• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
, ,

وفاق میں مضبوط اپوزیشن سے کیا آزاد کشمیر کی حکومت بچ جائے گی؟

وفاق میں مضبوط اپوزیشن سے کیا آزاد کشمیر کی حکومت بچ جائے گی؟

راجہ حبیب اللہ خان

وفاق اور خیبر پختون خواہ میں پاکستان تحریک انصاف کی نمایاں کامیابی جبکہ پنجاب اور بلوچستان میں حکومت سازی کی پوزیشن میں آنے پر آزاد کشمیر بھر میں پی ٹی آئی کے کارکنان نے ریلیاں نکال کر جشن منایا جبکہ سابق وزیراعظم و قائد مسلم لیگ ن میاں محمد نواز شریف، انکی بیٹی محترمہ مریم نواز شریف اور داماد کیپٹن صفدر کی طرف سے گرفتاری پیش کرنے پر آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کے متوالوں نے آزاد کشمیر کے تمام اضلاع کی سڑکوں پر نکل کر ان سے اظہار یکجہتی کیا۔ چونکہ پاکستان کی جملہ سیاسی جماعتوں کی شاخیں آزاد کشمیر میں بھی موجود ہیں ۔اسلئیے ہر دو جانب ہونیوالے عام انتخابات کے دوران دونوں خطوں کی لیڈر شپ ان مواقعوں پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور کسی نہ کسی صورت وفاق میں تبدیلی کے اثرات آزاد کشمیر پربھی مرتب ہوتے ہیں۔پاکستان کے عام انتخابات میں کشمیر تحریک انصاف کے سربراہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور آل جموںو کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد خان نے تحریک انصاف کے لیے پاکستان کے انتخابی حلقوں میں بھرپور انتخابی مہم چلائی۔ 

اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی آزاد کشمیر۔ مسلم لیگ ن آزاد کشمیر اور دیگر جماعتوں نے بھی پاکستانی عام انتخابات میں مہاجرین جموںو کشمیر مقیم پاکستان سے ووٹ کے حصول کیلئے سر توڑ کوششیں کیں۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کی سیاسی تاریخ کا اگر سرسری جائیزہ لیں تو ماسوائے سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے جنہوں نے پاکستان میں تبدیل ہونیوالی 4حکومتوں کیساتھ کامیاب حکمت عملی سے اپنی ’’مدت اقتدار‘‘ پوری کی جبکہ آزاد کشمیر میں 2011؁ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی مجید حکومت ، گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت اورKPKمیں پی ٹی آئی کی حکومت کے مینڈیٹ کو سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی مجید حکومت کیخلاف آنیوالی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنایا اور وافر ترقیاتی فنڈز بھی فراہم کیے۔ 

ان ادوار کے علاوہ اکثر سول اور عسکری حکومتوں کے دوران آزاد کشمیر میں بھی نظام حکومت تبدیل اور مخالف سیاسی حکومتوں کو مالی اعتبار اور دیگر معاملات میں ٹف ٹائم دینے کی روایات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اسوقت بھی PTIآزاد کشمیر اور مسلم کانفرنس کے سپورٹرز آزاد کشمیر میں وزیر احمد رضا قادری کے استعفے اور وزیر ٹرانسپورٹ ناصر ڈار کے سرکاری گاڑی واپس کرنے اور گلے شکوئوں کے عمل کو آزاد کشمیر میں تبدیلی کے عمل کی ابتدا قرار دے رہے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے متوالوں کے نزدیک پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں اپوزیشن جماعتوں کا وسیع اور مضبوط ترین اتحاد وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کی خوش بختی اور آزاد کشمیر حکومت کیلئے مزید استحکام کا باعث سمجھا جا رہا ہے۔ 

پاکستان میں اپوزیشن کی جانب سے بڑے پیمانے پر احتجاجی پروگرام سے آزاد کشمیر میں بھی آنے والے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت بڑھنے کے قوی امکانات ہیں۔ تاہم عمران خان کی کامیابی کے بعد ان کے پہلے خطاب میں ’’کشمیر پالیسی‘‘ کے بیانیے کو مقبوضہ جموںو کشمیر کی حریت قیادت اور آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت نے خوش آئیند قرار دیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کی حساسیت اور غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر توقع کی جا رہی ہے کہ وفاق میں PTIکی متوقع حکومت آزاد کشمیر کے معاملات میں مداخلت کی مرتکب نہیں ہوگی تاہم یہ آنیوالا وقت اور عمران خان کا عمل ہی ثابت کریگا کہ وہ کیا پوزیشن اختیار کرتے ہیں۔ PTIکشمیر کے سربراہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے آزاد کشمیر میں ہونیوالے جلسوں میں جزوی طور پر دوسری جماعتوں کو چھوڑ کر لوگ PTIمیں شمولیت کا اعلان کر رہے ہیں۔ 

PTIکشمیر کی طرف سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ آزاد کشمیر کی مختلف سیاسی جماعتوں سے مناسب وقت پر بڑی قد آوور شخصیات شمولیت کا اعلان کریں گی۔ آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں ’’بلے‘‘کے پے درپے زوردار شاٹس کے باوجود ’’بال‘‘ کوہالہ، آزاد پتن، ہولاڑ اور منگلا پل کی بائونڈریز پار نہیں کر سکا تھا۔ آزاد کشمیر کی 29نشستوں پر کوئی سنگل امیدوار بھی کامیاب نہیں ہوا تاہم مہاجرین جموںو کشمیر مقیم پاکستان کی 12نشستوں میں سے صوبہ خیبر پختون خواہ سے عبدالماجد خان اور پنجاب سے دیوان غلام محی الدین آزاد کشمیر اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہو سکے۔ موجودہ حالات میں مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر اگر خود سیاسی خود کشی نہ کرے تو اسے اپوزیشن سے دور ۔دور تک کوئی خطر ہ نہیں۔

اسوقت آزاد کشمیر میں قائم مسلم لیگ (ن) کی حکومت کامیابی سے اپنے 2سال مکمل کر چکی ہے۔ اگر اس دو سالہ کارکردگی کا مختصراً جائیزہ لیں تو کئی پہلوئوں سے مسلم لیگ ن آزاد کشمیر نے خطہ کی 70سالہ تاریخ میں کچھ غیر معمولی کامیابیاں سمیٹیں جن میں سے قابل ذکر 13ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آزاد کشمیر حکومت کو مالیاتی، انتظامی اور قانونی طور پر با اختیار بنانا، آزاد جموںو کشمیر کونسل کو قانون ساز ادارہ اور ایگزیکٹیو اتھارٹی کی بجائے ریاستی مشاورتی باڈی کا درجہ دے دیا جانا، جس سے جہاں مقبوضہ جموںو کشمیر میں بی جے پی کی حکومت نے محبوبہ مفتی کی کٹھ پتلی حکومت کو ہٹا کر گورنر راج قائم کیاوہاں ایسے موقع پر آزاد کشمیر میں اختیارات کی اس منتقلی کا زخم خوردہ کشمیریوں کو انتہائی مثبت و تعمیری پیغام گیا۔

پہلی بار لیفٹیننٹ جنرل(ر) محسن کمال کی سربراہی میں انتہائی اعلیٰ شہرت کی حامل شخصیات کو ممبر بنا کر ایک غیر جانبدار و باوقار پبلک سروس کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آزاد کشمیر کے 10اضلاع کے ڈسٹرکٹ اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کے 11ہسپتالوں میں 24گھنٹے فری ایمرجنسی سروسز کا اجراء ہوا۔ پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ترقیاتی بجٹ 11ارب سے بڑھا کر 25ارب روپے کر دیا گیا۔ آزاد کشمیر کو معاشی خود کفالت کی منزل کے قریب تر، غیر ضروری اخراجات کم، اور آمدن میں اضافہ کرنے کیساتھ وفاقی محصولات میں 26سال بعد آزاد کشمیر کا حصہ 2.4سے بڑھا کر 7.3کروایا گیا۔ اس دو سالہ دور حکومت میں 3ارب 54کروڑ 50لاکھ مالیت کے 15ہزار سے زائد چھوٹے بڑے دیہی ترقی کے منصوبہ جات تکمیل پذیر ہوئے۔

تازہ ترین
تازہ ترین
تازہ ترین