• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ذیابطیس پر اچھا کنٹرول رہے

ڈاکٹر عبد التوحید خان

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں26فی صد افراد ذیابطیس کا شکار اور19 فی صد اپنے مرض سے لاعلم ہیں،جب کہ ایک بہت بڑی تعدادعلاج معالجے کے معاملے میں لاپروائی برتتی ہے۔ نیز، تقریباً35سے40ملین بچّے بھی(20سال سے کم عُمر)اس مُوذی مرض میں مبتلا ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میںذیابطیس کے مریضوں کی تعداد کے اعتبار سےپاکستان ساتواں بڑا مُلک ہے اور اگر مناسب اقدامات نہ کیے گئے، حفاظتی اور احتیاطی تدابیر نہ اپنائی گئیں، تو خطرہ ہے کہ2030 ءتک یہ چوتھا بڑامُلک بن جائے گا۔

ذیابطیس کی مختلف اقسام میں سے دو زیادہ قابلِ ذکر ہیں۔پہلی قسم ذیابطیس ٹائپ وَن کہلاتی ہے،جونسبتاً کم عُمری میںمتاثر کرتی ہے اوراس کے علاج کے لیےمریض کو ابتدا ہی سے انسولین کے استعمال کی ضرورت پڑجاتی ہے۔ دوسری قسم ،ذیا بطیس ٹائپ ٹو ہے،اس میں لبلبہ یا تو کم مقدار میں انسولین بناتا ہے یا پھر انسولین اپنا کام صحیح طریقے سے انجام نہیں دے پاتی۔ٹائپ ٹو کے شکار مریض انسولین کے علاوہ ادویہ کا بھی باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں۔

یہ قسم کسی بھی فردکوعُمر کے درمیانی حصّے کے بعدمتاثر کرتی ہے۔ذیابطیس کی عمومی علامات میں بار بار پیاس لگنا، پیشاب کی زیادتی، کم زوری، سُستی، کام میں دِل نہ لگنا، مختلف اعضاء میں درد، ہاتھوں پیروں میں جلن کا احساس، نظر کا دھندلانا، وزن کم ہونا (گرچہ خوراک زیادہ ہو)، ہاتھوں پیروں کا سُن ہونا یا ان میں احساس کم ہونا اور زخموں کا تاخیرسے مندمل ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ذیا بطیس کا ٹیسٹ بہت آسان ہی نہیں، سستا بھی ہے،جو خون کےنمونےسے کیا جاتا ہے۔یہ مرض صرف لبلبے ہی کو متاثر نہیں کرتا، بلکہ جسم کے دیگر اعضاء بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں،کیوں کہ خون میں موجود گلوکوز(شکر) جسمانی اعضاء اور خلیات تک پہنچ نہیں پاتا اور درست طور پر تحلیل نہ ہونے کی صورت میں توانائی بھی پیدا نہیں کرتا۔

یوںگلوکوز کی زائد مقدار مضر اثرات کا سبب بن جاتی ہے۔تاہم،درست علاج، متوازن طرزِ زندگی، کھانے پینے میں احتیاط،پرہیز، باقاعدگی سےمعائنے اورمستقل مزاجی سے ادویہ کا استعمال، خطرناک پیچیدگیوں سے خاصی حد تک محفوظ کردیتا ہے ،لیکن بدقسمتی سے ہمارے مُلک میںزیادہ تر مریض ان معاملات میں کوتاہی برتتے ہیں،یوں مرض پیچیدہ ہوکر کسی معذوری کا سبب بن جاتا ہے۔علاوہ ازیں،بعض مریض محض اس لیے باقاعدگی سے ادویہ استعمال نہیں کرتے کہ کہیں ہم ان کے عادی نہ ہوجائیں،جو قطعاً درست طرزِ عمل نہیں۔

ذیابطیس کی پیچیدگیاں اعضائے رئیسہ اور مختلف جسمانی نظام کو متاثر کرسکتی ہیں۔مثلاً اگر یہ مرض آنکھوں کو متاثر کرے، تو پیچیدگیاں، بینائی میں کم زوری، دھندلاہٹ، اندھےپن اور آنکھ کے اندرونی پردے کے عوارض کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔دِل اور شریانوں پر ذیابطیس کے اثرات دِل کے دورے، انجائنا، بُلند فشارِخون اور فالج کی صورت ظاہر ہوتے ہیں۔یہ مرض گُردوں کے افعال میں بھی خرابی کا سبب بن جاتا ہے۔انتہائی حالات میں بعض مریضوں کے گُردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور تاحیات ڈائی لیسسز یا پھر گُردوں کی پیوند کاری کی جاتی ہے۔ذیابطیس کے مریضوں میں پاؤں کے امراض اور ان کی پیچیدگیوں کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں کہ اعصابی نظام میں خلل کے باعث پاؤں سُن ہو جاتے ہیں اور گرم، سرد اورچوٹ لگنے کا احساس نہیں ہوتا۔اس حالت میں کسی قسم کی بھی چوٹ انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے ، کیوں کہ سب سے پہلے انفیکشن پاؤں اور پھر پوری ٹانگ تک پھیل جاتا ہے اوراگر بروقت علاج نہ کروایا جائے، تو پیر یاٹانگ کاٹنے تک کی نوبت آسکتی ہے۔

اس پیچیدگی سے محفوظ رہنے کے لیےپیروں کا خصوصی خیال رکھیں،مناسب جوتا پہنیں،ننگے پیر چلنے سے گریز کریں، پیر سادے پانی سے دھوئیں اور سردیوں میں نیم گرم پانی کا استعمال کریں،پاؤں دھونے یا نہانے کے بعد خشک کرلیں۔ جب کہ ہاتھوں اور پیروں کے ناخن احتیاط سے تراشے جائیں۔اگر پیروں میں کوئی مسئلہ ہو،تو اپنے معالج سے ضرور مشورہ کریںکہ بروقت تشخیص و علاج سے پیر بچائےجاسکتے ہیں۔اسی طرح اگرجسم کا کوئی حصّہ سُن ہوجائے، پیشاب یا پاخانہ خطا ہونے لگے یا کنٹرول نہ رہے، تو فوری طور پر ماہر معالج سے رابطہ کریں۔یاد رکھیے،اگر مرض پر قابو نہ ہو،کولیسٹرول بڑھا ہو اور بُلند فشارِ خون کی بھی شکایت ہو، تو ذیا بطیس کے مریضوں میں فالج کا خطرہ دیگر افراد کی نسبت کہیں بڑھ جاتا ہے۔

ذیابطیس کے علاج کے دو اہم مقاصد ہیں۔ پہلا، صحت برقرار رکھنا اور دوسرا، مریض کو پیچیدگیوں سے تحفّظ فراہم کرنا۔ذیا بطیس کےمضراثرات اور پیچیدگیوں سے محفوظ رہنے کے لیے چند اقدامات نہایت ضروری ہیں،مثلاًخون میں شکر کی مقدار پابندی سے جانچی جائے۔ وزن اعتدال میں رہے۔ HbA1c، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول پر قابو رہے۔ سال میں ایک بار لازماً اپنا تفصیلی معائنہ کروایا جائے،جس میں خون میں چکنائی ،گُردوں کے افعال، دِل کی کیفیت ،آنکھوں اور پیروں کا معائنہ شامل ہو۔ادویہ کی پابندی تو انتہائی ضروری ہے،جب کہ ورزش ماہر معالج کےمشورے اورہدایات کے مطابق ہی کریں۔ذیابطیس کے مریضوں میںعموماً کسی بھی سبب خون میں شکر کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔

گرچہ تمام مریضوں کی علامت ایک جیسی نہیں ہوتیں۔تاہم، چند عمومی علامات جو زیادہ تر ظاہر ہوتی ہیں، اُن میں زائد پسینہ، بھوک لگنا، چکر آنا، اعصابی تناؤ، زبان میں لڑکھڑاہٹ، ہاتھوں پیروں کا بے قابو ہونا، متلی، سَر درد اور تھکن کا احساس وغیرہ شامل ہیں۔اگر ان میں سے کوئی بھی علامت نمایاں ہو،تو کوئی میٹھی شے کھالیں۔ بے ہوش ہوجانے کی صورت میں مریض کو فوری طور پرقریبی اسپتال یا طبّی مرکز لے جائیں۔علاوہ ازیں، مریض ہمیشہ اپنے پاس ایک کارڈ رکھے، جس پر اُس کا نام،پتا، کسی قریبی عزیزکا ٹیلی فون نمبر مرض کی نوعیت، دوا کا نام وغیرہ درج ہو، تاکہ ایمرجینسی کی صورت میں کوئی مسئلہ پیش نہ آئے۔

خون میں شکر کی مقدارمتوازن رکھنے کے لیے تین بنیادی اصول اپنانا ضروری ہیں۔متوازن طرزِزندگی،باقاعدگی سےادویہ کا استعمال اورورزش، جب کہ کھانے پینے میں احتیاط بھی لازم ہے۔کھانے میں چکنائی کی مقدار کم سے کم ہو، میٹھی اشیاء مثلاً شکر، گُڑ، شہد، مٹھائی، جام، جیلی، کیک، پیسٹری، نان خطائی، بسکٹ، چاکلیٹ، کولڈ ڈرنک، پھلوں کے رس، گنے یا گنڈیری، کھجور، انجیر، کشمش، آئس کریم، شربت اور پڈنگ وغیرہ کے استعمال سے پرہیزکیا جائے، جب کہ روٹی، ڈبل روٹی، بیسن سے بنی روٹی، دلیا، دالیں، بُھنے ہوئے چنے، تربوز، کینو، مالٹا، جامن، خوبانی، آڑو، پپیتا، سیب، خربوزہ، کیلا، آلو بخارا، فالسے، امرود، مرغی، بغیر چربی کا گوشت، مچھلی، انڈے، پنیر، بغیر بالائی کے دودھ، دہی اور لسّی،کھانے کا تیل، مارجرین، شکرقندی، گاجر، اروی، آلو، مکئی، پھلیاں اورمٹر وغیرہ احتیاط سے استعمال کرسکتےہیں، جب کہ بھنڈی، پھول گوبھی، کدّو، پالک، ساگ، ہرے پتّوں والی سبزیاں، ہری مرچ، توری، سلاد، کریلا، لیموں، مولی، پیاز، بینگن، ککڑی، کھیرا، چقندر، شلجم، ٹماٹر، انڈے کی سفیدی، بغیر شکرمشروبات، چائے اور کافی بغیر ڈر وخوف کے حسبِ ضرورت استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ہر کھانے میں نشاستے کی اچھی خاصی مقدار لازماً شامل ہو،کیوں کہ یہ فوری توانائی پیدا کرنے کا بہترین ماخذ ہیں۔

موٹاپے پر قابو، ذیابطیس کے کنٹرول میں اوّلین اہمیت کا حامل ہے کہ وزن کم کرنے سے انسولین اپنا کام زیادہ مؤثر طریقے سے کر تی ہے۔ذیابطیس آہستہ ،لیکن متواتر بڑھنے والا مرض ہے، جو غیر محسوس انداز سے مریض کو اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے۔تاہم،اگر ان عمومی ہدایت پر عمل کیا جائے،تو پیچیدگیوں پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے ۔ایک بات ذہن نشین کرلیں،کوئی بھی مرض خوش گوار زندگی کے سب دروازے بند نہیں کرتا۔ایک مریض بھی عام افراد کی طرح زندگی کے خُوب صُورت لمحات کا لطف اُٹھاسکتا ہے، بس اس کے لیے جہاں معالج کی ہدایات پر عمل ناگزیر ہے، وہیں مریض کی قوتِ ارادی کا مضبوط ہونا بھی ضروری ہے۔

(مضمون نگار، جنرل فزیشن ہیںاور الخدمت اسپتال،کراچی میںخدمات انجام دے رہے ہیں)

تازہ ترین