہا، صرف طنز نگاری ہے یا مضمون نگاری،ٹی وی پر مزاح نہیں، مذاق دکھایا جارہا ہے
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی
انہوں نے ارد و مزاح کو اس معیار پر پہنچا دیا کہ اب کوئی اور وہاں جاتے ہوئے سہم جاتا ہے، وہ ہر ایڈیشن پر ترمیم و اصلاح کرتے تھے، چاہے وہ دسواں ایڈیشن ہی کیوں نہ ہو، اگر یوسفی صاحب کے بعد مزاح کے مستقبل کی بات کی جائے، تو اب مزاح ان کے معیار کا تو نہیں ہو گا، لیکن مزاح لکھا جاتا رہے گا،
یوسفی صاحب کی تحریروں میں بھی پھکڑ پن پایا جاتا ہے،لکھاری کے ساتھ قاری کے بھی درجے ہوتے ہیں اور ہر قاری اپنی ذہنی سطح کے لکھاری کو پڑھنا پسند کرتا ہے،کمرشلزم نے صرف مزاح ہی نہیں، بلکہ تحریر کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے،ہم تحریر کے کسی بھی شعبے میں انگریزی سے مقابلہ نہیں کر سکتے،ادب میں پہلا درجہ شاعری اور افسانہ نگاری کا ہے، مزاح بعد میں آتا ہے
شکیل عادل زادہ
ادب میں طنز و مزاح کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے۔ اس میدان میں وہی قدم رکھ سکتا ہے، جس کی حسِ مزاح بیدار ہو۔ یہ ایک مشکل ترین صنفِ ادب ہے، جسے نقادوں نے دو دھاری تلوار پر چلنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کے اس جہانِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ طنز و مزاح کا مستقبل کیا ہے؟ کیا ’’عہدِ یوسفی‘‘ ختم ہو گیا، یا اس کا تسلسل جاری ہے؟ نئی نسل اس حوالے سے کیوں پیچھے ہے؟ موجودہ دور میں مزاح لکھنے والوں کا معیار کیا ہے؟ زبان و بیان پر ان کی دسترس ہے یا نہیں؟ مشتاق احمد یوسفی نے مزاح کو جس بلندی پر پہنچایا ، کیا ان کے بعد کوئی ہے، جو ان کی قائم کردہ روایت کو آگے بڑھائے گا؟ یہ اور اس قسم کے کئی سوالات ہمیں دعوتِ فکر دیتے ہیں۔ یہ وہ نکات ہیں، جن پر ہر زوایے سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔ گزشتہ دنوں ’’ اردو مزاح، یوسفی کے بعد‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں ملک کے نام ور دانشوروں، شکیل عادل زادہ، ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی اور ڈاکٹر رئوف پاریکھ نے اظہارِ خیال کیا۔ یقیناً اس فورم میں کی جانے والی گفتگو اردو طنزو مزاح کے باب میں گراں قدر اضافہ ثابت ہوں گی۔یہ بات چیت ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔ہم مشتاق احمد یوسفی کے پورٹریٹ کے لیے معروف آرٹسٹ شاہد رسام کے شکر گزار ہیں۔
جنگ:آپ اردو مزاح کے شہنشاہ، مشتاق احمد یوسفی کے بعد اس صنفِ ادب کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟
شکیل عادل زادہ:میں اپنی گفتگو کا آغاز اردو طنز و مزاح کے ماضی سے کروں گا۔ پطرس بخاری سے قبل فرحت اللہ بیگ سمیت کئی دیگر طنز و مزاح لکھتے تھے، لیکن اس میدان میں جو شہرت پطرس کو ملی، وہ کسی کے حصے میں نہیں آئی۔ ان کی تصانیف اردو مزاح کی مستند ترین کتابوں میں شمار ہوتی ہیں۔ ان کے بعد کرنل محمد خان نے بہت اچھا مزاح لکھا۔مزاح نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں ابنِ انشا، ابراہیم جلیس، شفیق الرحمٰن اور نصر اللہ خاں، کنہیا لال اور ابراہیم جلیس کے چھوٹے بھائی، مجتبیٰ حسین قابلِ ذکر ہیں۔ سو، ہم یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ ماضی میں مزاح نہیں لکھا گیا۔ اب بات یوسفی صاحب تک آ گئی ہے اور میں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ مزاح کو جتنا نقصان یوسفی صاحب نے پہنچایا، اتنا کسی اور نے نہیں۔انہوں نے ارد و مزاح کو اس معیار پر پہنچا دیا کہ اب کوئی اور وہاں جاتے ہوئے سہم جاتا ہے۔ جون ایلیا کہا کرتے تھے کہ یوسفی صاحب کا مزاح اعلیٰ درجے کی کرافٹ مین شپ ہے، تو میں ان سے جواب میں کہتا تھا کہ وہ ایسا کوئی اور آدمی دکھا دیں۔ جیسا کہ اقبال مہدی سے متعلق کہتے تھے کہ وہ تو ریئلسٹک پینٹنگ بناتے ہیں، یہ تو فوٹو گراف جیسی ہے اور یہ کوئی بات ہوئی۔ یوسفی صاحب اپنی نثر پر بہت زیادہ محنت کیا کرتے تھے اور سنا ہے کہ وہ اپنی تحریر ڈاکٹر شان الحق حقی کو باقاعدگی سے دکھاتے تھے۔ چونکہ ان کی کتاب کے مسودے ہمارے سامنے آتے رہتے تھے، تو ہم نے دیکھا کہ وہ ہر ایڈیشن پر ترمیم و اصلاح کرتے تھے، چاہے وہ دسواں ایڈیشن ہی کیوں نہ ہوتا۔ اگر یوسفی صاحب کے بعد مزاح کے مستقبل کی بات کی جائے، تو اب مزاح ان کے معیار کا تو نہیں ہو گا، لیکن مزاح لکھا جاتا رہے گا۔ اللہ نے چاہا، تو کوئی بہتر لکھنے والا بھی آ جائے گا۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی:اردو شاعری کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اٹھارہویں صدی میر کی صدی تھی۔ انیسویں صدی غالب کی صدی تھی اور بیسویں اقبال کی۔ اب اگر اردو مزاح کے حوالے سے بات کریں، تو اٹھارہویں صدی جعفر زٹلی کی صدی تھی، جنہیں اردو مزاح کا باوا آدم کہا جاتا ہے، انیسویں صدی اکبر الہ آبادی کی صدی تھی اور بیسویں صدی بلامبالغہ مزاح کے حوالے سے یوسفی صاحب کی صدی تھی۔ یوسفی صاحب مزاح کا ایک ایسا معیار قائم کر گئے کہ اسی کی روشنی میں آگے سفر طے کیا جائے گا۔
جنگ:موجودہ دور کے مزاح کا معیار کیسا پاتے ہیں؟
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی:میں آج کل کے مزاح کے معیار سے مایوس ہوں۔ یوسفی صاحب کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ مغربی لٹریچر کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے اور اس کی جھلکیاں ان کی تحریر میں بھی نظر آتی ہیں، لیکن اب مطالعے کا رجحان ختم ہو گیا ہے۔ اب زیادہ تر افراد اپنی ذات تک محدود ہیں۔ میں شکیل عادل زادہ کی اس بات سے اتفاق کروں گا کہ اب آگے ایک بلیک اسپاٹ ہے اور ایسا کوئی فرد نظر نہیں آتا کہ جو ان کی جگہ لے سکے۔ ڈاکٹر ظہیر فتح پوری کا مشہور قول ہے کہ ہم اردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں، لیکن فن کار کا عہد اس کے فن میں ہوتا ہے اور فن زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ لہٰذا، میں یہ کہوں گا کہ کل تک ہم اردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں جی رہے تھے اور آج ہم اردو مزاح کے سحرِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔ یہ سحر باقی رہے گا اور ہم اسی کے ذریعے آگے بڑھتے رہیں گے۔ اقبال نے کہا تھا کہ؎ ’’نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے‘‘میں نے لاہور کے ایک مصنف کی کتاب کا اشتہار پڑھا، تو قہقہے لگانے پر مجبور گیا۔ یہ ان کی 69ویں کتاب تھی۔ اشتہار پر ان کا پتہ بھی درج تھا، جو مزاحیہ انداز میں لکھا تھا۔ میں نے اس پتے پرخط لکھ کر وہ کتاب منگوائی، تو انہوں نے اس کے ساتھ اپنی 70ویں کتاب بھی بھیج دی۔ اس کتاب کے ہر ایک جملے پر انسان قہقہہ لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اسی طرح میرپور خاص سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر نصیر بھی، جو ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں، بہت اچھا مزاح لکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ آج اچھا مزاح نہیں لکھا جا رہا۔ البتہ لکھنے والے گمنام ہیں، لیکن یوسفی صاحب کا سحر تادیر طاری رہے گا۔
جنگ:مزاں نگاری میں پھکڑ پن کیوں جگا پارہا ہے، کیا ایسا مزاح نہیں لکھا جا سکتا کہ جس سے ہر فرد بلا جھجک محظوظ ہو؟
شکیل عادل زادہ:مزاح لکھتے ہوئے چاہے کتنی بھی احتیاط کیوں نہ کی جائے، پھکڑ پن کہیں نہ کہیں آ ہی جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ابنِ انشا کی نگارشات پڑھتے ہوئے بھی بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کہ یہ جملہ کیسے آ گیا۔ اسی طرح یوسفی صاحب کی تحریروں میں بھی کہیں کہیں یہ انداز پایا جاتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ مزاح نگار کا پھکڑ پن پر اختیار نہیں ہوتا، تو یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ البتہ اب لچر پن زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی:آج سے کم و بیش8برس قبل پی اے سی سی (پاک امریکن کلچر سینٹر) میں ایک پروگرام منعقد ہوا تھا۔ اس پروگرام میں یوسفی صاحب نے کہا کہ مجھ پر دو الزامات لگائے جاتے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ میں فحش لکھتا ہوں اور دوسرا یہ کہ میں ذرا مشکل لکھتا ہوں اور میں یہ دونوں الزامات تسلیم کرتا ہوں۔ اب یہ ان کی بڑائی ہے۔ ایک بات یاد رکھیں کہ مزاح ہمیشہ ذہنی طور پر بالغ افراد کے لیے لکھا جاتا ہے اور اس کے بغیر بات نہیں بنتی۔ یہاں میں سید ضمیر جعفری کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ انہوں نے لکھا کہ جو چیز آپ کے ذہن، طبیعت اور روح میں احساسِ نفاست، احساسِ مسرت اور احساسِ شگفتگی پیدا کر دے، وہ مزاح ہے، لیکن اس میں ادب اور شائستگی کا پہلو بھی ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے۔ میں یہاں حال ہی میں انتقال کرنے والے بھارتی شاعر، جی ایم احمد خواہ مخواہ کا ایک شعر پیش کرنا چاہتا ہوں، جس میں آپ کے سوال کا جواب بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ؎ ظرافت میں فصاحت اور شرافت بھی ضروری ہے/ گدھوں پر زین کس دینے سے وہ گھوڑے نہیں ہوتے۔ سو، یہ بات ذہن نشین رہے کہ مزاح بالغ ذہنوں کے لیے لکھا جاتا ہے۔
جنگ: آپ طنز اور مزاح میں فرق کو کس طرح بیان کریں گے؟
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی:اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ مزاح بھرے ہوئے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے اور طنز خالی پیٹ سے۔
جنگ:آج کل کے مزاح نگاروں کے بارے میں آپ کی رائے ہے؟
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی:آج کل تو مزاح لکھا ہی نہیں جا رہا۔ صرف طنز نگاری ہے یا مضمون نگاری ہورہی ہے۔ مزاح کے لیے بذلہ سنج طبیعت کا ہونا ضروری ہے۔ ایک مرتبہ میں نے یوسفی صاحب کو گھر پر فون کیا۔ خیر خیریت پوچھی، تو کہنے لگے کہ دس دن سے ٹائیفائڈ میں مبتلا ہوں اور ڈاکٹروں نے مجھ میں اتنی اینٹی بائیوٹکس پمپ کر دی ہیں کہ اگر کوئی عام بخار والا آدمی مجھ سے ہاتھ ملائے، تو وہ ٹھیک ہو جائے۔ یعنی بسترِ علالت پر بھی ان کی بذلہ سنجی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اگر کوئی فرد ایسی طبیعت کا مالک ہو، تو پھر وہ مزاح لکھے۔
شکیل عادل زادہ:ہر قاری کا مزاج دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ سبھی کو یوسفی صاحب کا مزاح پسند آئے۔ لکھاری کے ساتھ قاری کے بھی درجے ہوتے ہیں اور ہر قاری اپنی ذہنی سطح کے لکھاری کو پڑھنا پسند کرتا ہے۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی:یوسفی صاحب نے مزاح نگاری میں ہر گر آزمایا۔ کوئی چیز نہیں چھوڑی۔ انہوں نے نثری و شعری تحریف بھی کی۔ مثال کے طور پر انہوں نے جوش ملیح آبادی کی سوانح عُمری، یادوں کی بارات میں تحریف کرتے ہوئے شہوانِ عُمری لکھا۔ اسی طرح انہوں نے مزاح میں تخمِ خنزیز کا مرکب بنایا تخمیر۔ ہم کہتے ہیں، لعابِ دہن، لیکن انہوں نے زر گزشت میں لکھا، لعابِ ذہن۔ میں یہاں یوسفی صاحب کی شعری تحریف کی بھی دو مثالیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ غضنفر صاحب نے انہیں بتایا کہ انگریزوں نے ہندوستان کو تین تحفے دیے ہیں، پھول، شراب اور کتوں کی اعلیٰ نسل، تو یوسفی صاحب نے جواب دیا کہ ہاں، ورنہ یہاں کیا تھا۔ کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا، کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا۔ غضنفر صاحب کہنے لگے کہ آپ نے شعر غلط پڑھا۔ مویشی چَرانے پر عرب میں جھگڑا ہوتا تھا، یہاں چُرانے پر ہوتا ہے۔ افتخار عارف کا ایک مشہور شعر ہے ؎تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں، جان بہت شرمندہ ہیں۔ ہوا یہ کہ غلام اسحٰق خان نے بے نظیر کی حکومت برطرف کی، تو یوسفی صاحب کی رگِ ظرافت پھڑکی اور انہوں نے افتخار عارف کے اس شہر میں تحریف کی کہ تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں، خان بہت شرمندہ ہیں۔
جنگ:ٹی وی چینلز پر جاری مختلف مزاحیہ ٹاک شوز اور کمرشلزم کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
شکیل عادل زادہ:کمرشلزم نے صرف مزاح ہی نہیں، بلکہ تحریر کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ مزاح ادب کی ایک مشکل صنف ہے اور ہر آدمی مزاح نہیں لکھ سکتا۔ اب ہمیں مطالعے کے لیے وہ وقت نہیں مل پاتا، جو ہمیں ٹی وی کی آمد سے پہلے ملتا تھا۔ آج کل سٹ کامز بھی انتہائی گھٹیا قسم کے بن رہے ہیں۔ ان میں نہایت عامیانہ زبان اور شرمناک جملے استعمال کیے جاتے ہیں، جو ہماری تہذیب و ثقافت سے میل نہیں کھاتے۔ ڈراموں کا تعلق گھر کے فرد سے ہوتا ہے، جبکہ طنز و مزاح پر مبنی تحریر صرف پڑھے لکھے افراد ہی پڑھتے ہیں۔ اب جب ہماری نئی نسل ایسے مزاحیہ ڈرامے دیکھے گی، تو اس کے مزاح کا کیا حال ہو گا۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی:میں اس گفتگو کو یوں سمیٹوں گا کہ ٹی وی پر جو کچھ دکھایا جا رہا ہے، وہ مذاق ہے اور ہم مزاح کی بات کر رہے ہیں۔
جنگ:آپ یوسفی صاحب کے بعد اردو مزاح کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر رئوف پاریکھ:دراصل، یوسفی صاحب نے اردو طنز و مزاح کو اس معیار پر پہنچا دیا کہ اب اس سے آگے بڑھنا بہت مشکل ہے۔ میری ناقص رائے میں یوسفی صاحب کے اس معیار کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو ان کا مطالعہ بہت زیادہ تھا۔ میں یہاں ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ہم ایک بار ان کے پاس گئے، تو تنقیدی نظریات سے متعلق سوال کیا۔ وہ اپنے کتب خانے میں گئے اور معروف برطانوی ادبی جریدے، گرانٹا میں شایع شدہ مضمون اٹھا لائے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ یہ رسالہ کہاں سے ملتا ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ جب میں لندن میں مقیم تھا، تو میں نے کئی رسالے گھر پہ لگوائے تھے، جو اب بھی میرے پاس آتے ہیں۔ وہ باقاعدگی سے انگریزی لٹریچر اور ادبی مضامین کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آبِ گم میں شیکسپیئر کے مصرعے میں بھی تحریف کی۔ پھر وہ اپنی تحریر پر بہت محنت کیا کرتے تھے۔ ایک ہی جملے میں کئی مرتبہ ترمیم کرتے تھے۔ اب اتنی محنت کون کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں لکھتا ہوں اور پال میں لگا دیتا ہوں اور سال دو سال بعد نکال کر دیکھتا ہوں کہ اس میں کوئی جان بھی ہے یا نہیں۔ انہوں نے اپنا ایک ناول پھاڑ کر پھینک دیا اور مجھ سے کہا کہ بات نہیں بنی۔ انہیں اردو پر بھی خاصا عبور تھا، حالانکہ وہ خود کو مارواڑی کہتے تھے۔ ان کے پاس الفاظ کا وسیع ذخیرہ تھا۔ آبِ گم میں انہوں نے رنگوں کے جو نام لکھے ہیں، صرف انہیں پڑھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔
جنگ:موجودہ مزاح کا معیار کیسا پاتے ہیں؟
ڈاکٹر رئوف پاریکھ: معذرت کے ساتھ، اب وہ معیار نہیں رہا۔ البتہ ڈاکٹر معین قریشی ، ڈاکٹر محسن اور محمد اسلام بھی مزاح لکھ رہے ہیں۔ جہاں تک ڈاکٹر یونس بٹ کی بات ہے، تو وہ کمرشلائزیشن کی زد میں آ گئے ہیں۔ پھر ہمارے کئی مزاح نگار پرانے مزاح نگاروں اور انگریزی تحریروں کی نقل بھی کرنے لگے ہیں اور ان کی تحریروں میں اوچھا پن یا ولگیریٹی بھی آ گئی ہے۔ اگرچہ ولگیریٹی یوسفی صاحب کی تحریروں میں بھی پائی جاتی ہے، لیکن اس میں ضبط اور شائستگی نظر آتی ہے۔ ایک بار میں نے ان سے کہا کہ خواتین آپ کو کافی پسند کرتی ہیں، تو جواب دیا کہ اتنی بھی پسند نہیں کرتیں۔ ایک مرتبہ پارک میں ایک خاتون سے سامنا ہوا، تو انہوں نے پوچھا کہ کیا کرتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ لکھتا ہوں۔ کہنے لگیں کہ اپنی کچھ کتابیں پڑھنے کے لیے دیں۔ میں نے دے دیں۔ چند روز بعد ملاقات ہوئی، تو کچھ اکھڑی اکھڑی سی نظر ائیں۔ میں نے وجہ پوچھی، تو کہنے لگیں کہ آپ شکل سے تو اتنے لچے نہیں لگتے۔ یعنی وہ خود اس بات کو تسلیم کرتے تھے۔
جنگ:انگریزی مزاح کے مقابلے میں اردو مزاح کو کہاں دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر رئوف پاریکھ: دراصل، انگریزی تحریر میں آپ ذرا سا بھی ٹوئسٹ پیدا کر دیں، تو قاری کے چہرے پر مسکان آ جاتی ہے اور اسے مزاح سمجھا جاتا ہے، لیکن اردو مزاح میں جب تک آپ قہقہہ نہ لگائیں، اسے مزاح سمجھا ہی نہیں جاتا۔ یعنی انگریزی اور اردو کا مزاح مختلف ہے۔
شکیل عادل زادہ:ہم تحریر کے کسی بھی شعبے میں انگریزی سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔
ڈاکٹر رئوف پاریکھ:جی بالکل۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ دنیا میں اردو کا سب سے بڑا مزاح نگار کون ہے، تو ہم یوسفی صاحب کا نام لے سکتے ہیں۔
شکیل عادل زادہ:مسئلہ یہ ہے کہ ان کے مزاح کا انگریزی میں ترجمہ نہیں ہو سکتا۔
ڈاکٹر رئوف پاریکھ:جی ہاں۔ یوسفی صاحب کے مزاح کا ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی:ایک مرتبہ ایک ٹی وی چینل والے یوسفی صاحب کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم زرگزشت کی ڈرامائی تشکیل کروانا چاہتے ہیں اور بشریٰ انصاری آپ کی بیگم کا کردار ادا کریں گی، تو یوسفی صاحب نے جواب دیا کہ میں نے جو لکھا ہے ، وہ دیکھنے کے نہیں، پڑھنے کے لیے لکھا ہے۔ انہوں نے منع کر دیا۔
جنگ:آج کل قاری کا معیار کس درجے پر ہے۔ یعنی وہ کس قسم کی تحریر کی توقع کرتا ہے؟
ڈاکٹر رئوف پاریکھ: آج کل زبان کا معیار بھی کافی گر گیا ہے، جبکہ مزاح کا تعلق ہی خالصتاً زبان سے ہے۔ یعنی زیر، زبر، پیش سے الفاظ کا مفہوم بدل جاتا ہے اور تحریر میں مزاح پیدا ہو جاتا ہے۔ اب جب قاری کی زبان کا معیار وہ نہیں ہو گا، تو وہ مزاح کو کیسے سمجھے گا۔
جنگ:کل کے قاری اور آج کے قاری میں کیا فرق دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر رئوف پاریکھ :بہت زیادہ فرق آیا ہے۔ میرا تعلق تدریس سے ہے ،میں نے ایم اے، اردو فائنل ایئر کے کئی ایسے طلبہ کو دیکھا ہے، جو ’’ک‘‘ کے بہ جائے ’’ق‘‘ اور ’’ق‘‘ کی جگہ ’’ک‘‘ لکھتے ہیں، جبکہ آج سے 10،12برس قبل ایسا نہیں تھا۔ ایسے نوجوان یوسفی صاحب کو کیا پڑھیں اور سمجھیں گے۔
جنگ:ایک ڈائجسٹ پڑھنے والا عام قاری کس معیار کا مزاح پڑھ سکتا ہے؟
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی:ایسا قاری شوکت تھانوی، مجید لاہوری، ابراہیم جلیس اور عظیم بیگ چغتائی وغیرہ کے معیار کا مزاح پڑھ اور سمجھ سکتا ہے، جبکہ یوسفی صاحب کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے اپنی ذہنی سطح کو بلند کرنا ہو گا۔ یوسفی صاحب کے پاس کئی گر تھے۔ ان کے پاس تحریر تھی، تاریخ تھی، طنز تھا، رمز تھا، دیسی بدیسی لطائف تھے، اشعار، اقوال تھے، کسرِ نفسی اور ہجو تھی۔ انہوں نے اپنی کتاب شامِ شہرِ یاراں میں لکھا ہے کہ مزاح نگار اگر کسی پر قصیدہ بھی لکھے گا، تو اس میں بھی ہجو کا پہلو نکال لے گا، کیونکہ وہ اپنی فطرت سے مجبور ہے۔ میں تاریخ پر یوسفی صاحب کی مہارت کی ایک مثال بیان کرنا چاہتا ہوں۔ سید محمد باقر صاحب نے لکھنؤ کی تاریخ لکھی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں اس دور کے نواب صاحب کی دین داری کا ذکر کیا ہے۔ وہ شریعت کی بہت پاسداری کرتے تھے۔ پہلے شراب پیتے تھے، لیکن اپنے پیر صاحب کے وعظ و نصیحت سے متاثر ہو کر پہلے شراب نوشی سے توبہ کی اور بھنگ شروع کر دی۔
جنگ:ادب کی کئی اصناف ہیں۔ مثلاً شاعری، افسانہ نگاری، ناول نگاری اور مزاح وغیرہ۔ ان تمام اصناف میں مزاح کا درجہ کون سا ہے؟
شکیل عادل زادہ:ادب میں پہلا درجہ شاعری اور افسانہ نگاری کا ہے۔ مزاح بعد میں آتا ہے اور آنا بھی چاہیے، کیونکہ ہر فرد مزاحیہ تحریر نہیں پڑھنا چاہتا۔
جنگ:حالانکہ مزاح نگاری، افسانہ نگاری سے زیادہ مشکل ہے؟
شکیل عادل زادہ:جی بالکل، اس میں کوئی شبہ نہیں۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی:دیکھیں جی۔ رلانا آسان اور ہنسانا مشکل کام ہے، مگر مزاح کو وہ مقام نہیں مل سکا، جو فکشن کو مل چکا ہے۔ ایسا پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ آج تک کسی مزاح نگار کو نوبیل پرائز نہیں ملا، حالانکہ مارک ٹوئن بھی اس سے محروم رہے، جو یوسفی صاحب کے پسندیدہ مصنف تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں مارک ٹوئن کے کئی حوالے بھی دیے ہیں اور ان کے کئی لطائف کو مشرقی رنگ بھی دیا۔ یہاں مجھے ایک مشہور واقعہ یاد آ رہا ہے۔ مشہور فلم ساز شباب کیرانوی نے 1962ء میں ایک مزاحیہ فلم بنائی تھی، ٹھنڈی سڑک۔ کیا زبردست فلم تھی وہ۔ اس فلم میں پہلی مرتبہ کمال نے ہیرو کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں کرداروں کے نام تک نہایت مزاحیہ تھے۔ مثال کے طور ایک نہایت بزدل شخص کا نام تھا، رستم۔ ایک نہایت ہی کنجوس شخص کا نام تھا، حاتم۔ یہ نہایت زبردست پکچر تھی، لیکن فلاپ ہو گئی۔پھر انہوں نے ثریا، ماں کے آنسو اور مہتاب جیسی فلمیں بنائیں، تو لوگوں کو رلا دیا اور یہ فلمیں کامیاب بھی ہوئیں۔ وہ کہتے تھے کہ اگر کامیابی چاہتے ہو، تو لوگوں کے آنسو نکالو۔
شکیل عادل زادہ:دنیا بھر میں ادب کی سب سے محبوب صنف کہانی ہے۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پیسے کہانی کے ملتے ہیں اور ٹی وی چینلز، اخبارات و رسائل اور فلمز کو بھی کہانی ہی کی ضرورت ہے اور مزاح کا درجہ بعد میں آتا ہے۔
ڈاکٹر رئوف پاریکھ:یہ بات درست ہے کہ مزاح لکھنا بہت مشکل ہے ،لا دینے والی تحریریں لوگوں کو اپنی جانب زیادہ متوجہ کرتی ہیں۔ پھر مزاح میں کوئی درمیانی صورت بھی نہیں ہوتی۔ یعنی مزاح ہو گا یا نہیں ہو گا۔ کامیاب ہو گا یا ناکام ہو گا۔ یعنی مزاح نگاری میں ناکامی کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں اور اسی لیے بہت سارے لکھاری مزاح نہیں لکھتے۔ مزاح کو نبھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس میں کوئی تمہید نہیں ہوتی اور بعض افراد تو تمہید لکھتے ہوئے ہی شہید ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ پطرس بخاری اور ابنِ انشا کو پڑھیں، تو پہلے جملے ہی سے مزاح شروع ہو جاتا ہے، کیونکہ اگر آپ تمہید باندھیں گے، تو پھر بات نہیں بنتی۔ مزاح کو لکھانا اور نبھانا بہت مشکل ہے۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی:اردو کے پہلے باقاعدہ مزاح نگار جعفر زٹلی بھی اسے نہیں نبھا سکے۔ انہوں نے تحریف کردی تھی، جس پر بادشاہ نے ان کو مروا دیا۔
ڈاکٹر رئوف پاریکھ: اس زمانے میں بادشاہ کا سکہ ہوا کرتا تھا اور اس پر ایک شعر کندہ ہوتا تھا، جس میں انہوں نے تحریف کر دی تھی۔ سکہ زد بر سیم و زر بادشاہِ بحر و بر فرخ صید۔ اس وقت چوںکہ معاشی تباہی تھی اور وہ بادشاہ لوگوں کو پھانسی دے کر مار دیا کرتا تھا۔ انہوں نے سیم و زر کی جگہ مونگ و مٹر لکھ کر اس دور کی معاشی بدحالی کی جانب اشارہ کیا تھا کہ لوگوں کے پاس کھانے کے لیے بھی کچھ نہ تھا، جس پر بادشاہ نے انہیں مروا دیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کتنا خطرناک کام ہے۔ ابراہیم جلیس جیل پہنچ گئے۔ اس زمانے میں پبلک سیفٹی ایکٹ ہوا کرتا تھا، تو انہوں نے اسے پبلک سیفٹی ریزر لکھ دیا۔ فوجی حکومت نے انہیں جیل میں ڈال دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ مزاح کی بہ جائے افسانہ نگاری یا ادب کی دوسری اصناف کو ترجیح دیتے ہیں۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی:اگر آپ یوسفی صاحب کی کتاب زرگزشت پڑھیں، تو اس پوری کتاب میں اینڈرسن چھایا ہوا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اینڈرسن کی شراب نوشی سمیت دوسری تمام برائیاں بیان کی ہیں، لیکن ان کے قلم کا کمال دیکھیں کہ اس کے باجود قاری کو اینڈرسن سے محبت ہوجاتی ہے۔ ایک بار میں نے ان سے پوچھا کہ کیا اینڈرسن واقعی تھا یا یہ کردار آپ نے تخلیق کیا ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ اینڈرسن واقعی تھا اور نہایت عجیب شخص تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک روز اس نے مجھے صبح سویرے دفتر میں بلایا اور کہا کہ میں تمہیں اعلیٰ تربیت کے لیے آسٹریلیا بھیج رہا ہوں، جو چھ ماہ پر مشتمل ہو گی۔ یہ سن کر میں خوشی سے پھول گیا اور ان کے پی اے کے پاس جا کر پوچھا کہ کیا صاحب نے میری ٹریننگ سے متعلق کوئی ہدایت دی ہے، تو اس نے نفی میں جواب دیا۔ تاہم، میں نے بیگم سے بھی اپنے ساتھ جانے کے لیے کہہ دیا اور آسٹریلیا جانے کی تیاری شروع کر دی۔ اگلے روز میںباس کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ آپ مجھے تربیت کے لیے آسٹریلیا بھجوا رہے ہیں، تو اینڈرسن نے فوراً جواب دیا کہ تمہیں کس نے یہ کہہ دیا۔ کہیں تم نشے میں تو نہیں ہو۔ یعنی جب اینڈرسن نے یہ بات کہی تھی، تو اس وقت وہ نشے میں تھا۔
جنگ: آج کل کے مزاح نگاروں پر سرقے کا الزام عاید کیا جاتا ہے۔ اس سے مزاح کتنا متاثر ہوتا ہے؟
ڈاکٹر رئوف پاریکھ:دیکھیں، لطائف کسی کی ملکیت نہیں ہوتے اور ان میں کوئی سرقہ نہیں ہوتا۔ شفیق الرحمٰن کے بعض مضامین ایسے ہیں کہ جو مختلف لطائف کو جوڑ کر بنائے گئے ہیں۔ البتہ اس وقت ایک ایسے مزاح نگار ہیں کہ جو انگریزی سے بہت زیادہ سرقہ کرتے ہیں اور وہ یوسفی صاحب کی تحریروں کی نقل بھی کرتے ہیں۔ یہ الزام بڑے برے ادیبوں اور شعرا پر لگتا رہا ہے۔ غالب پر یہ الزام عاید کیا جاتا ہے کہ انہوں نے فارسی کلام کا اردو میں ترجمہ کیا۔
شکیل عادل زادہ:ایک معروف شاعر نے سلیم احمد کا شعر لکھا، تو میں نے انہیں فون پر بتایا کہ یہ شعر میں نے آج سے 15برس پہلے ایک مضمون میں پڑھا تھا اور یہ بیدل کا شعر ہے۔ انہوں نے بیدل کی کلیات دیکھیں، تو وہ واقعی انہی کا شعر تھا۔ پھر انہوں نے اپنے کالم میں اس بات کی وضاحت یہ کہتے ہوئے کی کہ اگر سلیم احمد شرارت کر سکتے ہیں، تو ہم سے بھی شرارت ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی:ڈاکٹر رئوف پاریکھ نے بڑی اچھی بات کہی کہ لطائف کسی کی ملکیت نہیں ہوتے۔ میں اس پس منظر میں یوسفی صاحب کا ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ 1995ء کی بات ہے۔ عالی جی کو سینیٹ کا رکن منتخب کیا گیا تھا۔ فاروقی صاحب کو تمغۂ حسنِ کارکردگی دیا گیا تھا اور نسیم درانی کو تمغۂ امتیاز عطا کیا گیا تھا۔ میں نے ان تینوں کے اعزاز میں عشائیہ ترتیب دیا۔ اس میں یوسفی صاحب بھی اپنی بیگم کے ساتھ تشریف لائے تھے۔ اس تقریب میں کسی شخص نے یوسفی صاحب کو یاد دلایا کہ آپ نے اپنی کسی کتاب میں دلی سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے شخص کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ صبح کوفتوں میں مرچیں بھروا کر کھاتا تھا اور جو کوفتے بچ جاتے تھے، وہ شام کو مرچوں میں بھروا کر کھاتا تھا۔ پھر انہوں نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی دلی والے ہیں اور یہاں بھی آپ کو ایسا ہی کھانا ملے گا۔ اس پر میں نے انہیں ایک لطیفہ سنایا۔ دو دلی والے آپس میں ملے۔ ایک نے دوسرے سے کہا کہ سنا ہے کہ بھائی ریاض نہاری کی دیگ میں گر کر مر گئے۔ تو دوسرے نے جواب دیا کہ سنا تو ہم نے بھی یہی ہے۔ تو پہلے نے پوچھا کہ کیا گرتے ہی مر گئے تھے، تو دوسرے نے جواب دیا کہ نہیں، دو مرتبہ باہر نکلے تھے۔ ایک مرتبہ لیموں لینے اور ایک مرتبہ ادرک لینے۔یہ لطیفہ شامِ شہرِ یاراں میں میرے نام سے درج ہے۔ یعنی انہیں 20برس بعد بھی میرا سنایا گیا لطیفہ یاد تھا۔ حالانکہ میں نے بھی یہ لطیفہ کسی سے سنا تھا، لیکن یہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ انہوں نے اسے میرے نام سے شامل کر لیا۔
جنگ:بھارت میں اردو مزاح کی کیا صورتحال ہے؟
ڈاکٹر رئوف پاریکھ:بھارت کے دو بڑے مزاح نگار ہیں۔ مجتبیٰ حسین اور یوسف ناظم۔ یوسف ناظم کا انتقال ہو چکا ہے اور مجتبیٰ حسین بھی اب اپنا پرانا مزاح دہرا رہے ہیں اور کثرت سے لکھتے ہیں۔ بسیار نویسی بھی شاعر کی طرح مزاح نگار کے لیے سمِ قاتل ہے۔ یوسفی صاحب نے صرف چار کتابیں لکھیں۔ آدمی کم لکھے، لیکن اچھا اور معیاری لکھے۔ زود نویسی اور بسیار نویسی سے مزاح کو نقصان پہنچتا ہے۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی:ممبئی کے ایک مزاح نگار ہیں، فیض علی فیضی۔ انہوں نے 1985ء میں طنز و مزاح کے حوالے سے پاکستان میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ وہ بھی بہت اچھا مزاح لکھتے ہیں۔
جنگ :مزاح نگاروں میں کسے رول ماڈل قرار دیا جا سکتا ہے؟ یا مزاح نگاری کا معیار کیسا ہونا چاہیے؟
شکیل عادل زادہ :یوسفی صاحب۔
ڈاکٹر رئوف پاریکھ:اب جب شکیل بھائی نے کہہ دیا، تو معیار ہی قائم ہو گیا۔ البتہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر فرد کا مزاح کا اپنا معیار، مزاج ہوتا ہے اور نہ صرف فرد کا بلکہ اقوام کا بھی اپنا ایک مزاج ہوتا ہے۔ بعض اقوام جس بات پر ہنستی ہیں، ہو سکتا ہے کہ آپ اس سے محظوظ نہ ہوں۔ یعنی مزاح کا معیار اور مزاج خطے کے اعتبار سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی:اب لاہور والے ذرا سی بات پر ہنسنے لگتے ہیں اور پنڈی والے خاموش، منہ بنائے بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ بھی فرق ہے۔ پھر یوسفی صاحب کی تحریر میں جو بے ساختگی پائی جاتی ہے، وہ کوئی اور پیدا نہیں کر سکتا۔
ڈاکٹر رئوف پاریکھ:بڑی معذرت کے ساتھ، میں ڈاکٹر معین صاحب کی اس بات سے اختلاف کروں گا۔ انہوں نے بے ساختہ اور برجستہ لکھا ہے، لیکن اس پر بڑی محنت کی گئی ہے، بلکہ ان پر الزام عاید کیا جاتا ہے کہ ان کا مزاح کڑھا ہوا اور گھڑا ہوا ہے۔ البتہ قاری کو اس میں بے ساختگی دکھائی دیتی ہے۔
جنگ: ابنِ انشا اور پطرس بخاری نے مختصر مختصر مضامین لکھے، جبکہ یوسفی صاحب کی تحریریں ناولٹ لگتی ہیں؟
ڈاکٹر رئوف پاریکھ:میں آپ کو بتاتا ہوں۔ یوسفی صاحب کی کتاب آبِ گم میں ناسٹلجیا بہت زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ اس میں غم اور مزاح کا امتزاج پایا جاتا ہے اور یہ وہی صورتحال ہے، جو غالب کے خطوط میں نظر آتی ہے۔ اس بارے میں ،میں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ آپ مسکرا رہے ہوں اور آپ کی آنکھوں میں آنسو ہوں یا دھوپ میں بارش ہو رہی ہو، ایسا محسوس ہوتا ہے۔
جنگ: تو کیا انہیں مزاحیہ ناولٹ نہیں کہا جا سکتا؟
ڈاکٹر رئوف پاریکھ :آبِ گم دراصل ایک یاد نگاری ہے یا آپ اسے خود نوشت کی ایک شکل کہہ لیں۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی :زرگزشت تو ان کی سوانح ہے۔
ڈاکٹر رئوف پاریکھ: میں نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ آبِ گم کے بعد کون سی کتاب لکھ رہے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ بس اب ایک کتاب آئے گی۔ وہ آخری ہو گی، لیکن وہ کتاب اس قسم کی نہ ہوتی، جیسی شامِ شہرِ یاراں ہے۔ بہر کیف، اس وقت تک اردو مزاح میں سب سے بڑا نام مشتاق احمد یوسفی ہی کا ہے اور پاکستان اور بھارت کا کوئی مزاح نگار ان کے معیار تک نہیں پہنچ سکتا۔
جنگ:ویسے بھی یوسفی صاحب کا مزاح ہر فرد پڑھ اور سمجھ بھی نہیں سکتا؟
ڈاکٹر رئوف پاریکھ: جی بالکل۔ یہ مزاح عام افراد کے پڑھنے کے لیے نہیں ہے۔ اگر وہ مزاح پڑھنا چاہتے ہیں، تو شوکت تھانوی اور عظیم بیگ چغتائی کو پڑھ لیں۔ دیکھیں، شاعری میں محبوبہ اور نثر میں منکوحہ مزاح پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ یعنی اب مزاح بہت محدود ہو گیا ہے۔ یوسفی صاحب نے سیاست سے عمداً گریز کیا اور اس موضوع پر کم لکھا۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ سیاست کو چھیڑے بغیر بھی بڑے مزاح نگار بن سکتے ہیں۔ ان کا ایک جملہ ہے کہ آدمی زندگی میں ایک بار پروفیسر ہو جائے، تو زندگی بھر پروفیسر ہی کہلاتا ہے، چاہے بعد میں سمجھ داری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے۔ یوسفی صاحب صرف بہت بڑے مزاح نگار ہی نہیں، بلکہ بہت بڑے نثر نگار بھی تھے۔ یاد رہے کہ نثر لکھنا بہت مشکل کام ہے۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی: میں اپنی گفتگو کا اختتام اس شعر پر کروں گا کہ؎ کتنے ہونٹوں کی ہنسی ساتھ گئی ہے اس کے…موت بھی سوچ رہی ہو گی کہ کون آیا ہے۔