• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوویت یونین یا انقلاب روس کے ابتدائی سالوں کی بات ہے۔ اسٹالن کی وفات کے بعد حکمران کمیونسٹ پارٹی میں اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو گئی۔ جس میں کمیونسٹ پارٹی کا سیکرٹری اور اسٹالن کا قریبی ساتھی خروشیف کامیاب ہوا۔ وہ اسٹالن کے اقتدار کے دنوں میں اسکا سب سے زیادہ وفادار تھا۔ جب خروشیف کو اقتدار ملا تو اس نے کمیونسٹ پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں کو ایک ہال میں جمع کیا اور اپنی پہلی تقریر میں ہی اپنے لیڈرا سٹالن پر کڑی تنقیدکرنا شروع کردی۔ ہال میں موجود افراد کے لئے یہ سب کچھ حیران کن تھا ۔
خروشیف کی اسٹالن پرتنقیدی تقریر کے دوران ہال میں ہی موجود کسی شخص نے یہ لکھ کر اسے ایک پرچی ارسال کی کہ ، "جب اسٹالن اقتدار میں تھا تو آپ کہاں تھے؟" تقریرکرتے خروشیف نے پرچی پڑھی تو وہ غصے سے لال پیلا ہوگیا۔ اس نے چلا کرکہا ، کون ہے یہ شخص کس نے یہ پرچی بھیجی ہے ؟ سوویت یونین کے اپنے وقت کے سب سے طاقتور سربراہ خروشیف کا غصہ دیکھ کرہال میں خوف نے سایہ کرلیا اور مکمل خاموشی چھا گئی۔ اس پر وہ ایک بار پھر بولا، "میں بتانا چاہتا ہوں کہ جب اسٹالن اقتدار میں تھا تو میں بھی بالکل وہیں موجود تھا جہاں یہ پرچی لکھ کر بھیجنے والا موجود ہے"۔ اقتدار میں تعریف کرنے اور چاپلوسی کرنے والے ملتے ہیں جو آپ کے آگے پیچھے گھومتے ہیں ۔ مگر جو لوگ آپ کے اقتدار میں آپ کی چاپلوسی کریں اور اقتدار سے رخصت کے بعد تنقید کے تیر برسائیں یا برے وقتوں میں چھپ جائیں۔ ایسے لوگ موقع پرست تو ہوسکتے ہیں ایماندار سیاسی کارکن نہیں۔ لیکن ایمانداری اور موقع پرستی کا فیصلہ بھی آخر ہرانسان نے اپنا اپنا ہی کرنا ہوتا ہے ۔
اسٹالن اور خروشیف کا یہ واقعہ مجھے احتساب عدالت میں نوازشریف کے خلاف فیصلے کے وقت اس لئے یاد آیا کہ آج نوازشریف سے اس کے بعض قریبی رفقا اختلاف کررہے ہیں ،پارٹی چھوڑ رہے ہیں اور کچھ تو اس موقع سے اتنا فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہیں کہ وہ نوازشریف کو سرعام آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں اور شاید پارٹی پر بھی قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ اقتدارکے دنوں میں چوری کھانے والے اور برے وقتوں میں ساتھ چھوڑ جانے والوں کی اصل شکل میں نے جمعے کے روز احتساب عدالت میں دیکھی۔
صبح جلدی جلدی احتساب عدالت پہنچا تو رستے میں گمان تھا کہ نوازشریف کے خلاف ایون فیلڈ کیس میں عدالتی فیصلہ سننے ان کے بھائی اور مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف عدالت میں ضرور موجود ہونگے تاکہ علامتی طور پر بتا سکیں کہ وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ اس برے وقت میں دل و جان سے کھڑے ہیں ۔ ان سے سوال جواب بھی ہوگا اور ان کا فوری ردعمل بھی سامنے آئے گا۔ مگر میرا گمان گمان ہی رہا۔
اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں موجود عدالتی کمپلیکس پہنچا تو نوآبادیاتی دور کے طرز تعمیر سے کچھ ہی عرصہ قبل تیار کی گئی عدالتی عمارت تو اپنی شان و شوکت اور دبدبے کے ساتھ بدستور موجود تھی اور آج کچھ زیادہ ہی پرجلال نظر آرہی تھی۔ اس لئے بھی کہ شاید اسکی تعمیر کے بعد سے آج تک کی تاریخ کا سب سے بڑا فیصلہ آج اس عمارت میں سنایا جانا تھا۔ اس عدالتی کمپلیکس میں دس کے قریب مختلف عدالتیں موجود ہیں مگر آج اس اہم فیصلے کے باعث کسی عدالت میں کوئی کیس نہیں لگایا گیا تھا لہذا سائلین بھی کہیں نظر نہیں آرہےتھے۔
عمارت کا عدالتی دبدبہ موجود تھا مگر اقتدار کے دنوں احتساب کیسز میں نوازشریف اورمریم نواز کی پیشی کے موقع پر عدالت کے احاطے کے باہر لیگی کارکنوں اور رہنمائوں کا روایتی رش موجود نہیں تھا۔ آج وہ چہرے بھی کہیں دکھائی نہیں دے رہےتھے جونوازشریف اور مریم نواز کی پیشی کے موقع پر نظر آجاتے تھے۔
میں توقع کررہا تھا کہ عدالت میں مجھے کم ازکم اسلام آبا د کے لیگی عہدیداران ضرور نظر آئیں گے لیکن حضور اسلام آباد سے سابق وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری بھی آج عدالت آنا بھول گئے تھے باوجود اس کے کہ وہ اسلام آباد کے ہی رہائشی ہیں۔ ن لیگ کے دور میں انہیں اور ان کے خاندان کو اسلام آباد میں سب سے زیادہ نوازا گیا تھا۔ عدالت نے فیصلے کا وقت دوبار تبدیل کیا تو کسی نے طارق فضل چوہدری کو فون کرکے یاد دلایا تو وہ بھاگے بھاگے دن اڑھائی بجے کے قریب عدالت آگئے۔ بیرسٹر ظفر اللہ بھی عدالت پہنچے مگر حیران کن بات یہ تھی کہ مسلم لیگ نے ملک بھر توکجا اسلام آباد میں بھی احتجاج کے لئے اپنے کارکنوں کو کسی قسم کی کال نہیں دے رکھی تھی۔ اسلام آباد راولپنڈی سے ن لیگ کا دوسرا کوئی انتخابی امیدوار عدالت تو کجا عدالت کے آس پاس بھی نہ تھا۔
تاہم عدالت کے باہر میری ن لیگی رہنما عدنان کیانی سے ضرورملاقات ہوئی ۔ کیانی اسلام آباد سے ن لیگ کے ٹکٹ کے امیدوار تھے ، ٹکٹ نہ ملا مگر انہوں نے پارٹی سے وفاداری بھی نہ چھوڑی۔ عدنان کیانی کے ہمراہ صرف پانچ کے قریب لیگی خواتین نوازشریف کے حق میں نعرے بلند کررہی تھیں۔
عدالت کے احاطے میں پہنچا تو ڈاکٹر آصف کرمانی عدالت کے مرکزی دروازے پر اندر جانے کی اجازت کا انتظار کررہے تھے ۔ انہیں دربانوں نے روک رکھا تھا کہ اجازت کے بغیر آپ اندر نہیں جاسکتے۔ ابھی چندروز قبل تک ضلعی انتظامیہ کے افسران ڈاکٹر کرمانی کےآگے پیچھے ہوا کرتے تھے اور اب وہی ڈاکٹر کرمانی عدالت میں داخلے کے لئے اسی افسر شاہی کی اجازت کے منتظر تھے۔
میرا خیال تھا کہ نوازشریف کے داماد کیپٹن صفدر عدالت ضرور آئیں گے ۔ نوازشریف کی عدم موجودگی میں وہ باقاعدگی سے عدالت حاضری دیتے رہے ۔ مگر حیران کن طورپر وہ بھی عدالت میں موجود نہیں تھے ۔ پتہ چلا کہ وہ مانسہرہ میں اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق رات دوبجے انہیں لندن سے ایک فون کال کے ذریعے عدالت جانے سے منع کردیا گیا تھا۔
عدالت کے احاطے میں دس کے قریب لیگی وکلا موجود تھے ۔ جن میں چار پانچ خواتین وکلا بھی شامل تھیں۔ عدالت کا احاطہ پولیس اور محکمہ زراعت کے اہلکاروں سے بھرا تھا مگر سب سے زیادہ ہم صحافی اس احاطے میں موجود تھے۔ عدالت کے اندر جانے کے لئے صرف پندرہ صحافیوں کو اجازت تھی ۔ مگر احاطے میں ساٹھ سے زائد صحافی اندر جانے کے منتظرتھے۔ ایسا کوئی صحافی عدالت کے اندر نہیں جا سکتا تھا کہ جسکا نام پہلے سے طے شدہ پندرہ صحافیوں کی فہرست میں شامل نہ ہو۔ ان پندرہ افراد میں بھی جس شخص پر اعتراض کردیا جائے تو وہ عدالت میں دوبارہ داخل نہیں ہوسکتا تھا۔
عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا ، تو پہلے نوازشریف کے وکیل کی طرف سے عدالتی فیصلہ سات روز کے لئے موخر ہونے کی درخواست مسترد ہوئی مگر فیصلہ پھر بھی نہ سنایا گیا اور بتایا گیا کہ فیصلہ ساڑھے بارہ بجے آئے گا۔ پھر دن ڈھائی بجے ، پھر تین بجےاور آخر میں ساڑھے تین بجے تک فیصلہ موخر کردیا گیا ۔ معاملہ تین بجے اورپھر چاربجے تک موخر کیا گیا۔ بتایا گیا کہ سو کے قریب صفحات کی نقول تیار کرنے اور ان کی ترتیب درست کرنے میں وقت لگے گا اس لئے فیصلے میں تاخیر کی جارہی ہے ۔ اس سارے عرصے میں دلچسپ بات یہ تھی کہ چونکہ کمرہ عدالت میں صرف پندرہ صحافیوں کو جانے کی اجازت تھی اس لئے باقی تمام صحافی کمرہ عدالت کے بالکل سامنے ایک لیٹرین کی عمارت کی بیرونی جانب کھلنے والی کھڑکی کے سامنے کھڑے ہوگئے جہاں سے کمرہ عدالت کے اندر سے ایک صحافی آکر انہیں بریفنگ دیتا رہا اور باہر کھڑے صحافی اپنے اپنے دفاتر کو وقتاََ فوقتاََ اپ ڈیٹس دیتے رہے ۔ انتظار کا وقت ختم ہوا اور فیصلہ آگیا۔ فیصلہ وہی ہوا جوتوقع تھی۔ جرمانوں کے ساتھ نوازشریف کو دس سال ، مریم کو سات سال اور کیپٹن صفدر کو ایک سال کی سزا ہوگئی ۔
اب نوازشریف اور مریم نواز کو اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنا ہوگا۔ مگر اس سب کے لئے ان کے پاس صرف دس دن ہیں۔ دس دن کے اندر انہیں پاکستان واپس آکر گرفتاری دینا ہوگی تاکہ وہ ہائیکورٹ میں اپیل بھی کرسکیں۔
تاریخ نوازشریف کو ایک ایسے دوراہے پر لے آئی ہے جہاں ایک طرف ان کی رفیق حیات زندگی اور موت کے بیچ ایک تنےہوئے رسے پر چل رہی ہیں تو دوسری جانب ملک میں آئین اور سویلین بالادستی کے حامی عوام نوازشریف کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کیا نوازشریف اس جنگ میں گرفتاری دیکر عوام کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا لندن میںرہ کر اپنی گھریلو مجبوریوں کے ساتھ؟ فیصلہ بہرحال نوازشریف نے ہی کرنا ہے۔

تازہ ترین