• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جولائی کے اواخر میں وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کی سربراہی میں قائم حکومت نے اپنے دو سال مکمل کرلئے جسے بحیثیت مجموعی اپنے پیشرؤں کے مقابلے میں بہتر قرار دیا جاسکتا ہے- اقتدار میں آنے سے پہلے راجہ حیدر نےتعمیر اور ترقی کے علاوہ خطے میں بےپناہ کرپشن اور اقرباپروری کے خاتمے کی ضمانت دی- اسکے علاوہ آپ نے بیجا اخراجات پر قدغنیں لگانے کیساتھ ساتھ بےلگام بیوروکریسی کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کے وعدے بھی کئے- دو سال کے مختصر عرصے میں حکومت نے کئی معاملات میں بہتر کارکردگی دکھائی ہے جس میں صحت عامہ اور تعلیم کے نظام میں بہتری شامل ہے- اسکے ساتھ ہی گاؤں کی سطح پر تعمیر اور ترقی کی کئی ا سکیمیں بھی شروع کیں جس سے لوگوں کو کافی فائدہ ہوا ہے- حکومت پبلک سروس کمیشن کا قیام بھی عمل میں لائی اور سرکاری ملازمتوں کے حصول کیلئے نظام میں قابل قدر بہتری بھی پیدا کی جس سے ہونہار افراد کیلئے روزگار کے مواقع اور انکے حصول کیلئے آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں- ساتھ ہی ٹیکنیکل ٹریننگ کے نئے نئےمواقع بھی پیدا کئے جارہے ہیں تاکہ نوجوانوں کے آگے بڑھنے کیلئے طرح طرح کے مواقع پیدا کئے جائیں- فاروق حیدر مرکز میں قائم حکومت سے وفاقی ٹیکس اور ہائیڈرو پاور کے محصولات میں بڑھوتری کروانے میں بھی کامیاب ہوگئے جس سے خطے کی تعمیر اور ترقی کیلئے فنڈز کی بہتر دستیابی پیدا ہوگئی ہے- مزید برآں انکی حکومت وفاقی حکومت کے اشتراک سے اپنا سالانہ ترقیاتی بجٹ دگنے سے بھی زیادہ کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے جو ایک بہت ہی خوش آئند بات ہے-


راجہ فاروق حیدر کی حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین میں تیرھویں ترمیم کی کامیابی ہے جس سے صوبے کی حکومتی کارکردگی اور یہاں کے عوام پر کافی صحتمند اور دیرپا اثرات مرتب ہوں گے- اس سے صوبائی حکومت کو تمام تر قانونی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات حاصل ہوگئے ہیں جو اس سے پہلے جموں و کشمیر کونسل کے ہاتھ میں تھے جو غیر منتخب افراد پر مبنی ایک ادارہ ہے جسے ماضی میں ایک متوازی حکومت بھی کہا جاتا تھا- عبوری آئین میں تیرھویں ترمیم کے بعد عوامی چناؤ سے بننے والی صوبائی اسمبلی ہی تمام اختیارات کا مرکز بن گئی ہے جبکہ ماضی میں تمام تر اختیارات والی جموں و کشمیر کونسل کو اب صرف صلاح کار کا درجہ حاصل ہوگا-اس ترمیم کے بعد خطے کے لوگوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے اور انہیں دیگر شہریوں کے برابر اور بہتر حقوق میسر ہوں گے- میری ذاتی رائے میں آئین کی تیرھویں ترمیم ایک بہت بڑا اور انقلابی اقدام ہے۔ اس تاریخی اقدام کے بعد اب مقامی حکومت پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ خطے اور عوام کی بہتری کیلئے تندہی سے کام کرے- حال ہی میں آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے اس کا اعادہ کیاہے کہ موجودہ حکومت صحت اور تعلیم کے شعبوں کو بہتر بنانے کیلئے کئی اقدامات کر رہی ہے-انہوں نے حکومت کی جانب سے سیاحت، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے بنیادی انفراسٹرکچر کوبھی ترجیح دینے کی بات کی-


صدر جناب مسعود خان نے جن تین شعبوں کی طرف اشارہ کیا ہے ان میں واقعی کام کرنے کی بہت ضرورت ہے- اگرچہ آزاد جموں و کشمیر میں خواندگی کی شرح پاکستان کے مقابلے میں کافی بہتر ہے مگر اسکے میعار میں بہتری کی کافی گنجائش ہے- اسی طرح صحت کے معاملے میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لائن آف کنٹرول پر طرفین کے درمیان آئے روز ہونے والی گولہ باری میں سویلین افراد کی اموات میں بے پناہ اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں پر ایمرجنسی علاج کی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔ آزاد کشمیر میں سیاحت کے بہت بڑے امکانات موجود ہیں اور میری ذاتی رائے میں خطے میں دوسری جانب قائم ریاست جموں و کشمیر سے بھی بہتر اور خوبصورت مقامات موجود ہیں۔ حکومت کو اس بات کا ادراک ہے اور یہی وجہ ہےکہ اب وہ آزاد کشمیر کی پہلی ٹورازم پالیسی ترتیب دے رہی ہے جس سے دور دراز علاقوں میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ صوبے کے چیف سیکرٹری نے حال ہی میں بتایا کہ حکومت نے خطے میں سیاحت کے فروغ کیلئے چار سو جگہوں کی نشاندہی کی ہے جن کو ترقی دے کر سیاحوں کو ان کی طرف راغب کیا جائے گا۔ اس ضمن میں حکومت کو چاہئے کہ وہ ملکی اور بین القوامی ماہرین سے بھی صلاح و مشورہ کرے تاکہ قدرتی وسائل کو بہتر طریقے پر استعمال کیا جاسکے۔ شاید آزاد حکومت ترک کوآپریشن ایجنسی ٹیکا سے بھی مدد لے سکتی ہےجو پہلے سے ہی علاقے میں کچھ پروجیکٹس پر کام کررہی ہے۔ ترکی دنیا میں سیاحت کے حوالے سے بہت آگے ہے اور ٹیکا ماہرین کی مدد سے انسانی وسائل کی تربیت میں مدد کرسکتا ہے۔


وزیراعظم راجہ فاروق حیدر صاحب کے حکومت بننے سے پہلے ان کے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کئے گئے وعدے ہنوز تشنہ تکمیل ہیں۔ حلف اٹھانے سے پہلے آپ نے دعوی کیا تھا کہ ’’پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت مسئلہ کشمیر کو اولیت دے گی۔ میں سرینگر کے لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم ان کے ساتھ اس وقت تک کھڑے ہیں جب تک کہ مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوجاتا۔‘‘ اس حوالے سے ان کے جذبات قابل قدر ہیں مگر وقت کی ضرورت یہ ہے کہ حالات کو حقیقت پسندانہ رویوں سے جانچا جائے۔ تاریخی حوالوں سے دیکھا جائے تو پاکستان اور آزاد کشمیر کی لیڈرشپ نے ہمیشہ اس مسئلے کو جذباتی انداز سے حل کرنےکی کوشش کی ہے جس سے مزید الجھنیں پیدا ہوئی ہیں۔ مزید کشمیر کے نام پر آزاد کشمیر کے بعض سیاستدان، لیڈران اور بیوروکریٹ ہر سال سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کرکے یورپ اور دیگر مغربی ممالک کی سیر کرتے ہیں جس سے کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا- یہ ’’سفارتی دورے‘‘ زیادہ تر گرمیوں میں کئے جاتے ہیں تاکہ یورپ کی متعدل آب ہوا میں وقت گزار کے آگ برساتے سورج سے نجات حاصل کی جاسکے- یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ موجودہ حکومت نےاس روا یت کو برقرار رکھا ہے اور گزشتہ دو سالوں میں اس قسم کے دوروں پر کئی کروڑ روپے خرچ کئے جاچکے ہیں- بہتر یہ ہے کہ حکومت اپنے محدود مینڈیٹ کو سامنے رکھتے ہوئے فائدہ مند اقدامات کرے تاکہ کشمیر کےمتاثرین کی امداد ہوسکے- حکومت کو چاہئے کہ 1990 سے نقل مکانی کرنے والے مہاجرین کی بہتری کی کوششیں کریں مثلا مظفرآباد اور اسکے گردونواح میں خیمہ بستیوں میں رہنے والے لوگوں کیلئے اگر مستقل رہائش کا انتظام کیا جاسکتا ہے تو اس سے کئی ہزار خاندانوں کی زندگیاں بہتر بنائی جا سکتی ہیں- اسی طرح راولپنڈی اور اسکے مضافات میں رہنے والے اکثر کشمیری کسمپرسی میں جی رہے ہیں انکی آبادکاری موجودہ حکومت کی ترجیحات میں ضرور شامل ہونی چاہئے-


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین