• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں آنکھوں نے عجب منظر دیکھا۔جب ایک طرف ساری دنیا کے اہل دل دعائیں سننے والے سے التجائیں کر رہے تھے کہ وہ تھائی لینڈ کے خطرناک غار میں پھنسے ہوئے بچوں کی جانیں بچا لے، ہم اہل پاکستان اس ادھیڑ بن میں لگے ہوئے تھے کہ ملک کو کس نے لوٹا اور کس نے سمندر پار اپنے خزانے بھرے۔دنیا بھر میں اطلاعات کے ذرائع پل پل کی خبر دے رہے تھے کہ تھائی لینڈ کے جو بارہ لڑکے اور ان کا فٹ بال کوچ دو ہفتوں سے بہت گہرے غار میں یا دوسرے لفظوں میں موت کے منہ میں پھنسے ہوئے ہیں، ان کی جانیں بچانے کے لئے کیسی کیسی سر توڑ کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ کوئی ایسا سیدھا سادہ کام نہیں تھا کہ کوئی اندر جاتا اور بچوں کی انگلی پکڑ کر انہیں دن کے اجالے میں نکال لاتا۔ یہ ایک میل لمبے اور بہت ہی گہرے اور بھول بھلیاں کی طرح پیچیدہ ایسے غار کا معاملہ تھا جو کچھ دیر پہلے سوکھا پڑا تھا لیکن لڑکوں کے اندر پھنسنے کی دیر تھی کہ مون سون کی بارشیں آپہنچیں، غار میں پانی بھرنے لگا اور بہت ہی تنگ اور دشوار گزار راستے ایک ایک کرکے بند ہونے لگے۔ جب ان تیرہ افراد کے واپس باہر آنے میں دیر ہوئی تو لوگ پریشان ہوئے۔کچھ لوگوں نے ہاتھ پاؤں مارے لیکن نہ لڑکے ملے اور نہ ہی ان کی خبر۔ ایسے میں برطانوی غوطہ خوروں نے لڑکوں کو ڈھونڈ نکالا۔وہ اندھیرے میں سہمے سمٹے بیٹھے تھے اور نو دن سے باہر کی دنیا سے کٹے ہوئے تھے۔ بس اسی وقت سے وقت کے ساتھ دوڑ لگی تاکہ اس سے پہلے کہ موسم ا ور خراب ہو، لڑکوں کو جیسے بھی بنے باہر نکال لیا جائے ۔اس بھاگ دوڑ میں ایک تھائی غوطہ خور اپنی جان سے گیا۔ وہ اندر پھنسے ہوئے لوگوں کو گیس کے ٹینک فراہم کر کے تیرتا ہوا واپس آرہا تھا کہ اس کی اپنی آکسیجن ختم ہوگئی اور وہ دم گھٹنے سے مرگیا۔امدادی عملہ پہلے پہل تو یہ سوچتا رہا کہ ان لوگوں کو ہر چیز وہیں پہنچانے کا بندوبست کیا جائے اور جب تک موسم خشک نہیں ہوجاتا ، یہ لوگ وہیں قیام کریں۔ مگر اس میں تو کئی مہینے لگ جاتے۔ اوپر سے محکمہ موسمیات نے بتایا کہ دھواں دھار بارشیں آنے کو ہیںاور غار میں پہلے سے زیادہ پانی بھرے گا تو پھر طے ہوا کہ جیسے بھی بنے ، بچوں کو نکالا جائے۔اب مسئلہ یہ تھا کہ یہ بچے کیسے باہر آئیں گے جب کہ بہت سوں کو تیرنا ہی نہیں آتا ۔ ان کی عمریں گیارہ اور سترہ برس کے درمیان تھیں اور ان میں سے کسی کو بھی غار میں اتر کر ایڈونچر کرنے کا تجربہ نہیں تھا۔ اب فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے کمسن اور کمزور بچوں کو نکالا جائے گا۔ سانس لینے کے آلات باندھے دو غوطہ خور ہر بچے کے ساتھ چلیں گے۔ وہ بھی اس طرح کہ ان میں سے ایک بچے کو اپنے قریب پکڑے رہے گا اور دوسرا ان کے پیچھے پیچھے تیرے گا۔ دوسرے غوطہ خور راہ میں بچھائی گئی رسی کوپکڑے پکڑے ان کو راستہ دکھائیں گے۔ راہ میں بعض جگہیں اتنی تنگ تھیں کہ انہیں اپنے آکسیجن کے ٹینک اتار کے ان جگہوں سے گزرنا پڑا۔ اس دوران لڑکوں کو گھبراہٹ سے بچنے کی دوائیں دی گئیں تاکہ وہ کہیں ڈر کے مارے ہراساں نہ ہوجائیں۔ انہیں سمجھایا گیا کہ اپنی سانس ہرگز نہ روکیں۔یہ خطرناک سفر طے کرنے میں انہیں کئی گھنٹے لگے۔ پہلے دن چار لڑکے نکالے گئے۔ اگلے روز بھی چار کونکال لیا گیا۔ اس دوران غار میں بھرا ہوا پانی نکالنے کی کارروائی جاری رہی۔ تیسر ے دن باقی چار لڑکوں اور ان کے کوچ کو نکالا گیا۔
کام یہاں ختم نہیں ہوا۔ اب ان بچوں کے نفسیاتی مسائل حل کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ باہر کی دنیا کے جراثیم کے حملے کا خطرہ بھی ہے۔ ابھی کئی روز وہ اپنے ماں باپ کو شیشے کے پیچھے سے دیکھ سکیں گے لیکن ان سے مل نہیں سکیں گے ۔ جب تک سارے بچے نہیں نکل آئے ، ان بچوں کے نام راز میں رکھے گئے جو نکال لئے گئے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ جن والدین کے بچے ابھی تک غار میں تھے ان کے حوصلے پست نہ ہوجائیں۔ جیسے جیسے لڑکے باہر دن کی روشنی میں نکلتے تھے، انہیں کیمروں سے چھپا کررکھا جاتا تھا۔ یہ سارے جتن خود بچوں اور ان کے والدین کی حساس کیفیت کے خیال سے کئے جارہے تھے۔ اب خیال ہے کہ ایک ہفتے کے اندر انہیں والدین سے ملوا دیا جائے گا۔ چونکہ یہ سارے فٹ بال کے کھلاڑی ہیں، فٹ بال کی عالمی فیڈریشن فیفا نے انہیں اتوار کے روز عالمی کپ کا فائنل مقابلہ دکھانے کی پیش کش کی ہے ۔
وہ سب ٹھیک ہے لیکن میں تصور کرسکتا ہوں کہ بچوں کے حق میں دعا کرنے والی خلق خدا نے ان کے بچ جانے کی خبر سن کے سکھ اور چین کی جو لمبی آہ کھینچی ہوگی وہ سرد نہ ہوگی بلکہ جس میں انسان سے بے پنا ہ محبت کے فطر ی اور قدرتی جذبے کی دھیمی دھیمی سی حرارت ہوگی، اس کے آگے آکسیجن کے وہ سلنڈربھی ماند پڑگئے ہوں گے جنہوں نے مصیبت میں گرفتار بچوں کو نئی زندگی دی۔
اب ہم دیکھتے ہیں اپنی حالت کہ ہم بھی ایک غار میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس میں بھی مون سون کا پانی بھر رہا ہے اور ہمارے بد خواہ چاہتے ہیں کہ سر سے اونچا ہوجائے۔ انسانی تاریخ میں ایسا کم ہی ہوا ہے کہ مجرم سزا کا حکم ماننے سے انکاری ہے اور چاہتا ہے کہ وہ تاریک جیل میں جاکر بھی حالات کا تختہ الٹ دے ۔ اس کے بعداس کی خوا ہش ہے کہ وقت کے سیلاب میں تیرتا ہوا وہ دن کے اجالے میں نکلے اور تاریخ کی چمکتی دھوپ اس کے سارے گناہ دھو ڈالے۔ مگراس نے کبھی نہ جانا کہ دھوپ کا معاملہ ہوا سے کچھ زیادہ مختلف نہیں:
چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین