• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ہم اس الیکشن کو عوام کے مینڈیٹ پر ایک ڈاکا سمجھتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جو لوگ اکثریت کا دعویٰ کررہے ہیں ان کے دعوے کو بھی تسلیم کیے جانے کے لائق نہیں سمجھتے ۔‘‘ حالیہ انتخابات میں ملک بھر میں مبینہ دھاندلی کے خلاف گزشتہ روز اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس کے بعد ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس میں متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اپنے موقف کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔ کانفرنس کی میزبانی میں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں شہباز شریف بھی ان کے ساتھ شریک تھے جبکہ جن سیاسی رہنماؤں نے اپنی جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کانفرنس میں شرکت کی ان میں اسفندیار ولی، حاصل بزنجو، محمود خان اچکزئی، فاروق ستار، آفتاب خان شیرپاؤ اور مصطفی کمال شامل ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے تمام شرکاء کی ترجمانی کرتے ہوئے بتایا کہ پچیس جولائی کے انتخابات کو کل جماعتی کانفرنس نے مکمل طور پر مسترد کردیا ہے، ان جماعتوں کے جو لوگ منتخب ہوئے ہیں وہ حلف نہیں اٹھائیں گے تاہم شہباز شریف نے اس معاملے میں پارٹی سے مشاورت کی مہلت مانگی ہے۔ ایم ایم اے کے صدر کا کہنا تھا کہ ہم دوبارہ انتخابات کرانے کے لیے پورے ملک میں تحریک چلائیں گے۔ کل جماعتی کانفرنس کے شرکاء حالیہ انتخابات میں جس دھاندلی کے شاکی ہیں، بلاشبہ پورے ملک میں اس حوالے سے ایک قوی تاثر موجود ہے۔ یہ شکایت بہت سے مقامات پر سامنے آئی ہے کہ ووٹوں کی گنتی کے دوران غیر متعلق افراد نے امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ بوتھ سے باہر نکال کر گنتی کے عمل کو مکمل کیا ، فارم پینتالیس فراہم نہ کیے جانے کی شکایتیں بھی پورے ملک میں رہیں جبکہ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق یورپی یونین کے مبصرین کے نمائندوں نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں واضح لفظوں میں کہا ہے کہ ’’کچھ غیر جمہوری قوتوں نے انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔‘‘ وفد کے سربراہ مائیکل گالر کا کہنا تھا کہ ’’پولنگ کے دوران سیکوریٹی اداروں کے اہلکاروں کی پولنگ اسٹیشنوں کے اندر تعیناتی نا قابل فہم ہے ۔‘‘ انہوں نے ذرائع ابلاغ میں سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو یکساں مواقع نہ فراہم کیے جانے اور میڈیا پر انتخابات سے پہلے اور بعد میں ناروا پابندیاں عائد کیے جانے کی شکایت بھی کی۔اس سب کے باوجود پورے انتخابی عمل کو سرے سے ناقابل قبول قرار دے کر نئے انتخابات کی تحریک چلانے کا کوئی ماحول ملک میں موجود نہیں ، عوام ایسی کسی تحریک کی پذیرائی کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے یہی وجہ ہے کہ خود کانفرنس کے شریک میزبان اور نئی منتخب قومی اسمبلی میں متوقع قائد حزب اختلاف مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کی جانب سے حلف نہ اٹھانے کے فیصلے کی حمایت میں ہچکچاہٹ کا اظہار کیا گیا حالانکہ ان کی پارٹی کو الیکشن کے انعقاد سے بہت پہلے سے منفی ہتھکنڈوں کا نشانہ بنائے جانے کی سب سے زیادہ شکایت ہے ۔ انتخابات میں وفاق کی تیسری بڑی پارلیمانی جماعت کی حیثیت حاصل کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی نہ صرف یہ کہ کل جماعتی کانفرنس میں شریک نہیں ہوئی بلکہ اس کے سربراہ بلاول بھٹو نے انتخابی نتائج کو مسترد کر نے اور چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے کے باوجود تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی عمل سے باہر نہ نکلنے اور پارلیمنٹ میں لازماً جانے کا مشورہ بھی دیا ہے ۔ مسلم لیگ ( ن) کے رہنما اور سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف کا بھی یہی کہنا ہے کہ اسمبلیوں کے بائیکاٹ سے جمہوریت اور وفاق کو نقصان پہنچے گا لہٰذا اس سے گریز کیا جانا چاہیے۔ امید ہے کہ ایم ایم اے کے سربراہ اور ان کے دیگر ہم خیال رہنما معروضی حالات اور ان آراء کی معقولیت کا ادراک کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کے فیصلے کو واپس لے کر جمہوری عمل میں شریک رہتے ہوئے انتخابی دھاندلیوں کی شکایات کے ازالے کے لیے الیکشن ٹریبونل اور عدالتوں کے آئینی راستے کواختیار کریں گے تاکہ ملک کو جمہوری اور آئینی نظام کی پٹری سے اتر جانے کے خطرے سے محفوظ رکھا جاسکے۔
kk

تازہ ترین