• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عجب وقت آیا ہے کہ جن کی زبانیں گز بھر کی ہیں اور وہ اپنی بے زبانی پر آہیں بھرتے اور آنسو بہاتے رہتے ہیں کہ وہ تو اپنے دل کی بات زبان پر نہیں لا سکتے۔ اس پر بھی شکایت یہی ہے کہ حقیقت کے اظہار پر پابندی ہے اور اندر ہی اندر جمہوری عمل کی بنیادیں ہلائی جا رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن جو سیاسی مکالمے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ انتخاب ہارنے کے بعد کسی لاگ لپیٹ کے بغیر کہہ رہے ہیں کہ عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے حالانکہ ہماری مقتدر قوتیں تو ہمیں ڈاکوؤں اور سرپھروں سے اپنی جان پر کھیل کر محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔


میں چند روز پہلے الیکشن کمیشن کے سیکرٹری محترم بابر یعقوب کا ’’بھاشن‘‘ سن رہا تھاکہ تمام سیاسی جماعتوں کو شفاف انتخابات کے سامنے سرِتسلیم خم کردینا اور الیکشن کمیشن کی جاں فشانی اور دیانت داری پر ایمان لے آنا چاہیے کیونکہ اِس بار تاریخ کے شفاف ترین انتخابات ہوئے ہیں۔ یہی صاحب 2013ء کے انتخابات میں بلوچستان کے چیف سیکرٹری اور نواب غوث بخش باروزئی نگران وزیراعلیٰ تھے۔ عالی مرتبت باروزئی بیان کرتے ہیں کہ چیف سیکرٹری صاحب نے انتخابات میں دھاندلی کے بجائے کمال ’’استادی‘‘ کا مظاہرہ کیا اور میرے چھوٹے بھائی کو جو اپنے علاقے میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اُسے بھی شکست سے دوچار کر دیا۔ غالباً اُنہوں نے 2018ء کے انتخابات میں بھی کچھ ایسے ہاتھ دکھائے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں چیخ اُٹھی ہیں اور عوامی مینڈیٹ چرانے کا الزام لگا رہی ہیں۔ دو روز بعد الیکشن کمیشن کے ترجمان ایک ٹی وی چینل پر آئے اور پاکیٔ داماں کی ایک ایسی حکایت بیان کرتے رہے جسے سن کر مجھے بے اختیار میر مستحسن خلیقؔ کا شعر یاد آیا؎


مثلِ آئینہ ہے اس رشک ِقمر کا پہلو


صاف اِدھر سے نظر آتا ہے اُدھر کا پہلو


اب انتخابات کا ہر پہلو شفاف نظر آتا ہے۔۔۔ پوری طرح صاف اور عریاں۔ پاکستان کے فاضل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار بیان کرتے ہیں کہ انتخابات کے دن میں نے چیف الیکشن کمشنر صاحب کو تین بار فون کیا، مگر اُدھر سے کوئی جواب نہیں آیا۔ شاید وہ سوئے ہوئے تھے۔ جس ادارے پر آئین کی طرف سے آزادانہ، دیانت دارانہ اور منصفانہ انتخابات کی ذمہ داری عائد تھی، اس کا سربراہ گھوڑے بیچ کر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا ہو، تو کوئی بھی سانحہ پیش آ سکتا تھا، چنانچہ ذہنوں کو ماؤف کر دینے والا حادثہ رونما ہوا۔ یہ سمجھ میں ابھی تک نہیں آیا کہ آر ٹی ایس نے کیوں کام کرنا بند کیا، پریذائیڈنگ افسروں کو انتخابی نتائج ریٹرننگ افسروں تک پہنچانے میں اڑتالیس گھنٹوں کی تاخیر کیوں ہوئی اور وقت پر فارم 45مطلوبہ دستخطوں کے ساتھ فراہم کیوں نہیں کیے گئے۔ وہ قواعد جن کے تحت فوجی دستے انتخابات کو شفاف رکھنے کے لیے بلائے گئے تھے، ان میں واضح طور پر درج تھا کہ سیکورٹی عملہ اِس امرکا پابند ہو گا کہ وہ نتائج کی گنتی اور تمام ضابطے مکمل ہو جانے کے بعد پریذائیڈنگ افسروں کو نتائج سے بھرے تھیلوں کے ساتھ ریٹرننگ افسروں تک پہنچائے گا۔ اِن تحریری قواعد کی کھلم کھلا خلاف ورزی نے انتخابی شفافیت کو مختلف پہلوؤں سے اور مختلف مقامات پر داغدار کر دیا ہے۔ بلاشبہ انتخابی نتائج میں عوامی رجحانات کی عکاسی بھی ہوئی ہے، مگر انہونے واقعات کی غمازی بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ ایسے عوامل پیدا ہوئے جن سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 26حلقوں کے نتائج کا نوٹیفیکیشن روکنا پڑا اَور بروقت انتقالِ اقتدار کا مرحلہ کھٹائی میں پڑنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ ایسے میں الیکشن کمیشن جو ایک قابلِ احترام ادارہ ہے، اِس پر لازم آتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو مشتعل کرنے کے بجائے بردباری سے کام لے، غیر معمولی واقعات کی ہمہ پہلو جلدازجلد تحقیقات کرائے اور شکایات کے ازالے میں غیر معمولی مستعدی کا مظاہرہ کرے۔ اِس حکیمانہ روش سے بگڑے ہوئے معاملات سنوارنے میں بڑی مدد ملے گی اور احتجاج سے پیدا ہونے والی کشیدگی میں کمی واقع ہو گی۔


جناب عمران خاں نے اپنی پہلی گفتگو میں قومی مصالحت کا عندیہ دیا۔ یوں لگتا تھا کہ اُنہوں نے زیتون کی شاخ ہاتھ میں تھام رکھی ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اپوزیشن کی نشان دہی پر ہمیں حلقے کھولنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی، حالانکہ قانون کے مطابق حلقے صرف الیکشن کمیشن کی ہدایات پر کھولے جا سکتے ہیں۔ اُن کے اِس مصالحانہ رویے کی بڑی ستائش ہوئی، مگر جب مسئلہ اُن کی اپنی ذات کا پیدا ہوا، تو سارا پول کھل گیا۔ قومی اسمبلی کے حلقہ 131 میں خواجہ سعد رفیق اُن سے چند سو ووٹوں سے ہارے، تو اُنہوں نے دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا۔ عمران خاں صاحب کے وکیل نے ٹریبونل میں اِس مطالبے کی مخالفت کی۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر گنتی شروع ہوئی، تو پانچ پولنگ سٹیشنوں پر خواجہ صاحب کے ووٹ 117زیادہ نکلے۔ اِس پر خاں صاحب کے وکیل جناب بابر اعوان سپریم کورٹ چلے گئے۔ فاضل چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے دوبارہ گنتی روک دینے کے احکام صادر کر دیے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں قانون کی باریکیاں نہیں سمجھتا اور حکمت ودانش میں معزز جج صاحبان مجھ سے بدرجہا برتر ہیں، مگر میں اُنہی کے ذریعے فطری انصاف کے تصور سے روشناس ہوا اَور اِس امر پر یقین پختہ ہوا کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔ میری ناقص رائے میں خاں صاحب کو سپریم کورٹ میں جانے کے بجائے دوبارہ گنتی کا خیرمقدم کرتے ہوئے صحت مند روایت قائم کرنی چاہیے تھی۔


اُن پر ملک چلانے کی ذمہ داری آن پڑی ہے، اِس لیے اُنہیں اپنی ذات سے اوپر اُٹھنا اور مصنوعی فضا سے باہر آنا ہو گا۔ وہ پشاور میں نیب کے سامنے پیش ہوئے، تو واپسی میں گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے ایک ایسی ویڈیو وائرل کی گئی جس میں ذاتی پندار جھلک رہا تھا اور سیاسی حریفوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی بُو آ رہی تھی۔ بے شک وہ ایک مقبول عوامی رہنما کی حیثیت سے اُبھرے ہیں، لہٰذا اُنہیں اچھی حکمرانی اور قانون کی عمل داری قائم کرنے کے لیے ایک غصیلے اور بے پروا سیاست دان کے بجائے ایک دوربیں مدبر کا کردار اَدا کرنا ہو گا۔ دو روز پہلے اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان الیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرہ کیا جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہزاروں مظاہرین نے افغانستان اور ایران کی طرف جانے والے تجارتی راستے بند کر دیے اور کراچی کے داخلی اور خارجی راستے بھی گھنٹوں بند رہے۔ اِن مظاہروں سے صورتِ حال کی سنگینی کا شدید احساس ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان دشمنوں میں گھرا ہوا ہے۔ اِس خوفناک چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے سیاسی زعما اور قومی اداروں کو داخلی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہو گا۔ اُنہیں ایک دوسرے پر الفاظ کے تیر چلانے کے بجائے دانائی اور وسیع الظرفی کا ثبوت دینا چاہیے۔ یہ امر کسی حد تک اطمینان بخش ہے کہ اپوزیشن کی جماعتیں سسٹم سے وابستہ رہتے ہوئے اپنا کردار اَدا کرنا چاہتی ہیں اور پارلیمان کی اہمیت کا شعور پہلے کے مقابلے میں حددرجہ توانا نظر آتا ہے جبکہ ’’بے زبانی ہے زباں میری‘‘ کے فریب کا پردہ چاک ہوتا جا رہاہے۔ سوشل میڈیا نے خیالات کو حیرت انگیز توانائی عطا کی ہے۔ اِس موقع پر قوم کو عمران خاں اور تجربے کار سیاست دانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کامل یک جہتی کے ساتھ بحرانوں کے بھنور سے باہر آنا اور عظیم امکانات کی دنیا تسخیر کرنا ہو گی۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین