• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اے جواں!
جن بزرگوں نے پاکستان بنایا تھا تب وہ جوان تھے قائداعظم محمد علی جناح کے سپاہی تھے، ان جوانوں کو ایک بزرگ لیڈر ہی نے حصول پاکستان کے راستے پر ڈالا تھا، تجربہ، علم اور ذہانت کبھی بوڑھی نہیں ہوتی، مگر ان تینوں صلاحیتوں کو عمل اور طاقت کے سانچے میں یہی نوجوان ڈھالتے ہیں، جب پاکستان بنانے کی جدوجہد کا آغاز ہوا تو قائداعظم نے جوانوں ہی کو آواز دی تھی، انہیں نظریہ پاکستان سمجھایا تھا، کوئی ملک جب وجود میں آتا ہے تو اس کے بننے سنورنے کا عمل جاری رہتا ہے، اگر لیڈر شپ باصلاحیت ہو بے داغ ہو تو جوانوں کو سیدھا رستہ مل جاتا ہے اور ہدایت یافتہ قوت منزل کو پا لیتی ہے، ہم کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان ہمارے جوان بزرگوں نے بنایا تھا، اور اس کا پھل بھی کھایا تھا پھر وہ بزرگ ہو گئے ان میں بھی بے داغ قیادت کی صلاحیت تھی اور جوانوں کو راہ دکھاتے چلاتے رہے، پھر اس شفاف جَل میں ایک آدھ مچھلی کہیں سے داخل ہو گئی اور سارے جل کو خراب کر دیا، پاکستان کی تعمیر و ترقی کی جگہ ہوس اقتدار و دولت نے لے لی، یہ چلن زور پکڑ گیا اور یہاں سیاست و جمہوریت کی گود میں کرپشن پلنے لگی، اس غلیظ عمل کو اتنی پذیرائی ملی کہ پاکستان چند خاندانوں کا مقبوضہ وطن بن گیا، غربت جو خوشحالی کی جانب رواں تھی مزید بڑھتی گئی، اکثر کماتے اور ایک اقلیت کھاتی، تاآنکہ ہماری کمائیاں ایک مخصوص طبقہ بیرونی ممالک میں محفوظ کرنے لگا، آج کا جواں سارا کھیل سمجھ چکا ہے صرف پھر سے اس جذبے اور جدوجہد کی ضرورت ہے جو ان کے بزرگوں نے اپنی جوانی میں قائداعظم کی قیادت میں دکھائی تھی، آج کے پاکستانی جوان کے پاس قائد و اقبال کا فکر اور اپنے بزرگوں کا تجربہ موجود ہے، اب مزید اس ملک کی دولت کسی موقع پرست کے حوالے نہیں کی جا سکتی، جوانوں کو ایک پیج پر متحد ہونا ہو گا، ان کے پاس 70سال کے تلخ و شیریں تجربات اور تاریخ موجود ہے، اسی کو رہنما بنا کر پاکستان کو اپنے لئے ایسا بنا دیں کہ تلاش رزق کے لئے کسی کے در پر نہ جانا پڑے، ہمارے پاس سب کچھ ہے ہم سے چھین لیا جاتا ہے اور وہ ہمارے نام نہاد اپنے ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭
الفاظ کا غلط چنائو بے نیام تلوار
عمران خان نے پارٹی ارکان سے کہا ہے تلواریں نیام میں رکھیں حکومت بنانی اور کرنی ہے جب حق باطل کے سامنے نبرد آزما تھا، اسلام کو پھیلانا مقصود تھا تب بھی بات چیت سے معاملات طے کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی تھی اور جب اس سے بھی کام نہ چلتا اور دشمن چڑھ دوڑنے پر تل جاتا تھا تب رسول اللہ ﷺ جہاد کا اعلان کرتے اور جنگ کا ضابطہ اخلاق ہر مجاہد کو ازبرکرا دیتے تھے، وہ تو معرکہ کفر و اسلام ہوا کرتا تھا، آج ہم اپنے وطن میں اپنے بھائیوں بہنوں میں رہتے ہیں ہمارے اندرونی اختلافات اور غلط فہمیاں بھی ہو سکتی ہیں جن کے حل کے لئے تلوار کی نہیں پیار کی ضرورت ہے، پیار کی دھار کے آگے تو ہمالہ بھی لیٹ جاتا ہے، پھر یہ تلوار کا نیام کا ذکر ہی کیوں، ہم جانتے ہیں کہ عمران کی مراد شمشیر زنی سے روکنا نہیں تھا بلکہ وہ حسن اخلاق سے معاملات طے کرنے کی تلقین کر رہے تھے مگر لفظوں کے انتخاب نے اچھا تاثر قائم نہیں کیا، ہمارے گائوں میں ایک نوجوان نے جب پہلی بار پتلون پہنی تو میرے ایک تبلیغی ماموں اس کے دروازے پر پہنچ گئے، وہ لڑکا پتلون پہنے نکلا تو میرے ماموں جان نے چھوٹتے ہی اسے کہا یہ تم نے کیا دو نالی بندوق پہن رکھی ہے؟ اور اس نوجوان نے زور سے کواڑ بند کر لیا، اول تو پتلون پہننا ناجائز نہیں اور اگر میرے ماموں کے اسلام میں یہ ناجائز بھی تھی تو اپنا موقف اچھے الفاظ میں بھی بیان کیا جا سکتا تھا اور اس طرح ممکن ہے وہ ان کی غلط بات بھی مان لیتا، میں اگرچہ بچہ تھا مگر حافظہ بچہ نہیں تھا واقعہ ذہن میں محفوظ ہو گیا تھا اور آج سنا ڈالا، مقصد سادہ سا ہے کہ ضرور اپنی بات کریں مگر یہ قرآنی کمانڈمنٹ ہرگز نہ بھولیں کہ ’’قولو اللناس حسنا‘‘ (لوگوں سے خوبصورتی سے بولو) خان صاحب اچھائی کی تلقین کرنا چاہتے ہوں گے مگر الفاظ کے انتخاب میں ذرا سا رکھ رکھائو بھی رکھتے تو اپوزیشن سمجھ لیتی کہ لیڈر نے غلط بات پر بہتر انداز میں ٹوکا نہیں چلایا۔
٭٭٭٭
مالک کی عدم موجودگی میں بھی خربوزہ چوری نہ کریں
ہمارے اور ہمارے تایا جان کے خربوزوں کے کھیت ساتھ ساتھ تھے، کئی بار میں تایا کے پہنچنے سے پہلے پہنچ کر ان کے موٹے پکے ہوئے خربوزوں کی ’’وَل‘‘ اپنے کھیت میں نہایت صفائی سے منتقل کر دیتا اب کھیت تو ہیں مگر تایا جان اس دنیا میں نہیں مگر مجھے لڑکپن کی یہ چوری ڈستی رہتی ہے، اور پریشان ہوں کہ روز قیامت میں وہ تمام مسروقہ خربوزے کیسے پورے کر کے تایا جان کے حوالے کروں گا؟ اس لئے آج کچھ تلافی کرنے کی خاطر دوسروں کو خبردار کرتا ہوں کہ چاہے حکومت ہو نہ ہو ہمیں کچھ بھی چوری نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ ایک آنکھ جو نہ سوتی ہے نہ اونگھتی، دیکھتی رہتی ہے کہ ہم میں کون کیا چوری کر رہا ہے، بالخصوص جب سب گہری نیند سو رہے ہوتے ہیں اور ان کا رب جاگ رہا ہوتا ہے، ہم نے اکثر دیکھا ہے سارجنٹ موجود نہ ہو تو ہم ذوق شوق سے اشارہ توڑ دیتے ہیں۔ سعودیہ میں ٹیکسی میں بیٹھا تھا، عرب ڈرائیور چلا رہا تھا۔ آدھی رات کا وقت تھا چوراہے میں ٹریفک سپاہی کجا کوئی آتی جاتی گاڑی بھی نہ تھی، میں نے عرب ڈرائیور سے کہا ٹریفک بھی نہیں پولیس بھی نہیں چلے چلو رُک کیوں گئے، اس نے جواب دیا مگر ریاست کا قانون تو موجود ہے اور اشارہ کھلنے پر روانہ ہوا، ہم نے محسوس کیا ہے کہ نگراں حکومت کے دوران وارداتوں میں تیزی آئی، حالانکہ نگرانی میں کوئی کسر نہ تھی مگر یہ سوچ تباہ کن کہ نگران حکومت ہے آج ہے کل نہیں ہو گی، قانون ہاتھ میں لے لو، ہر روز لاشیں گرتی ہیں، ہر روز یتیموں بیوائوں میں اضافہ ہوتا ہے اور ہنستے بستے گھر اجڑتے ہیں مگر ہم باز نہیں آتے، آج صرف قصاص کا قانون رائج کر دیا جائے، تو کسی کا ناخن بھی نہیں ٹوٹے گا، قرآن حکیم نے کہا:’’ولکم فی القصاص حیاۃ‘‘ (اور تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے) شاید ’’ریاست مدینہ‘‘ میں ایسا ہو جائے، بہرحال ہمارا مدعا یہ ہے کہ ضمیر کا پہرہ ہو تو ناکے لگانے کی کیا ضرورت؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین