• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو اقتدار سے رخصت ہوئے دو ماہ ہو چکے ہیں۔ پنجاب میں مختلف ادوار کو ملا کر کم و بیش تیس برس تک ن لیگ کی حکومت رہی۔ نواز شریف پنجاب کے وزیر خزانہ سے سیاست کا سفر شروع کر کے تین مرتبہ وزیر اعظم بنے مگر بدقسمتی سے ایک بھی دور مکمل نہ کر سکے۔ اس کو کہتے ہیں قسمت، اگر بات سمجھ میں آ جائے۔ شہباز شریف بھی دو مرتبہ وزیر اعلیٰ رہے مگر ہر ادارے کے تقدس اور میرٹ کی دھجیاں اڑا دیں۔ ہر محکمہ میں من پسند افراد کو تعینات کیا گیا، کہیں پر افسر سفارش پر من پسند پوسٹوں پر لگے تو کہیں حکمرانوں نے خود اپنی مرضی سے افراد کو لگایا، کوئی محکمہ نہ چھوڑا۔ پولیس، صحت، عدلیہ، ریلوے، پی آئی اے، ایکسائز حتیٰ کہ بینکوں کے سربراہ تک اپنی مرضی کے لوگ لگائے۔ جب پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی اور منظور احمد وٹو وزیر اعلیٰ تھے تو ان کے دور میں بھی ہر پوسٹنگ ان کی مرضی سے ہوئی۔ آج ن لیگ کے کئی رہنما جو کبھی اقتدار میں تھے، وہ بار بار کہتے ہیں کہ اداروں کا تقدس بحال ہونا چاہئے، اداروں کو اپنی حدود میں کام کرنا چاہئے۔ بھئی پہلے تو آپ نے ہر ادارے میں ایسے افراد لگائے جنہوں نے اپنی مرضی اور من مانیاں کیں اور وہ ناخدا بنے رہے۔ انہوں نے اداروں کے اندر اندھیر مچا دیا اب آپ کہتے ہیں کہ اداروں کو اپنی حد میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ پولیس کے محکمے کو ہی لے لیں پولیس کے اندر رشوت کا بازار گرم ہے، منشی اور اے ڈی ایسے افراد ہیں جو پولیس کے سپاہیوں کی اپیلیں اور حاضری رشوت لے کر لگاتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ تھانہ کلچر تبدیل کر دیا ہے، آج بھی دیہات کا تھانیدار بے تاج بادشاہ ہے جو کام تھانیدار کر جاتا ہے وہ ایس پی بھی نہیں کر سکتا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ن لیگ کی حکومت کا ہر وزیر ہر ادارے کے اندر بھرپور دخل اندازی کرتا تھا، میرٹ سے ہٹ کر افراد کو لگایا جاتا تھا، حق داروں کی حق تلفی کی جاتی رہی۔ افسروں کی سیاسی وابستگی اور سوچ کا پتہ کر کے ان کو لگایا جاتا رہا۔

صوبہ سندھ میں وڈے سائیں کی اجازت کے بغیر تو چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی چنانچہ سندھ میں تمام کمائی والے تھانوں میں تقرریاں وہاں کے سائیں کی مرضی سے ہوتی ہیں۔ تھانوں کو کمائی کا ذریعہ کس نے بنایا؟ کیونکہ پولیس کو ہر صاحب اقتدار نے مخالفین کو دبانے کے لئے استعمال کیا، جھوٹے مقدمے، جعلی پولیس مقابلے اور گھٹیا حربوں سے سیاسی مخالفین کو دبانا، یہ سب کچھ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ کیا عمران خان کی حکومت ان مسائل اور برائیوں پر قابو پا سکے گی؟ ہمارے نزدیک بہت مشکل کام ہے لیکن اگر چین میں راشی اور کرپٹ سیاستدانوں کو موت کی سزا ہو سکتی ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ کرپشن پر موت کی سزا دی جائے تو اس پر اعتراض کیوں ہو؟ اگر واقعی تبدیلی لانی ہے تو اس کی ابتدا سب سے پہلے بیورو کریٹس سے کی جائے جو صرف اپنے کاموں میں ہوشیار ہیں اور عوام کو صرف ذلیل کرتے رہتے ہیں۔ یہ بیورو کریٹس سیاستدانوں کے کندھوں پر سوار ہو کر آتے ہیں اور عوام کا کوئی کام نہیں کرتے۔

آج ہمارے ہاں ہو کیا رہا ہے۔ ہر محکمہ کا سیکرٹری پھر اس کا پی ایس او پھر اس کا پی اے۔ پہلے سائل کا انٹرویو پی اے کرتا ہے پھر پی ایس او کرتا ہے اگر وہ سمجھے کہ اس کو صاحب سے ملانا ہے تو ملایا جاتا ہے ورنہ وہیں سے بھگا دیا جاتا ہے۔ آج سیکرٹریٹ کے دروازے عام لوگوں پر بند ہو چکے ہیں۔ پنجاب کے ایک سابق چیف سیکرٹری نے تمام پرانا ریکارڈ ضائع کرا دیا تھا چنانچہ اب سیکرٹریٹ میں 2010ء تک کا بھی ریکارڈ دستیاب نہیں، اس پر پھر بات کریں گے کہ کس طرح لوگ خوار ہو رہے ہیں۔ کیا عمران خان وی وی آئی پی کلچر اور بیورو کریٹ رویے تبدیل کر پائے گا؟ کیا اس کی حکومت کے وزرا، وزراء اعلیٰ اور گورنر وی آئی پی کلچر کو خیرباد کہہ سکیں گے؟ ۔

کیا نئی حکومت ریلوے کی ان زمینوں کو واگزار کرائے گی جو مشرف دور، ن لیگ اور اس سے قبل کسی بھی دور میں انتہائی کم پیسوں پر لیز کی گئی ہیں۔ ریلوے کی اربوں روپے کی جائیداد ہے مگر اس کی زمینوں اور جائیدادوں پر بااثر لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ریلوے کی اہم جگہ کو چھڑانے کے لئے خواجہ سعد رفیق نے یہ کہا تھا کہ میں وہاں پانچ ہزار قلی بٹھا کر اس جگہ کو چھڑا لوں گا مگر آج تک وہ جگہ واپس نہ ہو سکی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بالکل درست کہا ہے کہ ریلوے کا آڈٹ ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے کسی سے کسی قسم کی رعایت نہیں ہونی چاہئے۔ ریلوے کو تباہی کے اس مقام پر پہنچانے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی ہونی چاہئے۔ یہ دعوے کہ ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنایا گیا ہے اس حوالے سے اس کا جائزہ لینا چاہئے۔ چیف جسٹس نے ریلوے کے خسارے کے حوالے سے ازخود نوٹس میں ریلوے کا مکمل طور پر آڈٹ کرانے کا کہا ہے۔ ایک طرف مسلم لیگ (ن) والے یہ دعوے کرتے رہے کہ پاکستان کو پیرس بنائیں گے تو دوسری طرف یہ بھی کہتے رہے پاکستان چین اور امریکہ نہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) مرکز میں پانچ برس تک اقتدار میں رہی ہے اس کے بعد یہ کہنا کہ مزید بارہ برس میں ریلوے ٹھیک ہو جائے گی، سمجھ سے باہر ہے۔ سیاست میں آنے والے خود تو دو تین برس میں صاحب حیثیت ہو جاتے ہیں مگر جس محکمے کے لوگ وزیر ہوتے ہیں اس کو درست نہیں کر پاتے۔ جن لوگوں نے اداروں کی تقدیر بدلنا ہوتی ہے اس کے لئے دو تین برس بھی کافی ہوتے ہیں۔ بہرحال اگر مسلم لیگ (ن) کے لوگ آج یہ کہتے ہیں کہ اداروں کی عزت ہونی چاہئے اور ہماری بھی عزت ہونی چاہئے تو دوستو برا نہ منائیں تو صرف اتنا عرض کریں گے کہ اداروں کی عزت وہاں پر کام کرنے والے بناتے ہیں۔ کسی بھی ادارے کو لوگ ہی بناتے اور برباد کرتے ہیں۔ ادارہ اپنے آپ نہ بنتا ہے اور نہ برباد ہوتا ہے۔ ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل اگر آج تباہی کے دہانے پر ہیں تو اس کے ذمہ دار وہ لوگ اور وزراء ہیں جو ان اداروں کے سربراہ رہے۔ جب تک لوگ میرٹ پر نہیں آئیں گے اداروں کا تقدس بحال نہیں ہو گا۔ چھوٹے میاں صاحب سے معذرت کے ساتھ، اداروں کے حوالے سے آپ نے اپنے دور اقتدار میں کوئی اچھی مثال نہیں چھوڑی۔ 56کمپنیاں بنا کر وہ لوٹ مار مچائی کہ خدا کی پناہ۔ لاکھوں روپے ماہانہ کرائے پر عمارات لی گئیں، کتنا کرایہ اور کتنی سیکورٹی کس کی جیب میں گئی، کسی دن یہ بات بھی سامنے آ جائے گی۔

سنا ہے کہ محکمہ صحت پنجاب کو دوبارہ سے ایک کیا جا رہا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے۔ ایک وزیر صحت اور ایک سیکرٹری صحت ہو گا۔ ماضی میں یہ تجربہ کیا گیا تھا جب غلام سرور اور بدر الدین دو وزیر صحت ایک رورل کا دوسرا اربن کا تھا۔ دو سیکرٹری صحت ایک رورل اور دوسرا اربن، اس وقت یہ تجربہ ناکام ہوا تھا۔ ن لیگ کی حکومت نے اپنے اقتدار میں اسے اسپیشلائزڈ کیڈر اور پرائمری ہیلتھ کا نام دے کر دو وزیر صحت، دو سیکرٹری صحت اور دو اسپیشل سیکرٹری صحت بنا کر ایک ناکام تجربہ کیا جس کے منفی اثرات اب تک سامنے آ رہے ہیں۔

عمران ملک کے نئے وزیراعظم بن چکے ہیں۔ اب ان کا فرض ہے کہ وہ باتیں جو انہوں نے دورا ن الیکشن کہیں انہیں پورا کریں۔ وی وی آئی پی کلچر کو ختم کریں۔ میرٹ پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کرائیں۔ جن محکموں میں سیاسی وابستگیوں والے بیوروکریٹس لگے ہوئے ہیں ان کو چلتا کریں۔ سیکرٹریٹ کے دروازے عام لوگوں کے لئے کھولے جائیں۔ تمام وزرائے اعلیٰ سیکرٹریٹ میں بیٹھ کر عوام کی شکایات سنیں، پولیس کے بے لگام گھوڑے کو نکیل ڈالیں۔ بلاول بھٹو کا قومی اسمبلی کے اجلاس میں انگریزی میں تقریر کرنا باعث افسوس ہے۔ اپنے ملک کی پارلیمنٹ میں انگریزی میں خطاب کرنا بالکل غیر مناسب ہے۔ سپریم کورٹ بھی کہہ چکی ہے کہ اردو زبان میں سرکاری خط و کتابت کی جائے۔ پاکستان میں کتنے فیصد لوگ انگریزی زبان جانتے ہیں یہ سب کو علم ہے۔ یہ کوئی اچھی روایت نہیں، ووٹ اردو زبان میں تقریر کرکے حاصل کئے اور پارلیمنٹ میں خطاب انگریزی میں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین