ارشادِ ربانی ہے: ’’اے ایمان والو، اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو، بہت زیادہ ذکر۔‘‘(سورۃ الانفال۔ 45)
ذکرِ الٰہی درحقیقت اللہ کی عظمت و کبریائی کے اظہار اور بندے کا اپنے پروردگار سے ربط و تعلق کا اہم ذریعہ ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس کے قرآن و سنّت میں بے شمار فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ اللہ کا ذکر اور اُس کی حمد و ثنا بندے کا وہ عمل ہے، جو عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ اظہارِ بندگی کا ذریعہ اور اللہ کی رضا اور خوشنودی کا پروانہ ہے۔ صحابیِ رسولؐ، حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہُوا، اُس نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ ﷺ مجھے کچھ نصیحت فرمائیے۔‘‘ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تقویٰ کو اپنے اوپر لازم کرلو، اس لیے کہ وہ ہر چیز کا گنجینہ ہے، اور جہاد کو لازم کرلو اس لیے کہ وہ مسلمانوں کی رہبانیت ہے اور اللہ کا ذکر اور اُس کی کتاب کی تلاوت پابندی سے کرتے رہو، اس لیے کہ وہ تمہارے لیے زمین میں نور اور آسمانوں میں ذکر (چرچے) کا باعث ہوگا اور اپنی زبان کو خیر کے سوا ہر چیز سے روکے رکھو، اس طرح تم شیطان پر غلبہ پاسکتے ہو۔‘‘ (طبرانی)
اللہ کا ذکر وہ مجرب عمل اور نسخۂ کیمیا ہے، جس سے بندگانِ خدا کے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا اور اُن کے نفوس کا تزکیہ ہوتا ہے۔حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ہر چیز کی صفائی ہے، اور دلوں کی صفائی اللہ کا ذکر ہے اور کوئی شے اللہ کے عذاب سے بچانے والی ذکر سے بہتر نہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ)
حضرت ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اُس شخص کی مثال جو اپنے رب کا ذکر کرتا ہے، اور مثال اُس کی جو نہیں کرتا، زندہ اور مُردہ کی سی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
قرآن وسنت کی ان تعلیمات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ کا ذکر اور اس کی یاد بندگی کی بنیاد اور ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔یہ بندۂ مومن کا وظیفہ،اطمینانِ قلب کا ذریعہ اور اللہ کے قرب کا بہترین وسیلہ ہے۔