• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کالم پڑھتے وقت، ایون فیلڈ ریفرنس کے حوالے سے صورتحال آپ کے سامنے آچکی ہو گی۔مختلف امکانات کی تفصیل میں جانا بے کار ہے۔ اب سوال صرف یہ باقی رہ جائے گا کہ یہ فیصلہ ہماری ملکی سیاست پر کیا فوری اور دور رس اثرات ڈالتا ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ اب جبکہ انتخابات میں صرف انیس دن باقی رہ گئے ہیں، یہ فیصلہ عوام کے دل و دماغ پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے، ووٹ کے حوالے سے انکی رائے میں کیا تبدیلی آتی ہے اور اگر ابھی تک انہوں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا، تو اب وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
تین چار دن قبل تین مختلف اداروں کے انتخابی جائزے نیوز، جنگ اور جیو کی زینت بنے ہیں۔ گیلپ،پلس اور آئی۔ پی۔او۔آر کے جائزے ملی جلی تصویر پیش کرتے ہیں۔ ایک حقیقت تو یہ سامنے آئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا گراف نیچے آیا ہے۔ اسکے مقابلے میں پی ٹی آئی کا گراف اوپر گیا ہے۔ قومی سطح پر دونوں جماعتیں تقریباََیکساں مقبولیت کے نقطے پر کھڑی ہیں۔ البتہ پنجاب میں تینوں جائزوں کے مطابق مسلم لیگ (ن) کو آج بھی برتری حاصل ہے۔ اگر تینوں اداروں کے اعداد و شمار کا اوسط نکالا جائے تو پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو 45 فیصد، تحریک انصاف کو 29 فیصد اور پیپلز پارٹی کو پانچ فیصدووٹرز کی حمایت حاصل ہے۔ اصل انتخابی معرکہ پنجاب ہی میں لڑا جانا ہے۔ مرکزی حکومت وہی جماعت بنا پائے گی جو پنجاب کی148 نشستوں میں سے قومی اسمبلی کی خاطر خواہ سیٹیںجیت سکے گی۔ اگر ان اعداد و شمارکو اہمیت دی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ چاروں صوبوں میں 2013 والی صورتحال موجود رہے گی یعنی پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، سندھ میں پیپلز پارٹی، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف اور بلوچستان میں ملی جلی حکومتیں بنیں گی۔ تاہم وفاق کے حوالے سے پیش بینی ذرا مشکل ہے۔
میرا موضوع انتخابی جائزوں سے ذرا مختلف ہے۔ میری نظر میں ان سوالات کی زیادہ اہمیت نہیں رہی کہ کونسی جماعت اکثریت حاصل کرتی ہے۔ کونسی جماعت کن دوسری جماعتوں سے مل کر وفاق میں حکومت بناتی ہے۔ عمران خان، شہباز شریف اور بلا ول بھٹو میں سے کون وزیر اعظم بنتا ہے یا انکے علاوہ وزارت عظمیٰ کس کا مقدر بنتی ہے۔ ظاہر ہے اگر انتخابات ہو رہے ہیں تو صوبوں کیساتھ ساتھ وفاق میں بھی کسی نہ کسی طرح کا کوئی حکومتی ڈھانچہ بن ہی جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آنے والے پانچ سال، گزر جانے والے پانچ سالوں سے مختلف ہونگے؟ کیا ملک واقعی سیاسی استحکام سے ہم کنار ہو جائے گا؟ کیا افرا تفری اور بے یقینی دور ہو جائے گی؟ کیا ملکی معیشت کو فروغ ملے گا؟ کیا تعمیر و ترقی کا عمل تیز ہو جائے گا؟ کیا ادارہ جاتی کشمکش ختم ہو جائے گی؟ کیا صوبوں اور وفاق کے درمیان ہم آہنگی میں اضافہ ہو گا؟ کیا خارجہ پالیسی میں بہتری آجائے گی؟ کیا اداروں کے دبائو کے نتیجے میں کمزور ہو جانے والی پارلیمنٹ مضبوط ہو جائے گی؟ کیا تمام اہم ادارے اپنے آپ کو آئین کی طے کردہ حدود تک محدود کر لیں گے؟ اور سو سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ کیا جو کچھ ہو رہا ہے اسکے بعد جولائی 2018 کے انتخابی نتائج کو تمام جماعتیں ، با لخصوص مسلم لیگ (ن) کھلے دل سے تسلیم کر لے گی؟
حالات بتا رہے ہیں کہ انتخابی عمل پر قوم کا یقین کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ شہروں میں ہی نہیں دور دراز کے دیہات میں بھی لوگ اس طرح کی باتیں کرنے لگے ہیں کہ ایک خاص جماعت اور اس سے وابستہ لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی اس طرح کا واقعہ سامنے آجاتا ہے جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں۔ ایک جماعت کے بڑے بڑے امیدواروں کی پیشیاں ابھی تک جاری ہیں۔ کچھ کی عدالتوں میں اور کچھ کی نیب میں۔ ساٹھ سے زیادہ افراد آزاد امیدواروں کے طور پرـ" جیپ " کے نشان پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ان میں درجن بھر ایسے ہیں جنہوں نے عین آخری لمحے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ واپس کر کے "جیپ "کے انتخابی نشان لے لئے۔ آزاد ارکان کی خاصی تعداد دوسرے صوبوں میں بھی موجود ہے۔
تجزیہ کاروں کی اکثریت یہ کہہ رہی ہے کہ یہ سارا عمل ایک hung یعنی معلق پارلیمنٹ کا باعث بننے جا رہا ہے۔ معلق پارلیمنٹ کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایک سیاسی جماعت کو واضح بالا دستی حاصل نہیں ہو گی ا ور وہ اپنی حکومت بنانے کیلئے سمجھوتوں پر مجبور ہو گی۔ حکومت برقرار رکھنے کیلئے ان سمجھوتوں کا سلسلہ پھیلتا چلا جائے گا۔ پاکستان ایک مضبوط وفاقی حکومت سے محروم رہے گا اور حالات گزشتہ حکومتوں کے دو ادوار سے بھی زیادہ خراب ہو جائیں گے۔ سی پیک کے منصوبے کو پاکستان کے روشن مستقبل کے حوالے سے زبردست اہمیت دی جا رہی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف کے وزارت عظمیٰ سے ہٹتے ہی سی پیک کے منصوبوں کی رفتار بھی سست پڑ گئی ہے۔ چین کھلے عام اپنے خدشات کا اظہار کر رہا ہے۔
بہت سی کمپنیاں تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو کے اصول پر بڑی باریکی سے حالات کا جائزہ لے رہی ہیں۔ ہمارے پڑوسی بھی ہم پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ اسلام آباد میں ایک کمزور اور مسائل میں الجھی ہوئی حکومت انکے لئے یقیناََ خوشی کا باعث بنے گی اور پاکستان کے مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔
اور اب آئیے سب سے بڑے سوال کی طرف کہ کیا سیاسی جماعتیں ، بالخصوص مسلم لیگ (ن) کھلے دل سے انتخابی نتائج تسلیم کر لے گی؟ ایسا نہیں لگتا۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابات سے پہلے، انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی ایسی واضح مثالیں ماضی میں نہیں ملتیں۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ایک خاص جماعت کو وفاق میں اکثریت حاصل کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ اور ایک خاص جماعت کیلئے آسانیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ وہ جو کہا جاتا ہے کہ تاثر ، حقیقت سے بھی زیادہ مضبوط ہوتا ہے تو یہ تاثر شہروں اور دیہات میں یکساں طور پر جڑ پکڑ چکا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا راستہ روکا جا رہا ہے۔ جو عمل بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا تختہ الٹنے سے شروع ہوا ،وہ سینٹ انتخابات اور صادق سنجرانی کی چیئرمین شپ سے ہوتا ہوا اب یہاں تک آن پہنچا ہے کہ نام نہاد الیکٹبلز کی بڑی تعداد( ن) لیگ کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں جا چکی ہے اور آزاد امیدواروں کی ایک بڑی کھیپ "جیپ" میں سوار ہو گئی ہے۔ جیسے جیسے 25 جولائی قریب آ رہا ہے، یہ آوازیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی انتخابات کی شفافیت اور ساکھ سے متعلق اپنے تحفظا ت اور خدشات کا اظہار کیا ہے۔ بلاول نے کھل کر کہا ہے کہ ایک مخصوص جماعت کو "کنگز پارٹی " بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
عمران خان صاحب نے 2013 کے انتخابات کے بعد دھاندلی کے نام پر پورے پانچ سال ایک طوفان اٹھائے رکھا اور" گو نواز گو "کے نعرے کو عملی جامہ پہناکے چھوڑا۔ انکے پاس ایک بھی ٹھوس ثبوت نہ تھا۔ یہاں تک کہ عدالتی کمیشن نے بھی منظم دھاندلی کی نفی کر دی۔ کیا موجودہ صورتحال میں اگر خان صاحب مانگے تانگے کے ارکان کیساتھ وزیر اعظم بن بھی گئے تو سب سے بڑے صوبے کی حد تک مسلمہ طور پر سب سے بڑی جماعت ، ٹھوس شواہد کیساتھ انہیں چین لینے دے گی؟ اس صورت حال کا پی ٹی آئی پر ہی نہیں ملکی حالات پر جو اثر پڑے گا، کسی کو اس کا اندازہ ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین