اسلام آباد میں واسع جلیل اور قمر منصور کی دعوت پر میں اور مظہر برلاس متحدہ قومی موومنٹ کی ایک تقریب میں شریک ہوئے جس کاموضوع تھا اسرائیلی جارحیت اور اقوام عالم کا کردار ۔بے شمار مقرریں نے اظہار خیال کیااور آخر میں الطاف حسین نے اپنے خطاب میں فلسطینیوں پر ہونے والی ظلم کے خلاف ایک نئے احتجاج ایک نئی تحریک کی بنیاد رکھی۔ میں نے بڑے غور سے ان کی مدبرانہ اور پُرجوش گفتگو سنی ۔مجھے پہلی بار الطاف حسین صرف پاکستانی قوم کے نہیں عالم ِ اسلام کے ایک لیڈر محسوس ہوئے ۔ یقین کیجئے میں ایک اور الطاف حسین سے متعارف ہوا، ان کے دل میں اسلام کی اتنی تڑپ ہوگی میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔مجھے یہ دیکھ کر بھی حیرت ہوئی کہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے ہال میں تقریباً آدھے لوگ پنجابی ، سرائیکی ، سندھی بلوچی ، پٹھان اور کشمیری تھے۔پاکستان کی تمام قومیتیں وہاں متحد نظر آئیں اور جو مہمان بلائے گئے تھے وہ بھی مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور متحدہ قومی موومنٹ کے احتجاج میں پوری طرح شریک تھے ۔مذہبی جماعتوں کی بھی بھرپور نمائندگی تھی حتی کہ مفتی منیب الرحمن جیسے جید علمائے کرام بھی تشریف فرماتھے۔
مظہر برلاس اور میں وہاں سے نکل کر کوہسار مارکیٹ میں آگئے جہاں بیٹھ کر اسی موضوع پر دیر تک گفتگو کرتے رہے۔اور اس نتیجے پر پہنچے کہ مسئلہ اسرائیل نہیں اسرائیل کو بنانے والے اور اس کی پشت پناہی کرنے والے ہیں۔ اس سلسلے میں میرا نقطہ ء نظر بڑا واضح ہے۔میں اسرائیل کوبحیثیت مملکت تسلیم نہیں کرتا دنیا جسے مسئلہ فلسطین کہتی ہے میں اسے مسئلہ اسرائیل کہتا ہوں ۔کیونکہ مسئلہ فلسطین نہیں مسئلہ اسرائیل ہے ۔جو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے سینے پر بہتے ہوئے ناسور کی صورت موجود ہے اور کینسربنتا جارہا ہے ۔اسرائیل دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کی اپنی کوئی زمین نہیں کوئی تاریخ نہیں کوئی جغرافیہ نہیں۔یہودیت انیسویں صدی تک دنیا کی مظلوم ترین قوم تھی ۔عیسائیت نے اس پر دنیا تنگ کر رکھی تھی اور تیرہ سو سال سے مسلمان یہودیوں کو پناہ دیتے آرہے تھے ۔اٹھارہویں صدی کی آخری دھائی میں دانش ِ افرنگ نے سوچا کہ اسلام کوختم کرنے کیلئے یہودیت کو مسلمانوں سے ٹکرادیا جائے یوں انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کئے۔ یہودیت کو ایک ریاست کا خواب دکھایا گیا اور پھر اس کی تعمیر کا کام شروع کردیا گیااس تعمیر میں انسانی جسم کے ٹکڑے اینٹوں کے طور پر استعمال کئے گئے اور لہو کو گارے کے طور پر برتا گیا۔دنیا بھر سے یہودیوں کو ڈھونڈ ڈھانڈھ کرفلسطین میں آباد کیا گیا۔شروع شروع میں فلسطینوں سے ان کی زمینیں خریدی گئیں اور پھر قبضہ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ۔ظلم کی انتہا کی گئی ۔زمینوں پر قبضہ کرنے کیلئے پورے خاندان بچوں سمیت مار دئے گئے بہر کیف اسرائیل بنا لیا گیامسلمان مجبور ہوگئے کہ وہ اپنے سینے پر لگائے اس زخم کا کوئی تدارک کریں ۔جنگ ہوئی مگریہودیت کے روپ میں عیسائیت نے مسلمانوں پر ایک بھرپور وار کیا اورمسلمانوں کے کچھ علاقے یہودیت کی جاگیرمیں شامل کردئے گئے ۔فلسطینی مسلمان نے اپنا ملک واپس لینے کی تگ و دو جاری رکھی مگر کامیابی ان کے قریب نہ پھٹک سکی کیونکہ مسلمان حکمران بک چکے تھے۔بیچارے اکیلے کیا کرتے مرتے رہے ۔ بم گرتے رہے ۔ ٹینک نہتوں پر گولے برساتے رہے مگر انہوں نے یہودیت کے آگے سر نہ جھکایا۔
ان دنوں پھر وہی موسم آیا ہوا ہے۔نخل ِصلیب پر پھر فلسطینوں کے سر سجے ہوئے ہیں۔ اور مسلمان اتنے کمزور اور مردہ دل دکھائی دے ر ہے ہیں کہ جنگ تو کجابھرپور انداز احتجاج بھی نہیں کر سکتے۔اپنی اس کم مائیگی پررونے کوجی چاہ رہا ہے۔میں اس وقت الطاف حسین کی دکھ بھری گفتگو اوراپنی پلکوں پر لرزتے آنسو بارہ گاہِ رسالت میں پیش کرنے کی جسارت کرتاہوں کہ بس وہی چارہ ساز بیکساں ہیں ۔ پیغمبر انسانیت ہیں۔
طلسمِ شہر نگاراں حصارِ شب میں ہے
فروغِ صبحِ بہاراں حصارِ شب میں ہے
گرائے کون ستم کی بلند دیواریں
ہر ایک دیدہٴ یاراں حصارِ شب میں ہے
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
یہ سر زمین سسکتی بلکتی رہتی ہے
قدم قدم پہ قیامت دھڑکتی رہتی ہے
یہ آسمان بھی دیتا نہیں ہے چھت کا کام
سروں پہ ظلم کی بجلی کڑکتی رہتی ہے
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
لہو سے خاک کی تزئین زندگی کیلئے
یہ روز کی نئی تدفین زندگی کیلئے
حصارِ موت میں تیرا ہے قبلہ ء اول
تڑپ رہا ہے فلسطین زندگی کیلئے
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
چراغ اپنے سروں کے جلا کے مجبوراً
گزارتے ہیں برس ابتلا کے مجبوراً
سرنگ دونوں طرف سے ہے بند جیون کی
ضمیر کرتے ہیں خود کش دھماکے مجبوراً
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
ہوا کہ اشک مسلسل بکھیرتی آئی
اداسیوں بھرے بادل بکھیرتی آئی
نصیبِ شام کی ظلمت نصیب ہچکی پر
شبِ سیہ بھی کاجل بکھیرتی آئی
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
صدائیں آتی ہیں شعلوں کے بین کرنے کی
یا آبشار گرے ہے لہو کے جھرنے کی
عجیب ہے شبِ ماتم کہ نوحہ گر خاموش
نئی روایتیں قائم ہوئی ہیں مرنے کی
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
دماغ درد کے بولوں سے اٹ گیا اپنا
بدن تمام پھپھولوں سے اٹ گیا اپنا
لکیریں ہاتھ کی بارود لے گیا چُن کر
نصیب توپ کے گولوں سے اٹ گیا اپنا
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
لبِ فرات کی گفت و شنید گلیوں میں
اجل بدست پھریں بس یزید گلیوں میں
پڑی ہیں شہر میں لاشیں مدینہ والوں کی
ہوئے حسین کئی پھر شہید گلیوں میں
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ