• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاعر نے زندگی کے دو لمحات کو سب سے زیادہ کٹھن گردانا ہے۔ اک تیرے آنے سے پہلے اک تیرے جانے کے بعد۔ مگر زائر حرم کے لئے ایک ہی لمحہ کٹھن، جان گسل اور محرومی کے احساس سے لبریز ہوتا ہے۔ طواف وداع۔ جب صبح اور عمرے کے فرائض و واجبات سے فارغ ہو کر کعبتہ اللہ کے سامنے رکوع و سجود، مدینہ منورہ میں روضہ اطہر پر حاضری اور درود و سلام کے نذرانے پیش کرنے منیٰ، عرفات اور مزولفہ میں دن رات گزارنے اور مکہ و مدینہ کی گلیوں میں حضور اکرم (ﷺ) کے علاوہ ان کے جاں نثار ساتھیوں کے نقش قدم تلاش کرنے کے بعد آدمی آخری طواف کر کے اپنے گھر کو لوٹنے کا عزم کرتا ہے تو نعمت کے چھن جانے کا احساس اس پر غالب آ جاتا ہے۔
یہ احساس محرومی انسان کو ادھ موا کر دیتا ہے کہ معلوم نہیں اب دوبارہ حرمین شریفین میں کبھی حاضری کا موقع ملے گا یا نہیں؟ حرم کی اذان سننے اور کعبتہ اللہ کو آنکھوں میں سجا کر سجدہ کرنے، دعائیں مانگنے بلکہ بہت کچھ مانگنے کی سعادت نصیب ہو گی یا نہیں جس خاک میں حضور اکرم (ﷺ) کے سجدوں کے نشاں پوشیدہ ہیں اور جس شہر کی بادسحر میں بلالی اذان کی بو باس رچی ہے وہاں الصلواتا خیر من النوم کی صدا پر جاگنا اور خدا کے حضور سر جھکانا دوبارہ قسمت میں ہے یا نہیں؟ یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے مگر ہر زائر حرم کی طرح مجھے بھی بادیدہ نم کعبتہ اللہ کو الوداع کہنا پڑا اور ہم نے واپسی کی راہ لی۔
نماز فجر کی ادائیگی کے لئے طواف رکا ، صفیں سیدھی ہونے لگیں اور نوافل کی ادائیگی شروع ہوئی تو لوگوں نے حیران کن منظر دیکھا حرم کے چند کبوتروں کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں ابابیل نما پرندے کعبتہ اللہ پر یوں منڈلانے لگے جیسے طواف میں مصروف ہوں، چہچہاہٹ سے کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی اور پرندوں کی صف بندی پر فوجی پریڈ کا گمان گزرتا تھا۔ جس کسی کو موقع ملا اس نے موبائل، کیمرہ آن کر کے ویڈیو بنانا شروع کر دی، سیف اللہ خالد اور دیگر دو تین ساتھیوں نے بھی اس منظر کی عکس بندی کی مگر جب نماز سے فراغت کے بعد ویڈیو دیکھی تو خانہ کعبہ، کبوتران حرم، مسجد الحرام کے مینار اور لاکھوں زائرین موجود، پرندوں کی چہچہاہٹ بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے مگر کیمرے کی آنکھ ایک بھی پرندے کو اپنی گرفت میں نہیں لے سکی گویا کوئی پرندہ اڑا نہ کسی کو دکھائی دیا۔ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔
شہر امن و سلامتی میں اس طرح کے محیر العقول واقعات اکثر پیش آتے ہیں رابطہ عالم اسلامی کے مہمانوں میں جامعہ اشرافیہ کے مہتمم حضرت مولانا عبید اللہ کے صاحبزادے حافظ اسعد عبید بھی شامل تھے ایک دن کھانے کی میز پر انہوں نے بتایا کہ ایک چوہا میرے کمرے میں اودھم مچائے رکھتا، رات کو سونے نہ دیتا میں گیسٹ ہاؤس میں گھومتی پھرتی بلی کو گھیرگھار کر کمرے میں لایا اور دروازہ باہر سے بند کر دیا۔ حرم سے واپسی پر میں نے دروازہ کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بلی اور چوہا کونے میں ایک دوسرے سے اٹھکیلیاں کر رہے ہیں نہ شیر کی خالہ چوہے پر جھپٹتی ہے اور نہ چوہا شیر کی خالہ سے خوفزدہ جان بچاتا پھرتا ہے۔ واقعی مکہ مکرمہ میں سب کے لئے امان ہے۔
مکہ مکرمہ میں قیام، مدینہ منورہ میں حاضری، منیٰ، عرفات اور مزولفہ میں فرائض واجبات کی ادائیگی کے دوران اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو آسانیاں پیدا ہوئیں وہ اس خطاکار انسان پر رب رحمن و رحیم کا کام ہے واقعی اللہ تعالیٰ کی رحمت لامحدود اور برتر از اندیشہ و گماں ہے۔ ویسے بھی سعودی حکومت زائرین حرم کو سہولتیں فراہم کرنے کے لئے ہر وقت ہر لمحہ مستعد و چوکس ہے۔ 2005 میں شیطانوں پر کنکریاں مارنے کے دوران حادثہ پیش آیا اور ایک ہی سال کے اندر جمرات میں توسیع کا عمل مکمل ہو گیا اب کبھی اتنا ہجوم یکجا نہیں ہوتا کہ کسی حادثے کا اندیشہ ہو حرم کعبہ اور مسجد نبوی میں توسیع کے منصوبے مسلسل جاری ہیں۔ مطاف کی توسیع کے لئے بھی جامع منصوبے پر عمل ہو رہا ہے کئی منزلہ مطاف کی تکمیل کے بعد طواف کے عمل میں اسی طرح آسانی پیدا ہو گی جس طرح صفا و مروہ کی سعی اور جمرات میں ہو چکی ہے رابطہ عالم اسلامی نے اپنے مہمانوں کے لئے منیٰ، عرفات اور مزولفہ قیام کو آسان اور پُر آسائش بنانے کی ہرممکن سعی کی اور اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کی دعائیں لیں۔ ایک احساس ہر جگہ دل و دماغ کو کچوکے لگاتا رہا کہ پاکستان حجاج کرام کی تربیت و رہنمائی کے لئے ابھی تک کسی نے توجہ نہیں دی کاش ترکی، ایران، انڈونیشیا اور ملائشیا کے تجربات سے کوئی سبق حاصل کیا جائے۔
الحمد للہ واپسی کا مرحلہ بھی آسانی سے طے ہوا مگر وطن واپسی پر بھی دل و دماغ اس الجھن سے چھٹکارا نہیں پا رہے کہ جس طرح چالیس لاکھ مسلمان کعبتہ اللہ، مسجد نبوی، منیٰ، عرفات، مزولفہ، مکہ مکرم اور مدینہ منورہ کی گلیوں میں عجز و انکسار، مروت، ایثار و قربانی، ضبط نفس، سعی و جدوجہد، پیار و محبت، خدا ترسی، حب رسول (ﷺ) اور بے لوثی و بے نفسی کے جذبے سے سرشار نظر آتے ہیں اور مثالی انسان بننے کی خواہش سے مغلوب ہوتے ہیں اسی طرح وہ اپنے اپنے وطن واپس لوٹنے کے بعد نیکی، تقویٰ، خدا خوفی اور حسن عمل کے سفیر کیوں نہیں بنتے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قدموں سے پھوٹنے والے چشمہ آب زمزم، مدینہ منورہ کی کھجوریں، تسبیحیں، ٹوپیاں تو عزیز و اقارب، دوست احباب میں تقسیم کرتے ہیں مگر خیر کا جو سرمایہ اور حسن عمل کی جو پونجی انہوں نے دوران حج و عمرہ شب و روز کی عبادت، دعاؤں ، التجاؤں سے جمع کی ہوتی ہے وہ دوسروں میں بانٹنے سے محروم کیوں رہتے ہیں جو پورے معاشرے کو جنت نظیر بنا سکتی ہے ایک اجتماعی عمل، انفرادی عمل کی تنگنائے میں غائب کیوں ہو جاتا ہے؟ کیا قوم رسول ہاشمی (ﷺ) کے اجتماعی ضمیر اور خمیر میں کوئی بنیادی خامی ہے کہ ہمارے کسی عمل میں دوام نہیں۔ یا اللہ تو ہم پر رحم فرما (امین)
تازہ ترین