• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتظار حسین نے اپنی کتاب میں ایک دو جگہ مظفر علی سید کا بھی ذکر کیا ہے۔ کنہیا لال کپور سے انتظار حسین نے کہا:

’’کپور صاحب! آپ اپنے دوست، مظفر علی سید پر کام کررہے ہیں۔‘‘

کپور صاحب نے جواب دیا:

’’ہاں! سید صاحب کا خط آیا تھا۔ میں نے انہیں لکھ بھیجا ہے کہ یہاں ایک سکھ مجھ پر کام کرنے کے در پے تھا، مگر ایک سکھ کے ہاتھوں جھٹکا ہونے کے مقابلے میں مجھے ایک سید کی چھری سے ذبح ہونا منظور ہے۔‘‘

٭…٭…٭

ایک انگریز خاتون، جو خاصا ادبی ذوق رکھتی تھیں، کنہیا لال کپور سے متعارف ہوئیں، تو اُن کے نحیف و نزار جسم کو دیکھ کر کہنے لگیں: ’’کپور صاحب! آپ سُوئی کی طرح پتلے ہیں۔‘‘ کپورؔ نے مسکراتے ہوئے نہایت انکساری سے کہا: ’’آپ کو غلط فہمی ہوئی محترمہ! بعض سوئیاں مجھ سے بھی موٹی ہوتی ہیں۔‘‘

٭…٭…٭

کلکتے کے ایک بنگالی پروفیسرسے کنہیا لال کپور کا تعارف کرایا گیا تو اُس نے کپور صاحب کے دُبلے پتلے جسم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : ’’آپ پنچابی ہرگز معلوم نہیں ہوتے۔‘‘ ’’آپ بجا فرماتے ہیں۔‘‘ کپور نے جواب دیا۔ ’’پنجابی کے بجائے بنگالی نظر آتا ہوں۔‘‘ ’’نہیں صاحب بنگالی سے بھی بدتر۔‘‘ ’معاف کیجیے گا، بنگالی سے تو شاید ہی کوئی بدتر ہوگا۔‘‘

٭…٭…٭

کنہیا لال کپور، ایک بار کسی اور ادبی اور معیاری قسم کے اردو ماہنامہ کے ایڈیٹر سے ملنے کے لیے اس کے دفتر میں گئے۔ باتوں باتوں میں ان ایڈیٹر دوست سے دریافت کیا۔ ’’آپ کا پرچہ ہر ماہ کتنی تعداد میں شائع ہوتا ہے۔‘‘ ’’گیارہ سو…‘‘ ’’گیارہ سو؟‘‘… وہ کیوں؟…‘‘ کپور نے حیران ہوکر پوچھا۔ ’’ایک ہزار مارکیٹ میں فروخت کرنے کے لیے اور ایک سوا عزازی طور پر ادیبوں کو مفت بھیجنے کے لیے۔‘‘ کپور نے انتہائی سنجیدگی سے مشورہ دیا۔ ’’تو جناب آپ ایک سو پرچہ ہی شائع کیا کیجیے۔‘٭…٭

کنہیا لال کپور نے کسی شخص پر خفا ہوتے ہوئے کہا: ’’میں تو آپ کو شریف آدمی سمجھا تھا۔‘‘ ’’میں بھی آپ کو شریف آدمی ہی سمجھتا تھا۔‘‘ اس شخص نے بھی برہمی میں بلا سوچے سمجھے کہہ دیا۔ ’’تو آپ ٹھیک سمجھے، غلط فہمی مجھ کو ہوئی۔‘‘ کپورؔ نے نہایت سنجیدگی اور کمال عجز سے اعتراف کرلیا۔

٭…٭…٭

تازہ ترین
تازہ ترین