• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جمعہ کے دونوں خطبوں کے درمیان دعا کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟

تفہیم المسائل

سوال: نمازِ جمعہ کے دونوں خطبوں کے درمیان ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا کیساہے؟ (انعام الحق ،لاہور)

جواب: احادیثِ مبارکہ میں جمعۃ المبارک کے دن قبولیتِ دعا کی ایک ساعت بتائی گئی ہے ،اس کے بارے میں روایات یہ ہیں:(۱)ترجمہ:’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن کا ذکر کیااور فرمایا: اس میں ایک ایسی ساعت ہے کہ جومسلمان بندہ اس ساعت کو پالے اوروہ اس ساعت میں کھڑاہوانماز پڑھ رہاہو اوروہ اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عطافرمادیتاہے اور آپ نے ہاتھ کے اشارے سے بتایاکہ وہ ساعت بہت تھوڑی ہے ،(صحیح بخاری:935)‘‘۔ (۲)ترجمہ:’’ابوموسیٰ اشعریؓ جمعہ کے دن دعا کی قبولیت کی ساعت کے بارے میں بیان کرتے ہیں،میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :یہ ساعت امام کے (منبر پر)بیٹھنے سے لے کر نماز کے اختتام تک ہے ،(صحیح مسلم: 853)‘‘۔(۳)ترجمہ: ’’عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو بیان کرتے ہوئے سنا:جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو اور امام (خطبے کے لیے ) منبر پر بیٹھ چکا ہے، تو نہ نماز پڑھی جائے اور نہ کلام کیا جائے ،یہاں تک کہ امام نماز سے فارغ ہوجائے(یعنی توجہ سے خطبہ سنا جائے)، (المعجم الکبیر للطبرانی:13708)‘‘۔ایک روایت بعدنماز عصر کی بھی ہے ۔(۴)ترجمہ:’’ابواُمامہؓ بیان کرتے ہیں: مجھے امید ہے کہ جمعہ کے دن (دعا کی قبولیت )کی ساعت ان تین میں سے ایک ہے: جب موذن اذان دے یاامام منبر پر ہویااقامت کے وقت ،(مصنف ابن ابی شیبہ:5466)‘‘۔لہٰذا دوخطبوں کے درمیان امام دعا کرسکتا ہے اورمقتدی بھی دل میں یا آہستہ آواز میں دعا کرسکتے ہیں۔

ابن حجر ہیتمی لکھتے ہیں:ترجمہ:’’قاضی عیاض نے کہا:دو خطبوں کے درمیان جلسے میں دعا مقبول ہے اورحاضرین کے لیے اس جلسے میں دعا میں مشغول رہنا سنت ہے ، کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ اس وقت دعا مقبول ہوتی ہے اور مقتدی آہستہ دعا کریں، کیونکہ اونچی آواز سے دعا کرنے میں دوسروں کی توجہ بٹے گی اور آہستہ دعا کرنا افضل ہے، سوا اس کے کہ کوئی امر عارض ہو، (الفتاویٰ الفقہیۃ الکبریٰ)‘‘۔

شیخ محمد بن صالح ابن عثیمین لکھتے ہیں:ترجمہ:’’دو خطبوں کے درمیان دعا خیر اور مستحب ہے ،کیونکہ یہ قبولیتِ دعا کا وقت ہے ،پھر انہوں نے صحیح مسلم کی مندرجہ بالا حدیث کا حوالہ دیااور کہا: جہاں تک رفع یدین کا سوال ہے تو میرے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،کیونکہ دعا کے آداب میں سے رفع یدین ہے، سو کوئی دعا کے وقت ہاتھ اٹھائے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر نہ اٹھائے تو بھی حرج نہیں ہے ،دو خطبوں کے درمیان کوئی مخصوص دعا یا ذکر وارد نہیں ہے ،لیکن انسان اپنی پسندیدہ کوئی بھی دعا کرسکتا ہے ،کیونکہ حدیث کی رُو سے یہ دعا کی قبولیت کا وقت ہے ،(فتاویٰ نور علیٰ الدرب لابن باز،صلاۃ الجمعۃ)‘‘۔

نبی کریم ﷺ سے بطورِ خاص دو خطبوں کے درمیان ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا ثابت نہیں ہے ،لیکن فی نفسہٖ دعا کے آداب میں یہ ہے کہ ہاتھ اٹھاکر دعا کرے ،ہتھیلی کا رُخ اوپر کی طرف ہواور دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیر لے،احادیثِ مبارکہ یہ ہیں:’’ عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ترجمہ:’’ اپنی ہتھیلیوں کو پھیلاکر اللہ سے سوال کرو ،اپنے ہاتھوں کی پشت کو پھیلاکر سوال نہ کرو،پھر جب دعا سے فارغ ہوجائو تو اپنے ہاتھ اپنے چہرے پر مَل لو،(ابودائود:1485)۔ترجمہ:’’حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:(اللہ تعالیٰ سے ) سوال کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تم اپنے ہاتھ کندھوں کے برابر یا( کم وبیش ) اٹھائو، (ابودائود:)‘‘۔’’سائب بن یزید اپنے والد سے بیان کرتے ہیں:نبی ﷺ جب دعا کرتے تو اپنے ہاتھ بلند کرتے اور اپنے ہاتھ اپنے چہرہ مبارک پر پھیر دیتے، (ابودائود:1492)‘‘۔ترجمہ:’’حضرت سلمان بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک تمہارا رب تبارک وتعالیٰ بہت حیا فرمانے والا کریم ہے،جب اس کا بندہ اس کی طرف ہاتھ اٹھالے،تو وہ اپنے بندے سے حیا فرماتا ہے کہ اُس کے ہاتھ خالی لوٹادے، (ابودائود: 1488)‘‘۔

غرض جمعے کے دن دو خطبوں کے درمیان امام کے لیے دعا بالاتفاق جائز ہے، فقہ حنفی میں امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک دو خطبوں کے درمیان دعا مقتدی کے لیے بھی جائز ہے اور امام اعظمؒ سے بھی ایک روایت جواز کی ہے ،لیکن مقتدی دل میں یا زبان سے آہستہ دعا کریں۔ مقتدی ہاتھ اٹھاکر دعا کا التزام نہ کریں ،تاکہ اسے جمعے کا شِعار نہ سمجھ لیا جائے ، کبھی ہاتھ اٹھاکر بھی دعا کرسکتے ہیں کہ اس کی ممانعت نہیں ہے اور ہاتھ اٹھانا آدابِ دعامیں سے ہے ،چنانچہ مفتی مصر شیخ محمد رشید رضا متوفّیٰ 1354ھ لکھتے ہیں:ترجمہ:’’دو خطبوں کے درمیان دعا کے لیے ہاتھ اٹھانااور بلند آواز سے دعا کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے اوراگر یہ تاثر پیدا نہ ہو لوگ کسی دلیل کے بغیر اسے سنت سمجھ کر کر رہے ہیں،تو(اپنی اصل کے اعتبار سے )ہاتھ اٹھاکر دعا کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے ،آثار سے یہ ثابت ہے کہ جب امام منبر پر کلام کرے تو خاموش رہ کر سنا جائے اور اسی سبب ہم کہتے ہیں :’’جب امام خاموش ہو تو دعا میں حرج نہیں ہے، لیکن دعا آہستہ کرے ،تاکہ دوسروں کے لیے تکلیف (اور توجہ بٹنے )کا سبب نہ بنے اور سب لوگ ہاتھ بھی نہ اٹھائیں کہ لوگ اسے جمعے کا شِعار نہ سمجھ لیںاورجب امام دوسرے خطبے کے لیے اٹھے تو دعا موقوف کردیںاور خطبہ سنیں،(مجلّۃ المنار)‘‘۔ اصل سے مراد یہ ہے کہ مطلقاً دعا میں ہاتھ اٹھانا سنت سے ثابت ہے۔

امام اہلسنت امام احمد رضاقادری سے جمعۃ المبارک کے دن دو خطبوں کے درمیان دعائوں کے بارے میں سوال ہوا کہ آیایہ مکروہِ تحریمی ہے یا تنزیہی یا جائزہے، ایک صاحب اسے بدعت اور حرام بتاتے ہیں ۔آپ نے تفصیلی جواب لکھا،جس کا خلاصہ یہ ہے:’’دو خطبوں کے درمیان امام کا دعا مانگنا بالاتفاق جائز ہے ،بلکہ خطبے کے درمیان بھی رسول اللہ ﷺ سے ہاتھ اٹھاکر بارش کے لیے دعا مانگنا صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔فقہِ حنفی میں دو خطبوں کے درمیان مقتدی کے لیے دعا مانگنا صاحبین کے نزدیک بالاتفاق جائز ہے ، امام اعظمؒ سے بھی ایک قول کے مطابق اس کا جواز ثابت ہے اور امام شافعیؒ کے نزدیک بھی جائز ہے،تاہم آپ نے لکھا:’’یہ کوئی ایسا امر نہیں جس پر شدت اختیار کی جائے ،نرمی سے سمجھایا جائے ،اگر کوئی نہ مانے تو اس کی بناء پر فتنہ اٹھانا اور گروہ بندی کی حاجت نہیں ہے ، آپ نے اس موضوع پر ’’رِعَایۃ المَذہَبَین فِی الدّعاءِ بینَ الخُطبَتَین‘‘کے نام سے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، (فتاویٰ رضویہ)‘‘۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین