• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دولت مند غریب

انوار آس محمد

کباب کی خوشبو شہزاد کی بھوک میں اضافہ کررہی تھی، لیکن وہ لوگوں کو صرف حسرت کی نگاہ سے کباب کھاتا دیکھ سکتا تھا۔ بڑی سی گاڑی میں بیٹھے سیٹھ فرید، پلیٹ بھر کر سیخ کباب اور شامی کباب گرم روٹی سے کھا رہے تھے، ان کا بیٹا شہزاد کا ہم عمر ہوگا، وہ بھی ملائی بوٹی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ یہ لوگ اکثر اس ہوٹل پر آتے تھے۔ شہزاد اس ہوٹل کے بیرونی حصے میں ویٹر کی نوکری کرتا تھا۔ اس کی ذمہ داری ہوٹل کے سامنے کھڑی گاڑیوں میں آئے ہوئے لوگوں سے آرڈر لینا اور ان کو کھانا پیش کرنا تھا شہزاد کا ایک غریب چچا کے سوا کوئی نہ تھا، جن کے ساتھ وہ رہتا تھا۔

ابھی اسے ہوٹل میں کام کرتے ہوئے چند مہینے ہی ہوئے تھے۔ اسے معمولی تنخواہ ملتی تھی، جس سے جیسے تیسے گزارہ ہو رہا تھا۔ جس ہوٹل میں وہ کام کرتا تھا، وہاں کا کھانا بہت مہنگا تھا۔ شہزاد کی اتنی حیثیت نہیں تھی کہ وہ وہاں سے کھانا خرید کر کھا سکے، البتہ کبھی کبھار جب ہوٹل کے مالک خوش ہوتے تو تمام ویٹروں کو کھانا کھلا دیتے تھے، لیکن ایسا بھی مہینے میں ایک آدھ بار ہی ہوا کرتا تھا، شہزاد کی خواہش تھی کہ، ’’کاش وہ بھی امیر ہوتا، خود کھانا خرید کر کھاتا، کوئی ویٹر اس کو بھی بڑے ادب سے کھانا پیش کرتا، اس کا حکم مانتا‘‘، لیکن اس کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آرہی تھی۔ وہ احساسِ کمتری کا شکار ہوتا جارہا تھا، سیٹھ فرید کو حسرت سے دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ یہ کتنے خوش نصیب ہیں اور میں کتنا بدنصیب ہوں وہ ایسا سوچ کر اُداس ہو جاتا تھا۔ اس کے چچا اکثر کہا کرتے تھے کہ، ’’اُداس نہ ہوا کرو، دنیا میں ہر انسان کی زندگی مختلف ہوتی ہے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے کس مصلحت کی وجہ سے کس انسان کو کیسی زندگی عطا کی ہے۔ ہمیں ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے‘‘۔

وہ اکثر چچا سے پوچھتا کہ، ’’لیکن چاچا، ہم ہی غریب کیوں ہیں؟‘‘۔ چچا اسے پیار سے سمجھاتے کہ، ’’بیٹا! دنیا میں صرف ہم ہی نہیں لاکھوں افراد غریب ہیں، امیر لوگوں کے اپنے مسائل ہوتے ہیں اور غریبوں کے اپنے، اللہ سب کو آزماتا ہے۔ دنیا میں کس کو ہمیشہ رہنا ہے بھلا! کام یاب وہ ہے، جو اللہ کی رضا میں راضی رہے‘‘۔ شہزاد، اکثر چچا سے بحث کرتا اور کبھی کبھار اسے چاچا کی باتوں سے سکون بھی مل جاتا، لیکن چند دنوں میں وہ سب باتیں بھول کر پھر سے اداس ہوجاتا تھا، اس دن بھی شہزاد بہت اداسی سے لوگوں کو کھانا کھاتے دیکھ رہا تھا۔ بارش کا موسم تھا، لوگ تفریح کررہے تھے اور ہجوم بھی بہت زیادہ تھا۔ سیٹھ فرید کی گاڑی دیکھ کر اُداس ہونے لگا اور بوجھل قدموں سے وہ ان کی گاڑی کے پاس کھانے کا آرڈر لینے گیا، ’’جی صاحب کیا کھانا پسند کریں گے؟‘‘ شہزاد نے ان سے پوچھا۔

سیٹھ صاحب کے چہرے پر اُداسی سی پھیل گئی، ’’بیٹا! آئسکریم لادو‘‘،

شہزاد حیران ہوا، کیوں کہ سیٹھ فرید کچھ نہ کچھ ضرور کھاتے تھے، آج ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ انہوں نے صرف آئسکریم کی فرمائش کی، اسی دوران ہوٹل کے مالک جو کہ سیٹھ فرید کے دوست تھے، وہ بھی وہاں پہنچ گئے اور کہا، ’’فرید صاحب آج صرف آئسکریم سے پیٹ بھریں گے کیا؟‘‘

سیٹھ فرید کی اُداسی میں مزید اضافہ ہوگیا کہنے لگے کہ، ’’بس بہت کھاپی لیا اب تو ہم صرف آئسکریم ہی کھاسکتے ہیں‘‘، ’’وہ کیوں خیریت‘‘ قمر صاحب نے حیرت سے پوچھا۔

’’کیا بتاؤں قمر صاحب، مجھے گلے کا کینسر ہے۔ فی الحال میں آئسکریم کے علاوہ کچھ نہیں کھاسکتا، ڈاکٹر نے سختی سے منع کیا ہے‘‘۔ سیٹھ فرید آہستہ آہستہ بول رہے تھے۔ شاید ان کے گلے میں درد ہورہا تھا، شہزاد سیٹھ فرید کی بات سن کر حیران و پریشان ہوا اور آئسکریم لینے چلا گیا۔ سیٹھ فرید اپنا حال بیان کررہے تھے اور شہزاد کے ذہن میں چچا کی باتیں گونج رہی تھی کہ اللہ سب کو آزماتا ہے۔ شہزاد کے پاس دنیا کی سب سے بڑی دولت، ’’صحت‘‘ تھی۔ اچانک اسے لگا کہ وہ سیٹھ فرید سے بھی زیادہ امیر ہوگیا ہے۔ جس پر اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔

تازہ ترین