• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ممتاز ترقی پسند ادیب و شاعر ’’پروفیسر یوسف حسن‘‘

ممتاز ترقی پسند ادیب و شاعر ’’پروفیسر یوسف حسن‘‘

پروفیسر یوسف حسن کی ایک ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے نظریاتی وابستگی، ایسی قابلِ رشک مثال ہے کہ شاید ایسے نظریاتی استقلال والادوسرا آدمی ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گا ۔ میں پچیس چھبیس سال سے راولپنڈی اسلام آباد کے ادبی منظر نامے کا عینی گواہ ہوں ، اس شہر میں آیا ،تب سے اب تک اس بے مثال شخص سے کئی بار مکالمہ ہوا ، تقاریب میں ان کی طویل تقاریر سنیں ، دوستوں کی منڈلی میں گفتگو کے تیور دیکھے ، حلقۂ اربابِ ذوق اور حلقۂ اربابِ غالب میں ان کی تنقید سنی، نئے ترقی پسندوں کی الجھنوں کو سلجھاتے دیکھا ؛کوئی توجہ سے سن رہا ہوتا یا اُکتاہٹ سے پہلو بدل رہا ہو،انہیں کامل یکسوئی سے اپنی فکر کے سارے گوشے روشن کرتے پایا اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یوسف حسن کے لیے فکریات کا علاقہ مشغلہ نہیں زندگی اور موت کا مسئلہ رہاہے ۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک پورے خلوص ، یقین اور حضوری قلب کے ساتھ اپنی فکرکے شارح بنے رہے ۔ 

پروفیسر یوسف حسن محنت کش طبقے سے محبت کرنے والے تھے، تاہم سمجھتے تھے کہ جب تک تمام طبقات کے افراد روحانی اور ذہنی سطح پر آزاد نہیں ہوتے وہ جسمانی آزادی بھی حاصل نہ کر پائیں گے اور اس ہمہ جہت آزادی کہ جسے وہ پورے انسان کی آزادی کہتے تھے، کے لیے اُ ن کے نزدیک خرد افروزی بذریعہ طبقاتی جد جہد ہی ایک واحد راستہ تھا جس پر چل کر غلامی کا قفس توڑا جاسکتا تھا۔ میں نے ان کی گفتگوؤں سے یہ بھی جانا ہے کہ ان کی ترقی پسندی مذہب سے بیر نہیں رکھتی تھی، ایک انٹرویو میں انہوں نے دُکھ کے ساتھ کہا تھا کہ ترقی پسند اسلامی عقائد، مسلم شخصیات اور مسلمان اقوام کی تواریخ کے مطالعے ہی سے بے نیاز ہو کر مثبت نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں، جب کہ پاکستان کے قدیم وجدیدسماج کی تاریخ کے سائنسی مطالعے اور خاص طور پر ابتدائی صدیوں کی اسلامی تاریخ کے علم کے بغیر کوئی حقیقت پسندانہ معروضی تجزیہ نہیں کیا جاسکتا ۔

اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا :’’ مارکس اور اینگلزاسلام کے ظہور کے اسباب اور کردار کو سمجھنے میں بڑے سنجیدہ تھے‘‘ اسی انٹرویو میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ’’روس کا معروف انارکسٹ باکونن پہلی کمیونسٹ انٹرنیشنل میں ’’ملحد سوشلسٹوں کے سیکشن‘‘ کی حیثیت سے رکنیت چاہتاتھا،لیکن مارکس نے یہ کہہ کر انکار کردیاکہ ورکروں کو مومنوں اور ملحدوںمیںمت تقسیم کرو۔‘‘ اقبال بھی ان کے لیے دوسرے ترقی پسندوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ قابلِ قبول تھے ۔ 

اس باب میں ان کا رویہ احمد ندیم قاسمی کے بجائے فیض احمد فیض والا تھا ۔یوسف حسن ساری زندگی مارکسی فکریات کے ساتھ یوں وابستہ رہے جیسے اپنی فوج سے اس کا ایک جانثار سپاہی وابستہ ہوتا ہے۔ ایسا سپاہی جو اپنے مورچے پر ڈٹا رہتا ہے اور اسے خبر ہی نہیں ہوتی کہ جس فوج کے لیے وہ لڑ رہا ہے وہ توکب کی پسپا ہو چکی۔ بس وہی اکیلارہ گیا ہوتاہے،منحرف یاپسپا ہونے والوں سے بے نیاز اپنے موچے پر ڈٹا ہوا۔

کچھ بھی نہیں گھر میں یوسف

اک حوصلہ، بس رہ گیا ہے

ایک تخلیق کار اور بہ طور غزل گو شاعر کی حیثیت سے بھی انہوں نے بہت توقیر پائی ہے۔ دُکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اُن کا کوئی مجموعہ اُن کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا، تاہم ایسا ہے کہ ان کے کئی اشعار زبان زد عام ہیں :

مجھے کہیں کا نہ رکھا،سفید پوشی نے

میں گرد گرد اٹھا تھا تو معتبر بھی تھا

اور اسی غزل کا یہ شعر دیکھیے :

یہ جسم و جاں تری ہی عطا سہی لیکن

ترے جہان میں جینا مرا ہنر بھی تھا

اکادمی ادبیات پاکستان نے ان کے ساتھ جو نشست منعقد کی تھی، اس میں اُنہوں نے میرے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ وہ اپنی غزلیات کا مجموعہ مرتب کر چکے تھے ، اب اسے چھپنے میں دیر نہیں لگے گی، مگر واقعہ یہ ہے کہ اس باب میں اُنہوں نے بہت دیر کر دی ۔ اُنہوں نے اپنے مجموعے کا نام بھی رکھ لیا تھا:’’اے دل ، اے دریا۔یوسف حسن کی غزل ،جس سے مجموعے کا نام نکالا گیا ہے ، بہت مقبول ہوئی ہے :

ہم بھی پربت کاٹتے ہیں اور مٹی چاٹتے ہیں

ہم بھی تیرے کنبے میں ہیں شامل، اے دریا

تازہ ترین