• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک خط، ایک مسئلہ ’’وال چاکنگ‘‘ سے شہر کی خوبصورتی ماند ہورہی ہے

ایک خط، ایک مسئلہ ’’وال چاکنگ‘‘ سے شہر کی خوبصورتی ماند ہورہی ہے

کسی بھی ملک کی قدیم عمارتیں،تفریحی مقامات ،درخت و ہریالی،اس کی خوب صورتی میںچار چاند لگاتے ہیں، مگر یہ خوبصورتی اس وقت ماند پڑنے لگتی ہے، جب جگہ جگہ کچرا بکھرا ہوانظر آئے،سڑکوں پر گندا پانی کھڑا ہویا دیواروں پر مختلف قسم کی چاکنگ کی گئی ہو،چوں کہ دیواروں کوسیاسی نعروں اور کاروبار کی تشہیر کے لیے استعمال کرنے کا رجحان ملک بھر میں پھیل چکا ہے،ستم بالائے ستم یہ کہ کالجز اور جامعات میں پائی جانے والی مختلف جماعتوں میں شامل طلبا بھی اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے وال چاکنگ کا ہی حربہ استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ 

صورت حال اتنی گمبھیرہو چکی ہے ،کہ شاید ہی کوئی دیوار ایسی ہو ،جو سادہ اور صاف ستھری نظر آتی ہو، ورنہ کسی بھی سیاست دان کو اپنی پارٹی کی تشہیر کرنی ہو یا دوسری سیاسی پارٹی کے خلاف نعرہ درج کرنا ہو ،کسی کو زندہ باد یا مردہ باد کہلوانا ہو، کسی کو اپنے جلسےیا ریلی کی تاریخ لوگوں تک پہچانی ہویاکوئی اپنے تعلیمی ادارےکی تشہیر کرنا چاہتا ہو، گویا تمام لوگ ہی، بغیر کسی لحاظ و مروت کے بنا کسی کی اجازت لیے، جس دیوار پہ ، جو چاہیں لکھ دیتے ہیں۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ تعلیمی ادارے بھی اس غیر قانونی کام میں ملوث نظر آتے ہیں، یعنی جو لوگ نسل نو کی تعلیم و تربیت کے ذمے دار ہیں، جس جگہ سے بچے اچھے برے کی تمیز کرنا ، قانون کی عزت کرنا سیکھتے ہیں،جب ایسے ادارے بھی چند پیسے بچانے کی خاطر اپنے اداروں کی تشہیر وال چاکنگ کے ذریعے کریں گے،جس سے شہر کی خوب صورتی ماند پڑتی ہے، توغیر تعلیم یافتہ افراد سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔وال چاکنگ کو روکنے کے لیےکئی قانون بنائے جا چکے ہیں،مگربہ جائے اس میں کمی آنے کے یہ دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے عوام بالخصوص نوجوانوں میں ’’سوک سینس‘‘ نہیں ہے، ہم کسی کو کچھ غلط کرتا دیکھ کر اسے روکتے یا اس کے خلاف شکایت نہیں کرتے بلکہ یہ سوچ کر خاموش رہتے ہیں کہ ہمارے گھر میں تو نہیںکر رہا ، یا اس میں ہمارا کیا نقصان، حالاں کہ اپنے ملک، اپنے شہر کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا بھی ہماری ہی ذمے داری ہے، چناں چہ اس عمل سے شہر کی دیواروں کو بچانے کے لیے، ہر شہری کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا، بالخصوص تعلیمی اداروں کو سب سے وال چاکنگ کے ذریعے اپنے اداروں کی تشہیر بالکل ختم کرنی چاہیے، طالب علموں کو بھی اس حوالے سے آگاہی فراہم کرنی ضروری ہے۔ اگر دیوارو ں کو استعمال کرناہی ہے، توـ’’دیوار مہربانی‘‘کے طور پراستعمال کریں، جہاں ضرورت مندوں کے لیے ضرورت کے کپڑے وغیرہ لا کر لٹکا دیئے جاتے ہیں، تاکہ کوئی بھی ضرورت مند ان کو استعمال کے لیے لے جا سکے اور وہاں بھی نگرانی کی جائے کہ کوئی ان کپڑوں یا اشیاء کو فروخت تو نہیں کر رہا،باقاعدہ دیوار پر رنگ و روغن کر کے اسے دیدہ زیب بنایا جائے، تا کہ شہر کی خوب صورتی میںاضافہ بھی ہواور کسی کی مدد بھی ۔ یہاں ایک قابل ذکر عمل یہ بھی ہے کہ آج کل چند نوجوان آرٹسٹوں نے، ’’دیوار قدر دانی ‘‘کے نام سےدیواروں پر قومی ہیروز کے پورٹریٹ بنا کر انہیں خراج عقیدت پیش کرنا شروع کیا ہے، جو قابل تحسین اقدام ہے۔

ہمیں ملک کا مخلص شہری ہونے کے ناطےشہر کو صاف ستھرا رکھنےمیں اپنا کردار اد ا کرنا چاہیے اور ہر اس عمل سے باز رہنا چاہیے، جس سے ملک کی شان یا وقارمیں کمی آئے۔اس سلسلے میں بنیادی کام یہ ہے کہ شہر کو صاف رکھنے میں انتظامیہ سے تعاون کیا جائے۔ زیادہ تر وال چاکنگ رات کے اوقات میں ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ایسا کرنے والے لوگ قانون کی گرفت سے بچ جاتے ہیں۔میں نےاس خط کے ذریعے عوام بالخصوص منتظمین کی توجہ اس اہم مسئلےکی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی ہے، امید کرتا ہوں کہ جلد اس کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

(نعمان عالم۔ ایک ملازمت پیشہ نوجوان)

تازہ ترین