• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں عام استعمال کی اشیاء کی قیمتوں کے حوالے سے شماریات کا محکمہ وقتاً فوقتاً اعداد و شمار جاری کرتا رہتا ہے جسکا بظاہر مقصد منصوبہ سازوں کوصورتحال سامنے رکھ کر متعلقہ شعبوں میں ضروری تدابیر کیلئے اعانت فراہم کرنا ہے۔ عشروں سے جاری حکومتی وعدوں کے غیر سنجیدہ انداز اور دعووں کے کھوکھلے پن کو دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری سطح پر ان اعداد و شمار کا اصلاحاتی پہلو عموماً نظروں سے اوجھل رہتا ہے جبکہ عام آدمی کو محکمہ شماریات کے اعداد و شمارکے بغیر بھی مہنگائی کے حقیقی گراف کا اس بنا پر اندازہ رہتا ہے کہ اس مہنگائی کا اصل ہدف وہ خود ہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ جولائی 2018ء میں وطن عزیز میں مہنگائی چار سال کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی ۔ اخبارات میں شائع ہونے والا شماریات بیورو کا تجزیہ شرح فیصد کے لحاظ سے ہوتا ہے جو ظاہر کررہاہے کہ جولائی 2018ء میں مہنگائی کی شرح 5.80فیصد رہی جو چار برس کے دوران اس مہینے میں گرانی کے گراف کا بلندترین مقام ہے۔ گزشتہ برس جولائی میںمہنگائی کی شرح 2.90فیصد تھی۔ جون 2018ء میں مہنگائی کی شرح 5.20فیصد بتائی گئی۔ یہ اعداد و شمار اس مزدور اورکم آمدنی والے فرد کی سمجھ سے بالاتر ہیں، جسے چند کلو آٹے اور دالوں کے عوض دکاندار ہزاروں روپے کے حسابات پر مبنی فہرست تھما دیتا ہے اور جس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ بوڑھے ماں باپ، میاں بیوی اور دو بچوں پر مشمل مختصر ترین کنبے کے لئے ایک کمرے کے مکان کے کرائے،بجلی اور گیس کے بلوں کی رقم اور دیگر اخراجات کا کیسے بندوبست کرے۔ کیا کوئی اکنامک منیجر ہمارے معاشرے کے لحاظ سے مختصر ترین سمجھے جانیوالے مذکورہ خاندان کیلئے اس پندرہ ہزار روپے کی کم از کم اجرت میں ماہانہ بجٹ بنا سکتا ہے جس کا عملی اطلاق صرف سرکاری محکموں یا چند بڑی کمپنیوں کی ملازمتوں میں ہوتا ہے۔ بیشتر مقامات پر گھروں اور دکانوں میں کام کرنیوالے ملازمین، اوپر کا کام کرنیوالے افراد، کاغذ اور دوسری چیزیں چننے والوں کی آمدنیاں اس سے کم ہیں۔ ان کی زندگی جس طرح گزرتی ہے اس میں سستے ترین اور انتہائی ناگزیر فوڈ آئٹمز مثلاً پیاز (40روپے کلو)، آلو (40روپے کلو)، ٹماٹر (100روپے کلو)، لوکی (80روپے کلو)، پالک (60روپے کلو)، کھیرا (80روپے کلو)، ہری مرچ (30روپے پائو)، ہرادھنیا (20روپے گڈی) کا اہتمام ہی مشکل ہوتا ہے۔ بھنڈی (100روپے کلو)، ٹنڈا (80روپے کلو)، کیلا (100روپے درجن)، سیب (150روپے کلو)، آم (100تا 150روپے کلو)، چیکو (120روپے) جیسی اشیا کی تو صرف دور سے زیارت ممکن ہے۔ مذکورہ ریٹ جولائی کے مہینے میں کراچی میں مختلف لوگوں کی ذاتی خریداری کی بنا پر درج کئے گئے ہیں۔ اگست میں ان میں کمی آئی ہے۔ مثلاً مرغی کا گوشت جو جولائی کے مہینے میں 340روپے فی کلو تھا، اس وقت 250روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔ اور بھی کئی اشیا کے نرخ گھٹتے محسوس ہو رہے ہیں۔ پیٹرول پر ٹیکسوں میں کمی اور روپے کی قدر میں استحکام سے افراط زر میں کمی کا امکان ہے۔ افراط زر بالواسطہ ٹیکس کی بدترین شکل اور کمزور طبقات کے بدترین استحصال کا وہ آلہ ہے جسے ہمارا فیڈرل بیورو بے دریغ استعمال کرتا چلا آرہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ٹیکسوں کی وصولیابی کا محکمہ ان صاحبان زر سے بلاواسطہ ٹیکسوں کی وصولی یقینی بناتا جن کی املاک اور ذرائع آمدنی کے بارے میں معلومات کا حصول اب زیادہ مشکل نہیں رہا۔ اس کے برعکس غریبوں پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے اور انہیں وہ ’’فوڈ باسکٹ‘‘ بھی دستیاب نہیں جس کا دنیا کے بیشتر ممالک اہتمام کرتے ہیں۔ اب عام انتخابات کے بعد نئے حکمراں ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں تو فوری طور پر ایسا میکنزم متحرک کئے جانے کی امید بے محل نہیں جس میں محدود آمدنی کے حامل افراد کو خوردنی اور ضروری اشیا پر مشتمل ’’فوڈ باکس‘‘ ارزاں نرخوں پر فراہم کیا جاسکے۔ نئےحکمراں ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو توقع کی جاسکتی ہے کہ ان کے دیگر وعدوں کے ایفا کی طرف بھی پیش قدمی ہوگی۔

تازہ ترین