• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عورت ہی عورت کی دشمن ہے، یہ بات شاید سننے میں اچھی نہ لگے مگر جب ہم نے عورت پر ہونے والے ہر ظلم کی داستان کو اس کے پس منظر کے ساتھ دیکھا، تو میں یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ عورت ہی عورت کی اصل دشمن ہے ۔ تاریخ اٹھائیںیا حال پر نظر دوڑائیں ، یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ، آپس کی دشمنی میں ایک عورت، دوسری عورت کو تباہ کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑتی اور اس میں ہتھیار بنتا ہے مرد .....مرد جب پہلے ہی عقل سے کام لینے سے انکار کر چکا ہو تو پھر عورت کا کام اور آسان ہو جاتا ہے۔ اب عورت اسے دوسری کے خلاف اکساتی ہے اور پھر مرد بم دھماکے کی طرح قہر برسانا شروع کر دیتا ہے ۔

یہ بات درست ہے کہ عورت کو معاشرے میں مکمل حقوق ملنے چاہیے ،ایک مکمل اور بھرپور انسان ہونے کی حیثیت سے اسے ذات کا تخفظ ملنا چاہیے ، اسے ان حقوق کو حاصل کرنے کے لیے ہر جنگ لڑنی چاہیے ۔بے شک اس مردوں کے معاشرے میں عورت ہی ہے جو بقا کی جنگ لڑ رہی ہے ،مگر اس کے باوجود اسے بے شمار مسائل کا سامنا ہر روز رہتا ہے اور اس کی سالمیت کو آئے دن خطرہ رہتا ہے ۔بےشک معاشرے میں بےشمار سماجی خرابیاں ہیں، مگر ایک چیز کہیں ہم بھول نہیں رہے کہ ان سب میں کہیں تھوڑا سا قصور عورت کا بھی تو نہیں ہے ۔

ذرا سوچیے !وہ کون ہے جو دوسری عورت کے راز افشاءکرتی ہےاس پر الزام تراشی کرتی ہے،بدکردار کہتی ہے؟ وہ کون ہے جو دوسری عورت کو جہنم واصل کرتی ہے،جو دوسری عورت کو سرعام رسوا کرتی ہے؟ وہ کون ہے جو دوسری عورت کے پیدا ہونے پر ایک عورت کو منحوس کہتی ہے ۔وہ کون ہے جو مرد کے لئے دوسری عورت کو ذلیل کرتی ہے؟ وہ کون ہے جو مرد کو اکساتی ہے دوسری عورت پر قہر برسانے کےلئے ۔

وہ ایک عورت ہے ،جو یہ سب کرتی ہے ۔وہ ایک عورت ہے جو ادھر کی بات ادھر کرتی ہے اور گھر تباہ کرتی ہے ۔اس سب کے پیچھے وہ غلط سوچ ہے وہ پچپن سے گھروں اور اردگرد سے ہمیں ملتی ہے ۔جہاں ایک ماں جب اپنے بیٹے اور بیٹی میں فرق کرتی ہے، جہاں ایک ماں خود عورت ہونے کے باوجود صرف بیٹے کی پیدائش چاہتی ہے، جہاں ایک ماں بیٹا ہونے پر فخر کرتی ہے اور بیٹی ہونے پر برا مانتی ہے، جہاں ایک عورت اپنا حق خود چھوڑتی ہے اور یہی ترغیب دیتی ہے ۔جہاں ایک ماں اپنی بیٹی کو تو دنیا کی سب خوشیاں دینا چاہتی ہے مگر دوسروں کی بیٹی کو کوئی خوشی بھی نصیب نہیں ہونے دیتی ۔

یہ مسئلہ تب بھی بنتا ہے جب ماں اپنی بیٹی کو تو دنیا کی سب سے سندر، ذہین اور سلیقہ شعار سمجھتی ہے اور اس کے سامنے دوسروں کی برائیاں کرتی ہے اور دوسروں کی بیٹیوں کی تذلیل کرتی ہے ۔جب وہ لڑکی اس سوچ کے ساتھ گھر سے باہر زندگی کے میدان میں قدم رکھتی ہے تو اسے حقیقت سے آگاہی ہوتی ہے کہ کئی معاملات میں دوسری لڑکیاں اس سے زیادہ خوبیاں رکھتی ہیں تو وہ اس چیز کو قبول کرنے کی بجائے اپنے اندر مذاحمت پیدا کر لیتی ہے اور پھر مقابلے بازی پر اتر آتی ہے جو آگے چل کر حسد اور تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے ۔

اس سب سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے اندر دوسروں کو قبول کرنے کا حوصلہ ہو اور ہمیں معلوم ہو کہ کیسے اپنے ساتھ ساتھ دوسرے کی اچھائیوں کو بھی ماننا ہے اور اپنی حامیوں کو بھی قبول کرنا ہے ، ہمارے گھروں سے ہمیں سب ملتا ہے سوائے دوسروں کو قبول کرنے کے ظرف کے ، مگر ہمیں دوسروں کو قبول کرنا سیکھنا ہے تاکہ ہم نہ صرف اس مقابلے بازی سے محفوظ رہیں بلکہ اپنے اور دوسروں کی بھلائی کا باعث بنیں ۔

آئیں ! عورت کی عورت کے ساتھ اس جنگ کا خاتمہ کریں اور ایک دوسرے کو محبت اور احترام سے قبول کریں تب ہی ہم مل کر اس معاشرے کی برائیوں کا مقابلہ کر سکیں گے، کیونکہ اگر عورت عورت کی ڈھال بن جائے گی تو پھر کوئی اس ڈھال کا مقابلہ نہیں کرسکے گا ۔

تازہ ترین