ہمیں نئی تاریخ لکھنے کا بڑا شوق ہے لہذا ہم نے بدھ کے روز ہونے والے عام انتخابات میں کئی معنوں میں ’’تاریخ‘‘ رقم کر دی۔ عمران خان وزیراعظم بننے کی پوزیشن میں آگئے ہیں مگر یہ کیسے ہوا ہر چھوٹے اور بڑے سیاسی کھلاڑی سوائے ان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے اور اعلان کردیا ہے کہ وہ انتخابی نتائج نہیں مانتے۔ یہ تمام عناصر مل کر مشترکہ حکمت عملی تیار کریں گے جس میں سوائے ملک میں مزید شور شرابے اور انارکی کے کچھ نہیں ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتوں سوائے پی ٹی آئی کے، نے انتخابات سے چند ہفتے پہلے ہی الیکشن کی شفافیت اور غیر جانبدارانہ پن پر بڑے سنگین اعتراضات کر دیئے تھے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ منصوبہ ساز نے انہیں مایوس نہیں کیا اور ان کے تمام خدشات کو درست ثابت کرنے کیلئے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا۔ جب پولنگ ہو رہی تھی اور جب یہ ختم ہوئی تو ان تمام سیاسی ایکٹرز نے یک زبان ہو کر اس کو مسترد کر دیا یہاں تک کہ تحریک لبیک پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی جن کے کریڈینشنلز کے بارے میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہے انہوں نے بھی نتائج ماننے سے انکار کردیا ہے۔ ایسے ماحول میں جب صرف ایک جماعت یعنی پی ٹی آئی الیکشن نتائج کو ویلکم کر رہی ہے تو عمران خان بطور وزیراعظم کیا ڈلیور کر سکیں گے یہ صرف وہی یا ان کے اسپانسرز بتا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ چیئرمین پی ٹی آئی کو بطور وزیراعظم بے شمار چیزوں نے ہانٹ کرنا ہے جو کہ وہ پچھلے پانچ سال سے کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں۔ کولیشن حکومت بنانے کیلئے منصوبہ ساز باپ (بلوچستان عوامی پارٹی) جیسی جماعتوں، فاٹا کے ممبرز اور آزاد ارکان کو عمران خان کے پلڑے میں ڈال دیں گے اس طرح ان کی اکثریت ہو جائے گی یعنی حکومت قائم رکھنے کیلئے وہ ان چھوٹی جماعتوں اور گروپوں کے مرہون منت رہیں گے۔
اتنی زیادہ مینو پولیشن کرکے ہم نے پورے انتخابی اور جمہوری سسٹم کی بنیادیں ہلا کر تاریخ رقم کر دی ہیں۔ اتنی زیادہ ہیرا پھیری تو پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں بھی 2002ء میں ہونے والے عام انتخابات میں نہیں کی گئی تھی۔ اس سارے کھیل میں عوامی رائے کا مذاق بنا دیا گیا ہے یعنی لوگ جس کو چاہیں ووٹ ڈالیں ضروری نہیں کہ جیت اس کی ہو۔ جو گیم اگست 2014ء میں دھرنوں کی صورت میں شروع کی گئی تھی ، جو 28 جولائی 2017ء کو نوازشریف کو وزیر اعظم ہائوس سے نکال کر اس میں تیزی لائی گئی تھی، جو ان پر الیکشن لڑنے پر زندگی بھر کی پابندی عائد کی گئی تھی ، جو انہیں احتساب عدالت کی طرف سے 11 سال سزا دی گئی تھی اور پھر جو انہیں رواں ماہ 13 تاریخ کو گرفتار کیا گیا تھا اس کا اختتام انتہائی بھونڈے انداز میں 25جولائی کو انتخابات میں ’’تاریخی اقدامات‘‘ کرکے اختتام پذیر کی گئی مگر بدقسمتی سے اس الیکشن کا نتیجہ تو پاکستان کیلئے صرف اور صرف مسائل ہی پیدا کرے گا۔ ہم چونکہ ہر شعبے میں ’’انتہا پسند‘‘ ہیں اور ہم میانہ روی پر یقین نہیں رکھتے لہذا انتخابی پراسس میں بھی ہم نے کچھ زیادہ ہی ’’میٹھا‘‘ ڈال دیا ہے یہاں تک کہ اپنے بچے بچونگڑے بھی چیخ اٹھے ہیں کہ یہ ان کے ساتھ کیا کر دیا گیا ہے۔ انہی صفحات پر ہم ایک عرصے سے تنبیہ کر رہے تھے کہ جتنی زیادہ بھی پری پول ریگنگ کر لی ہے اسی پر ہی اکتفا کیا جائے اور پولنگ ڈے والے دن کوئی تماشا نہ کیا جائے ورنہ ملک میں شور اٹھے گا، احتجاج ہوگا اور عدم استحکام پید اہوگا جو کہ پاکستان جو کہ پہلے ہی بے شمار مسائل کا شکار ہے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لیکن ہمارے ہاں مصیبت یہ ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز ان باتوں کی پروا نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ قومی مفاد صرف وہی ہے جو وہ سوچتے ہیں، جو وہ کہتے اور جو وہ کرتے ہیں۔
’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کی بھی ہم نے تاریخ رقم کر دی ہے۔ چن چن کر نون لیگ کے سرکردہ رہنمائوں جو کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیانیے کی حمایت کرتے رہے ہیں، اسے پروجیکٹ کرتے رہے ہیں اور جن کے جیتنے کے چانسز بہت روشن تھے کو ہروایا گیا ہے۔ کئی علاقوں خصوصاً پوٹھوہار ریجن سے نون لیگ اور دوسری جماعتوں کا مکمل صفایا کردیا گیا ہے اور صرف اور صرف پی ٹی آئی کو راجہ بنا دیا گیا ہے۔ ایسے نتائج سامنے لائے گئے ہیں کہ تمام اوپینن پولز اور سروے غلط ثابت کر دیے گئے ہیں۔ یہ تمام سروے گپ تو نہیں تھے ان میں کچھ خامیاں ہوسکتی ہیں اور یہ خود بھی اپنا ’’مارجن آف ائیرر‘‘ ظاہر کرتے ہیں۔ یہ تمام پولز لاکھوں ، ہزاروں لوگوں کی آرا پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ بار بار لکھا جا چکا ہے کہ 2018ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی 2013ء کے انتخابات سے کم مقبول تھی اگرچہ بہت سے ایلکٹ ایبلز اس میں شامل ہو گئے تھے مگر اس کی یہ پوزیشن نہیں تھی کہ وہ قومی اسمبلی کی 100سیٹوں سے کسی صورت بھی کراس کرسکے۔ ہر ایک کا خیال تھا کہ اگرچہ ایسے حالات پیدا کئے گئے ہیں کہ نون لیگ کو حکومت نہیں بنانے دی جائے گی مگر اس کی سیٹیں کم سے کم پنجاب میں پی ٹی آئی سے زیادہ ہوں گی۔
الیکشن کمیشن جو کہ قطعی طور پر آزاد نہیں تھا بلکہ کسی دوسرے ادارے پر ڈیپنڈنٹ تھا نے بھی نالائقی اور نکما پن کی تاریخ رقم کر دی ہے۔ اس نے قومی خزانے سے 20ارب سے زائد رقم ان انتخابات پر خرچ کی ہے اور پروڈیوس کیا کیا ہے جس پر شرم سے سر جھک جاتا ہے۔ اس کے سیکرٹری کہتے ہیں جو بھی شکایت فارم 45 کے بارے میں تھی انہیں بھجوائی جاتی اور وہ اس کا فوراً ازالہ کرتے۔ لگ رہا تھا کہ موصوف سیاسی جماعتوں کی یہ آوازیں نہیں سن رہے تھے کہ ووٹوں کی گنتی کے دوران ان کے پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشنوں سے کک آئوٹ کر دیا گیا ہے اور وہ چاہ رہے تھے کہ پھر بھی کوئی باضابطہ شکایات درج کراتا۔ انتخابات کے پورے پراسس نے الیکشن کمیشن کی ’’کارکردگی‘‘ کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ ہر الیکشن کے بعد سب سے اہم مرحلہ نتائج کا اعلان ہوتا ہے اس اسٹیج پر الیکشن کمیشن کی نالائقی انتہا پر رہی۔ جوں جوں نتائج تاخیر کا شکار ہوتے رہے سارے انتخابی عمل پر شکوک اور خدشات مضبوط سے مضبوط ہوتے گئے۔ ہم جب جمعرات کی صبح یہ کالم لکھ رہے تھے تو اکثرنتائج کی پکچر معلوم نہیں تھی اور ٹی وی چینلز جماعتوں کو وہ تمام سیٹیں دے رہے تھے جن میں وہ لیڈ کر رہی تھیں جبکہ وہ خود کہہ رہے تھے کہ ابھی تک نتائج 42 فیصد موصول ہوئے ہیں۔ ہم بات کرتے ہیں اداروں کو مضبوط کرنے کی یہ ہے ان کی مضبوطی ایسی مضبوطی سے تو بہتر ہے کہ ادارے کمزور ہی رہیں۔ اتنے زیادہ مشکوک الیکشن شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں کبھی ہوئے ہوں اور اس کا ذمہ دار الیکشن کمیشن اور دوسرے تمام ادارے جنہوں نے یہ کام اپنے ذمے لیا ہوا تھا ہیں۔ رہی بات کیئر ٹیکر حکومتوں کی تو یہ بیچاریاں جیسے انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ نہ دیکھ سکتی تھیں نہ سن سکتی تھیں اور نہ کچھ کر سکتی تھیں۔ یہ بالکل اپاہج تھیں جن کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ تمام حکومتی کنٹرول تو کسی اور جگہ تھا ایسی جگہ جس پر کسی کا بس نہیں چلتا الیکشن کمیشن کس کھیت کی مولی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)