• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچنار کا درخت

زہیرہ سمن علی

نانی کے گھر میں آنگن کے عین درمیان کچنار کا ایک درخت تھا۔ جب یہ درخت ایک چھوٹا سا پودا تھا، اُس وقت سب نے کہا تھا کہ’’لو بھلا یہ پودا کیسے یہاں پھل پھول سکتا ہے، ہاتھ بھر مٹی میں۔ نہ یہاں سورج کی روشنی پہنچتی ہے، نہ کھلی ہوا۔‘‘

بات تو ٹھیک تھی، آنگن چھوٹا سا تھا، کیاری بھی ذرا سی تھی اور ساتھ والے گھروں کی دیواروں کی وجہ سے صبح کوئی گیارہ بجے تک ہی سورج کی کرنیں یہاں پہنچتی تھیں، مگر ہماری نانی کو بہت شوق تھا۔

’’جب درخت میں کچنار کے پھول آئیں گے تو بڑے مزے کا سالن بناکر کھائیں گے۔‘‘ سب نے سوچا، لو یہ ابھی سے کچنار کے سالن کے خواب دیکھ رہی ہیں۔ نانی کو پھول پودے اور ہریالی پسند تھی۔

شام ڈھلے وہ کانوں میں موتیے کے پھول ڈال لیتی تھیں، کیاری میں دو تین گلاب کے پودے تھے۔ گلاب کھلتے تھے، تو وہ بھی جھولی میں ڈال لیتی تھیں۔

اکثر کہتی تھیں۔

’’میرا دل چاہتا ہے کہ ایک دن میرا باغ ہو، جس میں دُور دُور تک ہری گھاس ہو، پھلوں کے درخت ہوں، رنگ رنگ کے پھول ہوں۔‘‘

مگر وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی یہ خواہش حسرت بن گئی تھی۔

پرانے محلے میں کہیں دُور تک گھاس کا تنکا بھی نہیں تھا، ہر طرف اینٹیں اور سیمنٹ تھا۔ جب سے نئی کوٹھی بنی تھی، نانی چھوٹی سی انیکسی میں بند ہوکر رہ گئی تھیں، چھوٹے سے صحن میں ایک چھوٹی سی کیاری تھی اور چند پودے۔کوٹھی کے سامنے باغ ضرور تھا، مگر یہ نانی کا باغ نہیں تھا اور نہ ہی اُن کو یہاں بیٹھے کا موقع ملتا تھا۔ نانی اکثر بتایا کرتی تھیں۔

’’میرے دادا کا کشمیر میں بہت بڑا محل تھا، جس کے ارد گرد اتنا بڑا باغ تھا کہ سارا دن سیر کرتے گزر جائے اور پورا باغ نہ دیکھا جائے، مگر پھر اُنہوں نے بڑی عید پر گائے کی قربانی دے دی اور انہیں ہندوئوں سے جان بچاکر گھر والوں کے ساتھ بھاگنا پڑا، مگر وہ بہت بہادر تھے۔ راستے میں ایک جنگل میں شیر نے حملہ کیا، اُنہوں نے شیرکے ساتھ مقابلہ کرکے اسے مار ڈالا۔‘‘

نانی کی بہت سی خواہشیں تھیں، اُن کو سیر کا شوق تھا، مگر وہ گھر سے کم ہی باہر نکل سکتی تھیں۔ اُن کو کھانے کا شوق تھا، مگر پرہیز کرنا پڑتا تھا۔ ملنا ملانا اور محفلیں بھی اچھی لگتی تھیں، مگر زیادہ تر اکیلی ہی بیٹھی رہتی تھیں۔ جوان بچے، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں، سب اپنی اپنی دنیا میں مگن تھے۔

کبھی وہ شوق سے نیا سوٹ سلوایا کرتی تھیں، مگر اب ٹرنک بھرا پڑا تھا، پہن کر جاتی کہاں۔ چھوٹی سی عمر میں شادی ہوگئی اور پھر جوانی میں غربت کی حالت میں بیوہ ہوگئی ، مگر وہ دُکھی نہیں تھیں۔اُن کو دکھی کہنا مشکل تھا، اس لیے کہ وہ فطرتی طورپر دُکھ پالنے والی نہیں تھیں، انہیں دنیا اچھی لگتی تھی، زندگی اچھی لگتی تھی۔ بہت کچھ تھا، جو اُنہوں نے چاہا اور جو انہیں نہیں ملا ،مگر وہ اس وجہ سے دنیا سے ناراض نہیں ہوتی تھیں۔صبح سویرے بڑی میٹھی آواز میں تلاوت کرتی تھیں۔اپنا باغ نہ ملنے کے باوجود وہ تھوڑے سے موتیے اور گلاب کے پھولوں کو دیکھ کر ہی خوش ہولیا کرتی تھیں۔ کچنار کا یہ درخت اُنہوں نے بڑی اُمیدوں سے لگایا تھا۔

مجھے وہ دن کبھی نہیں بھولے گا، جب میں نانی سے ملنے آئی تو میں نے دیکھا کہ کچنار کے درخت میں جا بجا کاسنی پھول کھل رہے تھے۔ نہ جانے اُس دن میں کیا خاص بات تھی۔ سویرے سے ہی سب کچھ بھلا لگ رہا تھا۔ ہر معمولی سی شے، چھوٹی چھوٹی کنکریاں، گھاس کے تنکے، کونے والی چھابڑی ، سر راہ لاٹھی کے سہارے کھڑا بوڑھا فقیر ، حتیٰ کہ کوڑے کا ڈھیر بھی، سب ہی کچھ خوبصورت لگ رہا تھا۔ وہی سب کچھ، جو عام طورپر کس قدر بے جان اور بے معنی لگتا ہے، وہی سب کچھ ، جو عام طورپر دیکھنا، برداشت کرنا کتنا مشکل لگتا ہے۔ کچنار کا یہ درخت اچانک کتنا بڑا ہوگیا تھا، اس میں پھول کھل رہے تھے،ہم نے سوچا تھا کہ پودا کبھی درخت نہیں بنے گا،درخت میں کبھی پھول نہیں لگے گا،،ہم بھول گئے تھے، اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے تھے، پھر اچانک ایک دن ہمیں پتہ چلا کہ بے بس پودا، مضبوط درخت بن گیا ہے، اس کی شاخیں، ہری بھری ہیں، اس میں پھول کھل رہے ہیں۔نانی کا چہرہ اُس دن خوشی سے چمک رہا تھا۔

’’میں نے فاطمہ کے لڑکے سے کہہ دیا ہے کہ کچنار توڑلے کہیں زیادہ نہ پک جائے۔‘‘

نانو تو یوں خوش تھیں، جیسے کوئی خزانہ مل گیا ہو۔ یہ بازار کی کچنار نہیں تھی۔ یہ تو اپنے گھر میں لگے درخت کا پھل تھا، نعمت تھی۔

واقعی سالن بہت ذائقہ دار بنا، سب نے شوق سے کھایا اور پھر وہ وقت گزر گیا۔ ہم کچنار پر آنے والے پھولوں کو بھول گئے۔گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ کوئی کہیں چلا گیا۔کوئی کہیں۔ ایک دن اپنے بچوں کی صورتیں دیکھنے کو ترستے ہوئے نانی چل بسیں۔ جب وہ گئیں تو سب کو احساسِ جرم نے گھیر لیا۔ اُن کے لیے یوں بڑھاپے میں اکلاپا سہنا ضرور مشکل رہا ہوگا، مگر پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ احساسِ جرم بھی ماند پڑگیا۔زندگی کہاں رکتی ہے۔ بس یوں ہی بے خبری میں گزر جاتی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین