پچھلے دنوں میں نے غوث اعظم، پیر دستگیر شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ پر ایک کالم لکھا تھا جس کو قارئین نے بے حد سراہا اور مجھ سے درخواست کی کہ میں اولیاء کرام اور روحانی شخصیات کے بارے میں کبھی کبھی ضرور لکھاکروں۔ آج ان کی خواہش کے احترام میں دنیائے اسلام کی ایک عظیم ہستی حضرت اَویس قرنی ؒ کی حیات مبارکہ پر کچھ معلومات پیش کررہا ہوں۔
تذکرۃ الاولیاء مصنف شیخ فرید الدین عطارؒ میں حضرت اویس قرنی ؒ پر ایک باب موجود ہے۔ شیخ فرید الدین عطارؒ خود اپنے وقت کے جیّد عالم اور ولی اللہ تھے اور ان کی تحریر نہایت مصدقہ ہے۔آپ کو یہ بتلاتا چلوں کہ کتاب تقریباً آٹھ سو سال پرانی ہے۔ اس تصنیف کے مطابق آپؒ جلیل القدر تابعین اور چالیس پیشوائوں میں سے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ اَویس ؒ احسان و مہربانی کے اعتبار سے بہترین تابعین میں سے ہے۔ آپؐ بعض اوقات جانب یمن روئے مبارک کرکے فرمایا کرتے تھے کہ میں یمن کی جانب سے رحمت کی ہوا آتی ہوئی محسوس کرتا ہوں۔ رسولؐنے فرمایا تھا کہ ’’قیامت کے دن ستّر ہزار ملائکہ کے آگے جو اَویس قرنی کے مانند ہونگے اَویسؒ کو جنت میں داخل کیا جائے گا تاکہ مخلوق ان کو شناخت نہ کرسکے سوائے اس شخص کے جس کو اللہ ان کے دیدار سے مشرف کرنا چاہے اسلئے کہ آپ نے خلوت نشین ہوکر اور مخلوق سے روپوشی اختیار کرکے محض اسلئے عبادت و ریاضت کی کہ دنیا آپ کو برگزیدہ تصور نہ کرے اور اِس مصلحت کے پیش نظر قیامت کے دن آپ کی پردہ داری قائم رکھی جائے گی‘‘۔’’ رسولؐ نے فرمایا کہ میری اُمت میں ایک ایسا شخص ہے جس کی شفاعت سے قبیلہ ربیعہ و مضر کی بھیڑوں کے بالوں کے برابر گنہگاروں کو بخش دیا جائے گا (ربیعہ اور مضر دو قبیلے تھے جن میں بکثرت بھیڑیں پالی جاتی تھیں)۔ جب صحابہ کرامؓ نے رسولؐ سے دریافت کیا کہ وہ کون شخص ہے اور کہاں مقیم ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ اللہ کا ایک بندہ ہے اور پھر صحابہؓ کے اصرار پر فرمایا کہ وہ اَویس قرنی ؒ ہے‘‘ ۔’’ جب صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ کیا وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں تو آپؐ نے فرمایا کبھی نہیں۔ لیکن چشم ظاہری کے بجائے چشم باطنی سے ان کو میرے دیدار کی سعادت حاصل ہے اور مجھ( صلعم) تک نہ پہنچنے کی دو وجوہات ہیں اوّل غلبہ حال، دوئم تعظیم شریعت، کیونکہ ان کی والدہ مومنہ بھی ہیں اور ضعیف و نابینا بھی۔ اور اویس شتر بانی کے ذریعہ ان کی معاش حاصل کرتا ہے اور پھر جب صحابہؓ نے پوچھا کہ کیا ہم ان سے شرف نیاز حاصل کرسکتے ہیںتو آپؐنے فرمایا کہ ’نہیں‘ البتہ عمرؓ اور علیؓ سے ان کی ملاقات ہوگی اور ان کی شناخت یہ ہے کہ پورے جسم پر بال ہیں اور ہتھیلی کے بائیں پہلو پر ایک درہم کے برابر سفید رنگ کا داغ ہے لیکن یہ داغ برص کا داغ نہیں ہے۔ لہٰذا ان سے ملاقات ہو تو میرا سلام پہنچانے کے بعد میری اُمت کیلئے (بخشش کیلئے) دعا کرنیکا پیغام بھی دینا۔ اور پھر جب صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ آپ کے پیراہن کا حقدار کون ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ اویس قرنی ؒ‘‘۔
حضرت اویس قرنی ؒکے بارے میں کتابوں میں تفصیلات سے علم ہوتا ہے’’ کہ آپ یمن کے ایک قصبہ قرن میں پیدا ہوئے تھے، لاغر اندام، میانہ قامت، گندمی رنگ ،چشم مُبارک سیاہ، سر کے بال پراگندہ چکنے اور الجھے ہوئے، روئے مُبارک گردآلود، بائیں ہتھیلی پر بقدر ایک درہم سفید داغ تھا جو بیماری برص کا تھا۔ چونکہ دعائے دافع مرض میں آپؒ نے بارگاہ اِلٰہی میں دُعا بھی کی تھی کہ قبولیت دعا صحت کا اظہار تشکر کرنے کیلئے اس بیماری کا کچھ نشان باقی رہے۔ آپؒ اکثر ایک گودڑی میں ملبوس رہتے تھے جوپھٹے پرانے چیتھڑوں کی ہوتی تھی۔ اسے خود ہی یوں بناتے کہ کوڑے کرکٹ سے پھٹی پرانی دھجیاں اور چیتھڑے اُٹھا لیتے ان کو دھوکر پاک کرکے اوپر نیچے رکھ کر سی لیتے تھے۔ حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا تھا کہ انھوں نے حضرت اویس قرنی کو اون کی کمبلی لئے دیکھا ہے جس میں پیوند لگے ہوئے تھے۔
آپ حضرت اویس قرنی کے والد بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے والدہ ضعیف و ناتواں تھیں، ان کی خدمت اور فکر معاش کے ذریعہ آپ شتربانی کیا کرتے تھے۔ مالکان شتر سے جو چند درہم ملتے تھے ان سے اپنی والدہ محترمہ کی ضرورت پوری کرتے اور اپنے لئے راستہ میں پڑی کھجوروں کی گٹھلیاں چن کر بیچ کر چند کھجوریں خرید لیتے تھے۔ امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ حضرت اویس قرنی ؒ دنیا اور اقبال دنیا سے اس قدر بے نیاز تھے کہ دنیادار لوگ ان کو دیوانہ سمجھتے تھے۔ ابن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا تھا کہ میرا دوست میری اُمت میں اَویس قرنی ؒہے۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐنے فرمایا کہ میری امت میں ایک شخص ہوگا جس کو اَویسؒ بن عبداللہ قرنی کہتے ہیں۔ آپ نے ایک مرتبہ والدہ محترمہ کی اجازت سے رسولؐسے ملنے کی کوشش کی مگر آپؐ اس وقت گھر پر تشریف نہیں رکھتے تھے اسلئے آپؒ نے والدہ کے حکم کی تعمیل کی اور واپس چلے گئے۔ ‘‘
’’صحیح روایت کے مطابق نقل ہے کہ رسولؐ کے وصال کے بعد حضرت عمر فاروق ؓبرابر دس سال تک حضرت اویس قرنی ؒسے ملاقات نہ کرسکے ۔ آخر اپنے عہد خلافت کے آخری سال آپ (حضرت عمرؓ) نے حضرت علیؓ کیساتھ ایام حج میں آپؒ (اویس قرنی) سے ملاقات کرنے کا تہیہ کرلیا۔ میدان عرفات (یا کوہ ابوقبیس) میں بعدخطبہ مسنونہ تمام مسلمانوں سے خطاب کرکے پہلے اہل کوفہ کو کھڑا ہونے کو کہا پھر وہ کھڑے ہوگئے تو ان سے فرمایا کہ جو اہل قرن ہیں وہ کھڑے رہیں باقی بیٹھ جائیں۔ سوائے ایک ضعیف شخص کے سب بیٹھ گئے۔ جب اس نے تصدیق کی کہ وہ قرن کا رہنے والا ہے تو حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ کیا وہ اویسؒ کو جانتا ہے؟ اس نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ اس نام کا ایک دیوانہ شخص ہے جو میرا برادر زادہ ہے لیکن وہ بے حد حقیر و کم حیثیت ہے اور امیرالمومنین کی شان کیخلاف ہے کہ وہ اس سے ملاقات کریں۔ یہ سُن کر حضرت عمرؓ آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا، ہاں میں ایسے ہی شخص سے ملنا باعث فخر جانتا ہوں کیونکہ رسول ؐنے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایسے ہی مستور بندوں کو دوست رکھتا ہے جن کے چہرے مرجھائے ہوئے ہوں اور گردآلود ہوں بال بکھرے اور چکنے ہوئے ہوں۔ انکے رنگ تیرہ ہوں، شکم سوکھ کر پیٹھ سے لگ گئے ہوں اور جب ان کا تونگر دنیا دار سے سامنا ہو تو وہ ان سے بات کرنا ہتک سمجھیں، اپنے گھروں میں نہ گھسنے دیں اور اگر وہ بیمار ہوجائیں تو کوئی ان کا پرسان حال نہ ہو، اگر گم ہوجائیں تو کوئی تلاش نہ کرے اور اگر وہ مرجائیں تو ان کے جنازے پر نہ جائیں‘‘۔
’’غرض حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ کو ساتھ لیا اور کوفہ تشریف لے گئے اور پوچھتے پوچھتے غار نمرا پہنچے تو دیکھا کہ حضرت اویس قرنی ایک درخت کے نیچے مصروف نماز تھے۔ حضرت عمرؓ کعبے کے رخ کی طرف جاکر کھڑے ہوگئے تو حضرت اویس قرنی ؒ نے جلدی جلدی نماز ختم کی ۔ چند سوالات و جوابات کے بعد حضرت عمرؓ نے ان کو رسولؐ کا فرمان سنایا اور بتایا کہ اس فرمان کے مطابق وہ محبوب اِلٰہی حضرت اویس قرنیؒ ہیں پھر آپ نے حضرت اویس قرنی ؒ سے درخواست کی کہ اپنا دایاں ہاتھ دکھائیں جو فرمان رسولؐ کے مطابق ایک درہم برابر سفید نشان سے مرصع تھا۔ حضرت عمرؓ نے یہ ہاتھ چوم لیااور ان سے درخواست کی کہ وہ امت اور انؓ کیلئے دُعا کریں اور آپ نے دعا کردی کہ اے اللہ پاک مرد و عورت مومنوں کو بخش دے۔ حضرت علیؓ نے انؒ کو بتلایا کہ حضرت عمرؓ امیرالمومنین عمرؓ بن خطاب ہیں اور میں علیؓ ابن ابی طالب ہوں۔ یہ سن کر حضرت اویس قرنی ؒسیدھے کھڑے ہوگئے، حضرت عمرؓ کو سلام کیا جزائے خیر کی دعا دی۔ حضرت عمرؓ نے رسول ؐ کا پیراہن مُبارک ان کو پیش کردیا۔ رسولؐ کی وصیت سے مطلع ہوکر حضرت اویس قرنی ؒنے اقرار کیا کہ وہی اویس قرنی ؒ ہیں۔ یہ سن کر آپ نے رسولؐکا مرقع مُبارک قبول کیا اور نہایت ادب و احترام سے اپنے سر پر رکھا۔
اور اس کو لے کر ایک الگ جگہ پر گئے اور اس کو سامنے رکھ کر سربسجود ہو کر درگاہ اِلٰہی میں عرض کیا۔ ’’میرے آقا تیرے محبوب محمدؐ رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا ہے کہ میں ان کی امت کیلئے دعا کروں لہٰذا میں یہ مرقع جب تک نہ پہنوں گاجب تک تو تمام امت مسلمہ کو نہ بخش دے گا، یا رب العالمین ترے مقدس رسول ؐ اور ان کے صحابہ کرام حضرت عمرؓ ، حضرت علیؓ نے تو اپنا کام کردیا اب صرف تیرا کام باقی ہے کہ تو میری دعا قبول فرما۔ ہاتف نے آواز دی کہ آپ ؒ کی دعا کے مطابق امت مسلمہ کا کچھ حصّہ بخش دیا۔ آپؒ نے عرض کیا کہ یا الٰہی میں تو تیرے محبوب کی سب امت کی مغفرت کا طالب ہوں ، غیب سے ندا آئی کہ ایک اور حصّہ کو بخش دیا۔ عرض کیا نہیں میں اس وقت تک یہ مرقع رسولؐ نہ پہنوں گا جب تک کہ تو پوری امت مسلمہ کو نہ بخشے گا۔ ندا آئی کہ ایک اور حصّہ بخش دیا۔ اتنے میں حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ اس تاخیر کا سبب معلوم کرنے کیلئے آپ ؒ کے پاس تشریف لائے تو آپؒ نے ان کی آہٹ پا کر سجدے سے سر اُٹھاتے ہوئے کہا۔ آہ آپ ؓ اس موقع پر کیوں آئے اگر تھوڑا اور صبر کرتے تو میں جب تک دریائے مغفرت سے سیراب نہ ہوجاتا اپنا سر سجدہ سے نہ اُٹھاتا جب تک تمام امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ سے معاف نہ کرالیتا مرقع رسول نہ پہنتا‘‘۔ مزید نہایت اہم معلومات آپؒ کے بارے میں آپ ’’سوانح حیات مع شرح حضرت اویس قرنی ؒمؤلف جناب عبدالرحمن شوقؔ صاحب سے حاصل کرسکتے ہیں۔ میں نے بھی اس کتاب اور تذکرۃ الاولیاء سے یہ معلومات آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں۔ آپؒ کی وفات کے بارے میں مختلف اطلاعات ہیں، کہیں کہا گیا ہے کہ آپ جنگ صفین میں حضرت علیؓ کی فوج کی جانب سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تھے اور بعض میں کہا گیا ہے کہ آذربائیجان کی فتح کے دوران پیٹ میں درد سے رحلت پائی تھی۔
(نوٹ) سنیچر 13 فروری کے روزنامہ جنگ میں ایک صاحب نے میرے کراچی میں ایٹمی پاور پلانٹ کے بارے میں لکھے گئے کالم سے اختلاف کیا ہے۔ انہوں نے میرے بیان کردہ مرفی قانون کا حوالہ دے کر ان ایٹمی پلانٹس کی افادیت پر تنقید کی ہے۔ اگر ان کو اس قانون پرعمل کرنا ہے تو پھر تمام موٹرویز، کاریں اور ہوائی جہاز بند کرانے کی مہم چلانی چاہئے جن کی وجہ سے سالانہ لاکھوں لوگ ہلاک یا اپاہج ہوتے ہیں۔