• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیپلز پارٹی ،جماعت اسلامی،غیر جانبداری ہوگئیں،وزیر اعظم کیلئے عمران کو شہباز پر واک اوور،تبصرہ نہیں کرنا چاہتا،شہباز شریف

اسلام آباد( طاہر خلیل‘ایجنسیاں)ملک کے 22ویں وزیراعظم کا انتخاب آج عمل میں لایا جائے گا جس کے لئے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور مسلم لیگ(ن) کے صدرمیاں شہباز شریف کے درمیان مقابلہ ہوگا‘پیپلزپارٹی اورجماعت اسلامی نے وزیر اعظم کے انتخاب میں غیرجانبداررہنے کا اعلان کردیا ہے جس کے بعد عمران خان کو شہبازشریف پر یقینی واک اوورمل گیاہے‘پیپلزپارٹی کے رہنماءسیدخورشیدشاہ کا کہناہے کہ ن لیگ کو بتادیاتھاکہ شہبازکے سواکسی کو بھی ووٹ دینے کیلئے تیارہیںتاہم حتمی فیصلہ آصف زرداری اور بلاول بھٹوکریں گےجبکہ جماعت اسلامی کے سیکر ٹری اطلاعات قیصر شریف کے مطابق ان کی پارٹی کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبد الاکبر چترالی وزیراعظم کے چناؤمیں کسی امیدوارکو ووٹ نہیں دیں گے‘دوسری جانب مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ وزارت عظمیٰ کے لئے پیپلز پارٹی کے فیصلوں پر تبصرہ نہیں کر نا چاہتا، اپوزیشن کے طے شدہ فیصلوں پر کاربند ہیں ۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق وزارت عظمیٰ کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے مقررہ وقت تک صرف 2 ممبران قومی اسمبلی عمران خان اور شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے۔ دونوں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے بعد نامزدگی فارم درست قرار دیتے ہوئے منظور کئے گئے۔ وزیراعظم کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس آج سہ پہر ساڑھے 3 بجے شروع ہوگا جس کے دوران قائد ایوان کا انتخاب خفیہ رائے شماری کی بجائے ایوان کی ڈویژن کیلئے ذریعے ہوگا‘ہر امیدوار کے لیے قومی اسمبلی ہال میں ایک ایک لابی مختص ہوگی، جو رکن جس امیدوار کو ووٹ دینا چاہے گا اس لابی میں چلا جائے گا جس کے بعد اراکین کی گنتی کے بعد اکثریت حاصل کرنے والا امیدوار ملک کا نیا وزیراعظم ہوگا‘قومی اسمبلی میں ابھی تک330ارکان نے حلف اٹھایا ہے جن میں سے وزیر اعظم منتخب ہونے کیلئے 166ووٹ درکار ہوں گے۔قومی اسمبلی کے قواعد کے مطابق 342 کے ایوان میں وزیراعظم کے انتخاب کے لیے کسی بھی امیدوار کو سادہ اکثریت یعنی 172 ووٹ لینا ہوتے ہیں، قومی اسمبلی میںموجودہ پارٹی پوزیشن کے مطابق 152 نشستیں تحریک انصاف کے پاس ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کی ایوان میں 81 نشستیں ہیں۔پیپلز پارٹی کی 54 نشستیں، متحدہ مجلس عمل 15 ، متحدہ قومی مومنٹ 7 ، بلوچستان عوامی پارٹی 5، بی این پی مینگل 4، مسلم لیگ ق 3، جی ڈی اے 3، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی ایک ایک نشست ہے جبکہ 4 نشستیں آزاد امیدواروں کے پاس ہیں۔تحریک انصاف کے پاس 152 نشستیں ہیں اور اسے متحدہ قومی مووومنٹ 7، پاکستان مسلم لیگ ق 3، بلوچستان عوامی پارٹی 5، بی این پی مینگل 4، جی ڈی اے 3، عوامی مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کے ایک ایک ممبر کی حمایت حاصل ہے جس سے ان کی ایوان میں عددی قوت 176بنتی ہے۔چار آزاد امیدواروں کا جھکاؤ بھی تحریک انصاف کی جانب ہوسکتا ہے، اگر ایسا ہوا تو پی ٹی آئی وزارت عظمیٰ کے لیے 180 ارکان کی حمایت حاصل کرسکتی ہے۔مسلم لیگ ن کے پاس 81 نشستیں ہیں جبکہ انہیںپیپلز پارٹی کے 54، متحدہ مجلس عمل کے 15 اور عوامی نیشنل پارٹی کے 1 ممبر کی سپورٹ حاصل ہے اور اپوزیشن کی عددی قوت 151 بنتی ہے جبکہ 4 آزاد امیدوارکس کے ساتھ ہونگےیہ واضح نہیں۔وزیر اعظم کی نشست کے حصول کے لیے قومی اسمبلی میں کسی بھی امیدوار کو آئین کےآرٹیکل 91 کی شق 4 کے تحت ایوان کے مجموعی ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔342 کے ایوان میں 2 نشستوں پر انتخابات ملتوی ہوئے جبکہ 6 نشستیں پی ٹی آئی ، 2 نشستیں ق لیگ اور 1 نشست ن لیگ کے حمزہ شہباز کی جانب سے ایک سے زائد نشستوں پر کامیابی کے باعث خالی ہوئی۔ ایک نشست این اے 215 پر پیپلز پارٹی کے امیدوار کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن عدالت عظمی کی جانب سے جاری کرنے کا حکم دے دیا گیا مگر اب تک ایسا ہوا نہیں اوراس طرح ایوان 330 کا ہے۔وزیراعظم کے انتخاب کے روز اگر 330 ممبران موجود ہوئے تو اس حساب سے جیت کے لیے 166 ممبران کی سپورٹ درکار ہوگی۔

تازہ ترین