• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب بھی پاکستان میں سیاسی سمجھ بوجھ میں میچورٹی اور جمہوری نظام کی بحالی و مضبوطی کی بات کرتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ ہم جدید ذرائع ابلاغ کے دور میں شاید کوئی بہت ہی پرانی کہانی دہرا رہے ہیں، ہم سے پہلے، ہمارے ساتھ اور ہمارے بعد آزادی پانے والی قوموں کے ہاں پہلے سیاسی شعور کی پختگی اور پھر جمہوری اقدار کی آبیاری اب ایک پختہ بنیاد پر کھڑی مضبوط عمارت بن چکی ہے۔ بلاشبہ ان ممالک میں جمہوری ادارے ملکی ترقی کی ضمانت بن چکے ہیں۔ ہمارے لئے یہ امر باعث طمانیت ضرور ہے کہ مسند اقتدار پر40سالہ قبضے کی داستان میں دو مسلسل پانچ سالہ کامیاب جمہوری ادوار کا قصہ ہماری تاریخ میں شامل ہوچکا ہے۔ 70سال میں پہلی مرتبہ مسلسل تیسرے عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ حکومت کو وقت سے پہلے چلتا کرنے کی روایت اور 90روز میں عام انتخابات کرانے کے وعدہ جھوٹا ثابت ہونا کا دور بھی قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ اب کی بار بھی خدانخواستہ کوئی بڑا حادثہ نہ ہوا اور موسمیاتی حالات ٹھیک رہے تھے اگلے ہفتے یعنی 25جولائی بروز بدھ ملکی تاریخ کے اہم ترین عام انتخابات ہوں گے۔ الیکشن کمیشن نے چھٹی کے اعلان کے ساتھ انواع واقسام کے اقدامات کا دعویٰ کیا ہے۔ ای سی پی کے اعدادوشمار کے مطابق وفاق کی 272نشستوں کیلئے 3ہزار 675امیدوار آمنے سامنے ہوں گے جس میں44اقلیتی امیدوار بھی شامل ہیں۔ چاروں صوبوں میں صوبائی نشستوں کیلئے 8ہزار 895امیدوار زور آزمائی کیلئے سیاسی میدان میں اتریں گے، تین بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف سمیت درجنوں سیاسی جماعتیں مدمقابل ہوں گی۔ کئی بڑے قائدین کئی کئی حلقوں سے انتخاب لڑرہے ہیں جو انکی جماعتوں میں جمہوریت اور قابل بھروسہ امیدواروں کے سخت فقدان کا پتہ دیتی ہے۔
یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ملک کی 20کروڑ سے زائد کی آبادی60فی صد نوجوان طبقے پر مشتمل ہے۔ جس میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے، ملکی آبادی کا یہ نصف سے زائد نوجوان طبقہ عقل مند اور قابل بھی ہے اور بھرپور فہم وفراست بھی رکھتا ہے، اس نوجوان طبقے میں سے 55 سے 60فی صد بالغ بچے بچیاں تعلیم یافتہ اور 20سے 30فی صد برسر روزگار ہیں یہی علم اور سمجھ بوجھ رکھنے والا طبقہ 2018کے عام انتخابات میں گیم چینجر ثابت ہوگا۔ مبصرین کو توقع ہے کہ وہ اپنے حق رائے دہی کا درست سمت میں آزادانہ و بخوبی استعمال کرکے ایک نئی تاریخ رقم بھی کریں گے، جو ملکی مستقبل کے روشن آغاز کا سبب بھی بنے گی۔ پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پی ٹی اے کے مطابق ملک میں موبائل فون صارفین کی تعداد 15کروڑ کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے، ملک بھر کے 25سے30فیصد علاقوں میں موثر جبکہ 40سے50فی صد حصوں میں پارشل انٹرنیٹ سروسز کی سہولت موجود ہے۔ گزشتہ نصف دہائی سے آغاز کے بعد اب سوشل میڈیا زوروں پر ہے جس کا موجودہ سیاسی عمل، امیدواروں کی کریڈیبلٹی، مہم سازی اور ممکنہ طور پر انتخابی نتائج پر بھی گہرا اثر دکھائی دے رہا ہے۔ غیرسرکاری اداروں کی رائے میں معلومات اور اطلاعات کی سوشل میڈیا سے مسلسل فراہمی کے باعث 60سے 80فی صد عوام کسی نہ کسی لحاظ سے سیاسی وجمہوری شعور کے حامل ہوگئے ہیں۔ ایک نجی سروے کے مطابق ایسے میں جب ملک میں انتخابات کے ساتھ ساتھ احتساب کا شور برپا ہو عوام کے لئے مشکل نہیں کہ وہ حالات کا درست اندازہ کرکے اپنے بیلٹ پیپر کا صحیح اور حقیقی استعمال کا عملی نمونہ پیش کردیں، جبکہ قبائل، علاقائی رسم ورواج اور اثرورسوخ کے باعث آزادنہ حق رائے دہی کا عمل متاثر ہونے کا بھی خدشہ موجود ہے؟ سیاسی پہلوانوں کی اکھاڑ پچھاڑ اور حلقہ بندیوں میں تبدیلی کے نام پر ہاتھ دکھائے جانے کے عمل نے بھی کئی سوالات کو جنم دیا ہے، سیکورٹی اہلکاروں کی پولنگ اسٹیشن کے اندر تعیناتی اور میڈیا کو ایک گھنٹے کے بعد انتخابی نتائج کا اعلان کرنے کے پابند کرنے کا معاملہ بھی عام انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان بن سکتا ہے جس پر ابھی سے ملک کے اندر اور عالمی سطح پر تشویش بھی پائی جاتی ہے۔ نگران حکومت کی عام انتخابات کو بروقت، غیرجانبدار اور شفاف الیکشن کرانے کی کوششوں اور الیکشن کمیشن کے پولنگ عملے کے لئے ضابطہ اخلاق کا اجرا خوش آئند ہے تاہم میڈیا پر پولنگ اسٹیشن کے اندر آزادانہ رسائی اور نتائج کے بروقت اعلان پر پابندی سے شکوک وشبہات پیدا ہوسکتے ہیں۔ عالمی میڈیا اور مبصرین کی انتخابی عمل کی کوریج ونگرانی کے موثر انتظامات شفافیت پر مہر ثابت ہوسکتے ہیں۔ بادی النظر میں ترقی کے تیز رفتار دور میں 10 سالہ جمہوری بچے کو کم ازکم بالغ نظر تو ہو جانا چاہیے اور سیاست کو محض اپنے ذاتی مفادات کی لونڈی بنانے کی روش ترک کردی جانی چاہئے۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور بے سروپا الزامات کی سیاست کے دروازے بند ہونے چاہئیں۔ ملکی مفاد اور سلامتی سمیت خارجہ پالیسی کے اہم امور پر پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے ہوش کے ناخن لینا چاہئیں اور ملکی مفاد پیش نظر ہونا چاہئے۔
دوسری طرف نگاہ ڈالی جائے تو عوام نے گزشتہ دس سال کے جمہوری ادوار میں بہت کچھ برداشت کرلیا ہے لہٰذا اب کی بار تمام سیاسی جماعتوں کو یک زبان ہوکر صحت، تعلیم، روزگار کی بنیادی سہولتوں سمیت پرامن ماحول کے حوالے سے جامع لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا، ایسی کسی بھی غلطی سے گریز کرنا ہوگا جس سے عوام کے سیاست اور جمہوریت پر اعتماد کو ٹھیس پہنچے۔ عوام کیلئے بھی سنہری موقع ہے کہ وہ مسلسل تیسری مرتبہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے وطن عزیز کے چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے دانشمندانہ فیصلہ کریں اور اب کی بار 25جولائی کو بھرپور جذبے کیساتھ گھروں سے باہر نکلیں اور صرف پاکستان کو ووٹ دیں تاکہ ارض پاک کا حقیقی جمہوری و فلاحی ریاست کے طور پر تشخص اجاگر ہوسکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین