• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام مخالف مقابلہ اور سوشل میڈیا ٹیموں کی ذمہ داری

گزشتہ ہفتہ ایک ٹی وی چینل نے مجھ سے رابطہ قائم کیا اور ایک مغربی ملک کی پارلیمنٹ کے ممبر کی طرف سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کا مقابلہ کروانے کے اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے میری رائے جاننے کی کوشش کی تو تب مجھے اس اسلام مخالف حرکت کا پتا چلا۔ اب سوشل میڈیا پر اس اسلام مخالف اقدام کو روکنے کے لیے مسلمانوں کی طرف سے ایک ردعمل بھی دیکھنے کو مل رہا ہے جس کا مقصد ایک پریشر قائم کرنا ہے تا کہ گستاخانہ خاکوں کے اس مقابلہ کو روکا جاسکے ۔ لیکن افسوس کہ ابھی تک کسی اسلامی ملک کی طرف سے اس مسئلہ پر کوئی احتجاج سامنے نہیں آیا۔ نہ پاکستان بولا، نہ سعودی عرب، نہ ترکی نہ ایران اور نہ ہی کسی دوسرے اسلامی ملک اور اُس کے رہنما کی طرف سے کوئی بات سامنے آئی۔ میں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں بھی لکھا تھا کہ مسلمان ممالک اور اُن کے حکمرانوں کو ایسے اسلام مخالف اقدامات پر خاموشی کی بجائے مسلمانوں کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے فوری ردعمل دینا چاہیے اور ان واقعات کو روکنے کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل بنانا چاہیے تاکہ آئے روز مغرب کی طرف سے آزادی رائے کے نام پر اسلام مخالف اور گستاخانہ حرکتوں کا سلسلہ رُکے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو ایسے پرامن لیکن پر اثر احتجاج کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو استعمال کر کے دنیا کو یہ بتانا چاہیے کہ کس طرح کوئی ایک فرد یا چند افراد اپنی شیطانی سوچ کی بنا پر ایسی حرکت کرتے ہیں جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے انتہائی تکلیف اور دکھ کا باعث بنتا ہے۔ اس کے نتیجے میں تشدد بھی جنم لیتا ہے اور لوگوں کی جان و مال کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ مغرب میں رہنے والی اکثریت ایسے اسلام مخالف اقدام کا حصہ نہیں ہوتے۔ اُن کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ چند شیطان صفت افراد کس طرح مسلمانوں کو شدید دکھ اور تکلیف پہنچاتے ہیں جسے کسی بھی صورت میں آزادی رائے کے نام پر برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ مغرب کو اس بات کا بھی احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ چند افراد کی وجہ سے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان نفرتیں پیدا ہوتی ہیں اور تشدد جنم لیتا ہے۔ آج صبح (بروز اتوار) میں نے ٹیوٹر پر اس تازہ اسلام مخالف مقابلہ کے اعلان کے خلاف اور اسے روکنے کے لیے عام پاکستانیوں کا ایک ٹرینڈ دیکھا جو کافی مقبول ہوا لیکن مجھے اس میں سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا کی شمولیت کہیں نمایاں نظر نہیں آئی۔ یہ مسئلہ ہر مسلمان کا ہے اس لیے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ہم سب کو مل کر مغرب میں اسلام مخالف گستاخانہ اقدامات کو روکنے کے لیے یک زبان ہونا پڑے گا۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں تحریک انصاف اور ن لیگ کے سوشل میڈیا ٹیموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہزاروں یا لاکھوں افراد پر مشتمل ہیں۔ جماعت اسلامی کی بھی میڈیا ٹیم با اثر ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ عمران خان ، مریم نواز، سراج الحق اور دوسرے رہنما جو سوشل میڈیا میں موجود ہیں وہ بھی گستاخانہ خاکوں کو رکوانے کے لیے خود بھی بیان دیں اور اس سلسلے میں اپنی اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کو بھی سرگرم کریں تاکہ اس انداز میں آواز اٹھائی جائے جسے مغرب سننے پر مجبور ہو جائے۔ اپنی اپنی سیاست کے لیے اور اپنے اپنے سیا سی رہنمائوں کو ہیرو بنانے کے لیے یہ سوشل میڈیا ٹیمیں دن رات کام کرتی ہیں اور نئے نئے طریقے متعارف کرواتے رہتے ہیں۔ جب اسلام مخالف پروپیگنڈہ ہو اور جب اُن پاک ہستیوں جن سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہو اُن کی بے حرمتی کی جائے تو اس پر ان سوشل میڈیا ٹیموں کا ردعمل ایسا ہونا چاہیے جو مسلمانوں کے جذبات کی عکاسی کرے، جو عام مسلمانوں کو تعلیم دے کہ ایسے وقت میں کیسا ردعمل دینا چاہیے، جو مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے سوئے ہوئے ضمیروں کو جگائے اور جو مغرب کو بتائے کہ ایسی اسلام مخالف حرکتیں فتنہ تو ہو سکتی ہیں لیکن کسی طور پر اُنہیں آزادی رائے کے اظہار کے دائرہ میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین