اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ بدترین جمہوریت سے بہترین جمہوریت کی طرف سفر جاری ہے اور انشاء اللہ وہ دن بھی آئیگا جب حقیقی جمہوریت اس ملک کے لوگوں کا مقدر ضرور بنے گی۔ تمام تر شکوک و شبہات اور دھاندلی کے الزامات کےپل صراط عبور کر کے وفاق میں پی ٹی آئی اپنا ا سپیکر ، ڈپٹی اسپیکر اور وزیراعظم منتخب کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ کے پی کے اور پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی حکومتیں قائم ہوچکی ہیں بلوچستان میں اسکی اتحادی جماعت کا وزیراعلیٰ بن گیا جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی نے اپنا تسلسل قائم رکھتے ہوئے ایک بار پھر مراد علی شاہ کو وزیراعلیٰ منتخب کر لیاہے۔عمران خان کے حوالے سے بڑے دلچسپ حقائق سامنے ہیں کہ وہ 1992ءکا ورلڈ کپ 22 کے اسکور سے جیتے، 22سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد 22کروڑ عوام کے 22ویں وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان،صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سمیت تمام نمائندوں کو پوری قوم خوش آمدید کہتی ہے ۔وقت بدل چکا ، اب نئی پارٹی ، نئے لوگوں اور عزم کیساتھ اس ملک کے استحکام اور ترقی کیلئے میدان میں ہے۔ انتخابات جیتنے کے بعد عمران خان نے جو پہلی تقریر کی اس میں اپنا روڈ میپ کلیئر کر دیا تھا کہ وہ وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہیں گے۔ وزیراعظم ہائوس سمیت تمام گورنر ز ہائوسزکوکسی تعمیری کام کیلئے استعمال میں لایا جائیگا۔ کوئی پروٹوکول نہیں لیں گے، نہ ہی وزرائے اعلیٰ اور وزیر پروٹوکول لیں گے۔ وہ الیکشن جیتنے کے بعد اپنی پارٹی کے پارلیمانی اجلاس میں شرکت کیلئے مقامی ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے تو انہیں وزیراعظم کا پروٹوکول دے دیا گیا ،جس پر انہوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا لیکن دوسری طرف انتظامیہ کا کہنا تھا کہ بلیو بک کے مطابق وہ پروٹوکول دیتے رہیں گے کیونکہ اہم شخصیت کی خواہش کے باوجود قواعد وضوابط پر عمل کرنےکے ہم پابند ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پروٹوکول نہ لینے کیلئے بلیو بک میں تبدیلی لانا ہوگی۔ جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ عمران خان نے اپنی پارٹی کے ذمہ داروں کو ٹاسک دیا ہے کہ وہ بلیو بک میںتبدیلی کیلئے سفارشات مرتب کریں تاکہ روایتی پروٹوکول ختم کر دیا جائے۔ پروٹوکول کی دیوار برلن گرائے جانے کی خبر عوام کیلئے بڑی خوشی کا باعث ہے۔ اب جب کہ پروٹوکول نہیں تو عوام بھی اپنائیت کیساتھ چند چھوٹی چھوٹی خواہشات کا اظہار کھلے دل سے وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے سامنےکرنا چاہتے ہیں ۔ پوری قوم کیلئے یہ بات بڑی اطمینان بخش ہے کہ عمران خان نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ اللہ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اب سب کا کڑا احتساب ہوگا ، کوئی این آر او نہیں دیں گے اور لوٹی ہوئی دولت دوسرے ممالک سے پاکستان میں لائیں گے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کئی سال کی تحریک سے پوری قوم کو اسقدر چارج کر دیا ہے کہ اب وہ اس حکومت سے جو توقعات وابستہ کئے ہوئے ہے، اگر یہ پوری نہیں ہوئیں یا پوری ہونے کی طرف اقدام نہیں کئے گئے تو پھر اتنی ہی شدت کیساتھ نہ صرف مایوسی پھیلے گی بلکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کیلئے محبت کی جگہ نفرت لے لے گی،ہمارے ہاں کرکٹ ٹیم جب کوئی میچ جیتتی ہے تو پوری قوم اسکو کاندھوں پر اٹھا لیتی ہے اگر یہی ٹیم محنت کے باوجود ہار جاتی ہے تو پھر اسی شدت سے قوم نفرت کا فوری اظہار بھی کردیتی ہے۔ اسلئے وزیراعظم عمران خان کو اپنی ساری منصوبہ بندی عوام کے اس مزاج کو مدنظر رکھ کر ترتیب دینی چاہئے ۔ معاملات کو جذباتی انداز میں لینے کی بجائے سوچ سمجھ کر بڑے دھیمے پن کیساتھ حکومت کو آگے لیکرچلنا ہوگا۔ ہر قومی ایشو پر اپوزیشن کیساتھ مل کر چلنے کو اولین ترجیح ہونی چاہئے،ابھی امیدواروں نے منصب سنبھالے نہیں لیکن جتنے والے امیدوار بغیر پروٹوکول عام عوام پر چڑھ دوڑے ہیں ۔ شیخوپورہ میں پہلے ایک ایم پی اے نے پولیس کو تشدد کا نشانہ بنایا ، پھر کراچی میں ایک ایم پی اے نے ایک غریب آدمی پر اپنی طاقت کا اظہار کر دکھایا جو بہت ہی افسوسناک آغاز ہے۔ عمران خان کیلئے ظلم کی طاقت کو روکنا سب سے برا چیلنج ہوگا۔ عوام کی یہ بہت ہی معصوم خواہش ہے کہ جب کبھی کسی مریض کو اسپتال لے جانے کیلئے نکلیں تو کوئی وزیراعظم ، وزیراعلیٰ یا کسی بڑی شخصیت کے پروٹوکول کیلئے سڑکیں بند نہ ہوں۔ آسانی سے وہ اسپتال پہنچے۔ اس غریب مریض کو مفت علاج معالجہ کی سہولتیں میسر آئیں—عام آدمی کی یہ چھوٹی سی خواہش ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار پرائیویٹ اداروں سے بڑھ کر ہو لیکن فیس نہ ہونے کے برابر ، ان سرکاری تعلیمی اداروں میںصرف عام غریب لوگ ہی نہ پڑھیں بلکہ امیربھی اپنے بچے بھیجنے کو توہین سمجھتے ہیں وہ بھی پڑھانے میں فخر محسوس کریں۔ نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار ، نصاب اور ذریعہ تعلیم کی زبان ایک ہی قومی پالیسی کے مطابق ہو اگر اس کیلئے 18ویں ترمیم میں مزید ترمیم درکار ہو تو ضرورکی جائے —یہ قائداعظمؒ کا پاکستان جسے وزیراعظم عمران خان نیا پاکستان کہتے ہیں اگر اسکا شہری واپڈا میں بجلی کا کنکشن لینے جائے تو اسے رشوت نہ دینی پڑے ، شہریوں کو جعلی ریڈنگ والے بل نہ بھیجیں جائیں۔ سوئی گیس کے کنکشن کیلئے اصل فیس دینے کے بعدبھی بڑی بڑی سفارشیں اور رشوت نہ دینی پڑے ۔ واسا شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرے اور صحیح سیوریج سسٹم دے،پاکستانی شہریوں کو احساس تحفظ حاصل ہو۔ انہیںتھانہ کچہری میں انصاف کیلئے ایڑیاں نہ رگڑنی پڑیں ۔ پولیس میں سیاسی مداخلت نہ ہو۔ جگہ جگہ جو انصاف بکتا ہے اسکا قلع قمع ہو ۔ اگر چھوٹی عدالت سے لیکر عدالت عظمی تک انصاف کی خاطر جانا ضروری ہو تو غریب آدمی کیلئے وکیل کرنیکی ذمہ داری ریاست کی ہو۔
ایسا بلدیاتی نظام ہو کہ بلدیاتی اداروں کے نمائندے اپنے علاقے کو صاف ستھرا رکھنے اور خوبصورت بنانے کیلئے اپنی جدوجہد کریں اور علاقے کے لوگوں کی خدمت کر کے یہ نمائندے فخرمحسوس کریں ۔ ترقیاتی فنڈز کا استعمال صرف میرٹ کی بنیاد پر ہو اور عوام کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ انکا احتساب کر سکیں ۔ بڑی بڑی خواہشات کا تو ذکر نہیں کرتے لیکن ایک چھوٹی سی خواہش یہ بھی ہے کہ بیوروکریسی کےدروازے عوام کیلئے بند ہوتے ہیں۔ وہ کھل جائیں ۔ انکی گردنوں کے سریئے نکال کر عوام کیلئے ان تک پہنچنے کے پختہ اور تیز ترین راستے بنادیئے جائیں،اس ملک کے ہر شہری کو بلا امتیاز نوکری کے نہ صرف ایک جیسے مواقع میسر ہوں بلکہ نوکریاں صرف میرٹ کی بنیاد پر دی جائیںاور میرٹ توڑنے والوں کوسخت سزا دی جائے۔ یہ قانون سرکاری اور نجی اداروں پر یکساں لاگو ہو۔ ملک سے بیروز گاری ختم کرنیکا یہ سنہری طریقہ ہے—اشیائے صرف کی قیمتیں اتنی ارزاں ہوں کہ ایک عام غریب آدمی بھی انہیں خرید سکے ۔ ملاوٹ اور غیر معیاری چیزیں بنانے ، رکھنے اور بیچنے والوں کو سرعام چوراہوں پر سزائیں دی جائیں۔
عوام کی خواہشات تو بہت ہیں لیکن ایک آخری خواہش یہ ہے کہ ا س ملک میں قانون کی حکمرانی ہو، انصاف کابول بالا ہو تو باقی کسی خواہش کی ضرورت نہ رہے گی۔ لوگوں کو انصاف دلانا ہی پی ٹی آئی کی بنیاد تھی عوام کو تو یہی امید ہے کہ عمران خان جو پاکستان بنانے جا رہے ہیں وہ اسی بنیاد پر ہوگا۔ یہ پاکستان بنانے کیلئے انہیں کانٹوں کی سیج پر چلنا ہوگا تب ہی عوام کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری ہو سکیں گی!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)