• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج سے تقریباً دو سال قبل پاکستانی کرکٹرز کا ایک سکینڈل منظر عام پر آیا جس میں الزام لگا کہ لارڈز ٹیسٹ کے دوران فاسٹ باؤلرز محمد آصف اور محمد عامر نے جان بوجھ کر نو بالز پھینکیں ،اس کام کے لئے انہیں کپتان سلمان بٹ نے اکسایا اور غیر قانونی رقوم حاصل کیں ۔سکینڈل کے ساتھ ہی مارکیٹ میں نت نئی سازشی تھیوریاں وجود میں آ گئیں جن میں سے ایک تھیوری بے حد مقبول ہوئی کہ چونکہ ہمارے فاسٹ باؤلرز دنیا کے بلے بازوں کے لئے بے حد خطرناک ثابت ہو رہے تھے لہٰذا یہود و ہنود نے ایک سازش کے تحت انہیں اپنے جال میں پھنسا کر ان کا کیرئیر ختم کروا دیا ۔لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ نہ صرف آئی سی سی نے ان کرکٹرز پر پابندی لگائی بلکہ برطانیہ کی ایک عدالت نے بھی انہیں سزا سنا دی ۔عین ممکن تھا کہ ہم عدالت کے فیصلے کو ہی نہ مانتے اور کہتے کہ جج چونکہ انگریز تھا اس لئے وہ بھی سازش کا حصہ تھا مگر اب اس بات کا کیا کریں کہ محمد عامر نے عدالت میں اقبال جرم ہی کر لیا تھا اورسازشی تھیوری کا اینٹی کلائمکس ہو گیا!
2 مئی 2011ء کو امریکی فوجیوں نے ایبٹ آباد آپریشن کے دوران اُسامہ بن لادن کو ہلاک کیا اور اس کی لاش سمندر برد کر دی ۔پہلے تو ہم نے یہ ماننے سے سرے سے ہی انکار کر دیا کہ اُسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں موجود تھا اور وہ اس آپریشن کے دوران ہلاک ہوا ۔ہم کہتے رہے کہ امریکیوں نے کوئی جعلی اُسامہ مار کر ہمیں بے وقوف بنایا ہے ۔کچھ عرصہ بعد جب ہمیں محسوس ہوا کہ یہ تھیوری زیادہ ہِٹ نہیں ہو سکی تو ہم نے ایک اور تھیوری ایجاد کی اور دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ دراصل اُسامہ ایبٹ آباد میں نہیں بلکہ اس سے بہت پہلے یعنی 2006میں فوت ہو چکا تھا اور اسی وقت پاکستانی ایجنسیوں نے اس کی ”باڈی“ امریکیوں کے حوالے کر دی تھی۔اس تھیوری کی حمایت میں تراشے گئے دلائل بھی نہایت دلچسپ ہیں ۔مثلاً ،اگر اُسامہ ایبٹ آباد میں ہلاک ہوا تھا تو امریکیوں نے اس کی لاش سمندر میں کیوں پھینک دی ،اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کر کے ہمیں کیوں نہیں دکھایا گیا ؟ کس قدر لطیف نکتہ ہے۔ با الفاظ دیگرہونا یہ چاہئے تھا کہ امریکی فوجی اُسامہ کو ہلاک کرنے کے بعد وہیں چادر بچھا کر بیٹھ جاتے اور ”گٹکیں“ پڑھنی شروع کر دیتے ،لوگ آکر شیخ کا چہرہ دیکھتے،اپنی تسلی کرتے ،تین دن بعد وہیں امریکیوں کی معیت میں قُل کروائے جاتے ، ”ساتا“ کیا جاتا ، دسواں ہوتا اور اس بعد چالیسواں ،پھر کہیں جا کر ہمیں یقین آتا کہ واقعی ہلاک ہونے والا اُسامہ بن لادن ہی ہے ۔لیکن نہیں ،ٹھہریئے، پھر بھی کیوں یقین آتا ۔اس صورت میں ہم کہتے کہ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ امریکی اتنی آسانی سے ہمیں اُسامہ کی لاش دکھا دیں،اصل اُسامہ ہوتا تو یہ کافر اس کی لاش فورا ً سمندر برد کر دیتے ۔لیکن افسوس کہ یہ تھیوری بھی مارکیٹ میں اتنی نہ بِک سکی جتنی امید تھی ۔اب کوئی اُسامہ کی دو عدد بیواؤں اوران بچوں کو کہا ں لے جائے جو 2006کے بعد دنیا میں آئے ؟
اسی طرح ہم بے شمار سازشی تھیوریاں ایجاد کر رکھی ہیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ پوری مغربی دنیا اور امریکہ ہمارے خلاف ہے کیونکہ ہم ایک عظیم قوم ہیں ۔ہم یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ ہم میں کوئی خرابی ہو سکتی ہے،ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری ناکامیوں کی وجہ ہماری نالائقی یا محنت سے فرار نہیں بلکہ وہ سازشیں ہیں جو ہمارے دشمن ہمارے خلاف کرتے ہیں۔حقائق سے منہ موڑنے اور تکلیف دہ سچ کا سامنا نہ کرنے کی اس کیفیت کو ”Denialism“ کہتے ہیں ۔
Denialismکے شکارافراد یا اقوام عموماً مقبول نقطہ نظر کو جوش خطابت کے ذریعے مستند ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ اس عمل کے دوران اپنے ”دلائل“ کو ”ٹھوس“ ظاہر کرنے کے لئے جن تدابیر کا سہارا لیا جاتا ہے وہ نہایت دلچسپ ہیں ۔ان میں سب سے موثر ہتھیار ”سازشی تھیوری“ ہے۔کوئی شخص کتنے بھی اعداد و شمار اکٹھے کرلے، آپ کا کام فقط اتنا ہے کہ اسے کہیں بھیا تم سی آئی اے کے ایجنٹ ہو اور ایک سازش کے تحت سچ کو چھپا رہے ہو،بس ہو گئی چٹھی ۔اگر اس تکنیک سے کام نہ چلے پھر Cherry Pickingسے مدد حاصل کریں ۔یعنی صرف اپنے موقف کی حمایت میں میسر مواد کا حوالہ دیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ تمہاری تحقیق تو نہایت کمزور ہے ۔آج کل اس کی مشہور مثال Stanford Universityکی رپورٹ ہے جو ڈرون حملوں کے ضمن میں تیار کی گئی ہے، عام حالات میں ہم مغربی ذرائع کا حوالہ نہیں دیتے کیونکہ وہ ہمارے خلاف سازش کرتے ہیں لیکن یہ رپورٹ چونکہ ہمارے مقبول موقف کے حق میں ہے لہٰذایہاں Cherry Pickingدرست ہے ۔یہ اور بات ہے کہ مغربی دنیا میں ڈرون حملوں پر دیگر رپورٹیں بھی موجود ہیں جو ہمارے موقف کی حمایت نہیں کرتیں۔اپنے حریف کو چت کرنے کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنے موقف کی حمایت میں کسی بھی نامعلوم یا غیر مصدقہ ذرائع کا حوالہ دے دیا جائے،کسے اتنی فرصت ہے کہ تصدیق کرتا پھرے۔ اگراس سے بھی بات نہ بنے اور آپ کا مخالف کوئی نا قابل تردید قسم کی دلیل آپ کے منہ پر ماردے تو اس دلیل میں سے کوئی چھوٹا موٹا نقطہ یا ٹائپ کی غلطی نکال کر اسے کہیں کہ اب یہ دلیل باطل ہو گئی ہے کوئی نیا ثبوت لاؤ۔ Denialismکے تحت حقائق کو جھٹلانے والے لوگ جو سچ کا سامنا نہیں کرنا چاہتے ،ایسے ہی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اور اگر خدا نخواستہ ان میں سے کوئی بھی کام نہ آئے تو پھر ایک تیر بہدف نسخہ جو اپنے دیس میں چلتا ہے یہ ہے کہ دلیل کا جواب گالی سے دے دیا جائے ،مخالف کو خود ہی آرام آ جائے گا۔
کالم کی دُم: 1)میرے گذشتہ کالم کے جواب میں بہت ہی محترم حامد میر صاحب نے اگلے روز ایک کالم لکھا جس میں انہوں نے اس خاکسار کو ”لبرل فاشسٹ“ کے خطاب سے نوازا۔چونکہ یہ خطاب دینے کا صوابدیدی اختیار صرف میر صاحب کو ہے سو قبول ہے ۔2 )برطانوی صحافی رابرٹ فسک نے 19مارچ 2010کو روزنامہ ”دی اینڈیپنڈنٹ“ میں ایک سٹوری فائل کی جس میں انہوں نے ڈاکٹر شمس الحسن فاروقی کے روبرو بیٹھ کر یہ اعتراف کروایا کہ 2008میں عافیہ ان سے ملی تھی ،یقینا ایک ماموں سے زیادہ اپنی بھانجی کو کوئی نہیں پہچان سکتا ۔یاد رہے کہ رابرٹ فسک وہ صحافی ہے جسے سات مرتبہ انٹر نیشنل جرنلسٹ آف دی ائیر قرار دیا جا چکا ہے۔میں کبھی شمس الحسن فاروقی سے نہیں ملا، کیا فرق پڑتا ہے،میں تو کبھی آئن سٹائن سے بھی نہیں ملا۔3)عدالتی کاروائی کے تمام حقائق 27نومبر 2010کے ”دی نیوز “ میں شائع ہو چکے ہیں ،یہ سٹوری فائل کرنے والا کوئی غیر ملکی نہیں بلکہ ایک پاکستانی تھا جس نے نیویارک میں عافیہ صدیقی کیس کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کی۔ اسی رپورٹ اور پھر اپیل کے فیصلے سے حقائق لے کر خاکسار نے کالم میں لکھے جس کی کبھی تردید نہیں ہوئی۔ 4)حکومت پاکستان نے 2ملین ڈالر خرچ کر کے عافیہ صدیقی کے لئے امریکہ کے چوٹی کے وکیل مقرر کئے جن سے تعاون نہ کرنے کا فیصلہ کسی اور کا نہیں خود عافیہ صدیقی صاحبہ کا تھا۔اگر کوئی ثبوت کسی وکیل نے ”سازش“ کے تحت عدالت میں پیش نہیں کئے تھے تو وہ اپیل میں پیش کئے جاسکتے تھے ،اپیل پڑھتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ کسی بھی قسم کا ثبوت داخل ہونے سے نہیں رہ گیا۔ 5)محترمہ فوزیہ صدیقی کو طالبا ن کا خط ملنے کی تصدیق کی خبر پاکستان کے ایک نہایت معتبر انگریزی اخبار نے شائع کی۔6)اگر 2003میں عافیہ کی گمشدگی کا کوئی پرچہ کراچی کے کسی تھانے میں کٹا ہے تو سامنے آنا چاہئے ۔7)اگر مقدمے کے وکیل کی جنس تبدیل ہونے سے حقائق تبدیل ہو سکتے ہیں تو بسم اللہ دیر کس بات کی ہے۔8)اور رہ گئی بات میری ”ساکھ کو ناقابل تلافی نققصان “ پہنچنے کی تو میر صاحب سے دست بدستہ عرض ہے کہ آغا وقار نامی سائنس دان کا موبائل نمبر عنایت فرما دیں (جسے دریافت کرنے کا سہرا پورے ہند سندھ میں سوائے میر صاحب کے کسی کو نہیں جاتا) تاکہ میں اپنی گاڑی پٹرول سے پانی پر منتقل کروا کر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کروا سکوں ۔10)یہ تمام حقائق اپنی جگہ مگر عافیہ پر ڈھائے گئے مظالم کا کوئی قانونی جواز نہیں ۔
تازہ ترین