ارشاد باری تعالیٰ ہے،ترجمہ: تم بہترین امت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقینا ًان کے لئے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔(سورہ ٔآل عمران)
اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے امت محمدیہ کی باقی تمام امتوں اور قوموں کے مقابلے میں فضیلت وشان بیان فرمائی ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ مخلوق کو نفع پہچانے کے لئے وجود میں آئی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ یہ مخلوق کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کی فکرکرتی ہے اور یہ اس امت محمدیہ کا فریضہ منصبی ہے۔اگر چہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر( یعنی لوگوں کو نیکیوں کا حکم کرنے اور برائیوں سے روکنے)کا حکم پچھلی امتوںکو بھی دیا گیا تھا،لیکن اس کی تکمیل اسی امت کے ذریعے ہوئی ہے۔ دوسرا پچھلی امتوں نے اس حکم کو چھوڑ دیا تھا،جب کہ اس امت محمدیہ کے حوالے سے نبی آخر الزماں محمد عربی ﷺ کی پیش گوئی ہے کہ اس امت میں تا قیامت ایک جماعت ایسی قائم رہے گی جو برابر یہ فریضہ انجام دیتی رہے گی۔یہی اس امت کی وجہ افتخار و وجہ امتیاز ہے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ احکام القرآن میں فرماتے ہیں کہ’’یہ اعزاز اِس امت کے پاس اس وقت تک برقرار رہے گا، جب تک وہ اس دین پر قائم رہے گی اور نیکی کا حکم دینے اوربرائی سے روکنے والی صفت ان میں باقی رہے گی،اگر انہوں نے برائی کواچھائی سے بدلنے کی بجائے اس برائی کو خود اپنا لیا تو یہ اعزاز ان سے خود بخود چھن جائے گا‘‘۔اس کی تائید نبی کریم ﷺ کی اس روایت سے ہوتی ہےجس میں آپﷺ نے تین جرائم کی تین سزائیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:جو امام جلال الدین السیوطی علیہ الرحمہ نے اپنی تفسیر دُرِّمنثور میں نقل فرمائی ہے کہ ’’جب میری امت دنیا کو بڑی چیز سمجھنے لگے گی تو اسلام کی ہیبت و وقعت اس کے قلوب سے نکل جائے گی۔ جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ بیٹھے گی تو وحی کی برکات سے محروم ہوجائے گی اور جب آپس میں گالی گلوچ اختیار کرے گی تو اللہ جل شانہ کی نگاہ سے گر جائے گی‘‘۔اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے نقل کردہ روایت سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک فلاح نہیں پا سکتا،جب تک کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام نہ دے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا’’ اللہ کی حدود پر قائم رہنے اور اس کے پامال کرنے والے کی مثال ان لوگوں کی سی ہے، جنہوں نے ایک دو منزلہ کشتی کے اوپر اور نیچے والے حصے کے حوالے سے قرعہ اندازی کی (کہ کون کس منزل پر رہے گا)تو کچھ کو اوپر والا حصہ ملا اور کچھ کو نیچے والاحصہ ملا۔ پھر نیچے والوں کو پانی کی ضرورت ہوتی تو وہ اوپر والوں کے پاس جاتے(اور اپنی پانی کی ضرورت پوری کر لیتے)۔ (ایک دن )ان لوگوں نے سوچا کہ اگر ہم اپنے نچلے حصے میں سوراخ کر دیں (اور پانی کی ضرورت خود پوری کر لیں)اور اوپر والوں کو (بار بار جانے کی وجہ سے) تکلیف نہ دیں تو کتنااچھا رہے گا۔ اب اگر اوپر والے ان نیچے والوں کو ان کے (اس احمقانہ)ارادے پر عمل کرنے سے نہ روکیں اور انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیں، تو وہ سب کے سب ڈوب کرہلاک وبرباد ہوجائیں گے۔ اگر وہ انہیں بروقت روک دیں تو وہ سب ہلاک ہونے سے بچ جائیں گے‘‘۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو معاشرے کی اصلاح کی فکر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاح کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)